موسیٰ (ع)اور ہارون (ع)کے جہاد کا ایک پہلو

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 08
حضرت موسیٰ (ع) کے خلاف جنگ کا دوسرا مرحلہحضرت نوح (ع) کے بعد آنے والے انبیاء

گزشتہ انبیاء او ران کی امتوں کے واقعات کو زندہ نمونہ کے طور پر ذکر کیا گیا ہے ، اس سلسلے میں سب سے پہلے حضرت نوح (ع) کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے پھر حضرت نوح (ع) کے بعد کے پیغمبروں کاذکر ہوا ہے ۔
اب زیر نظر آیات میں حضرت موسیٰ (ع) اور حضرت ہارون (ع) کے بارے میں بات کی گئی ہے ۔ یہاں فرعون اور اس کے ساتھیوں سے ان کے مسلسل مبارزات اور جہاد کا کچھ ذکر کیا گیا ہے ۔
پہلی آیت میں ارشاد ہوتا ہے : گزشتہ انبیاء کے بعد ہم نے موسیٰ او رہارون کو فرعون اور اس کی جماعت کی طرف آیات و معجزات کے ساتھ بھیجا ( ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْ بَعْدِھِمْ مُوسَی وَھَارُونَ إِلَی فِرْعَوْنَ وَمَلَئِہِ بِآیَاتِنَا) ۔۱
جیسا کہ پہلے بھی ذکر کیا جا چکا ہے ان زرق و برق اشراف کو ملا ء کہا جاتا ہے کہ جن کا ظاہر آنکھ کو پر کردے اور اجماع میں ہو ں تو نمایاں ہوں ۔ زیر بحث آیت میں ایسی دیگر آیات میں یہ لفظ حواریوں ، اطرافیوں او رمشیروں کے معنی میں آیا ہے ۔
یہ جو ہم دیکھتے ہیں کہ گفتگو صرف فرعونیوں کی طرف حضرت موسیٰ (ع) کے مبعوث ہو نے کے بارے میں ہے جب کہ حضرت موسیٰ تمام فرعونیوں اور بنی اسرائیل کی طرف مبعوث ہوئے تھے تو ا س کی وجہ یہ ہے کہ معاشرے کی بض بر سر اقتدار پارٹی او ران کے خاندان کے ہاتھ میں ہوتی ہے اس لئے ضروی ہے کہ ہر اصطلاحی اور انقلابی پر گرام میں پہلے انھیں ہدف بنا یا جائے ۔ جیسا کہ سورہ ٴ توبہ کی آیہ ۱۲ میں بھی ہے:
فقاتلوا ائمة الکفر
پس کفر کے حکمرانوں اور دالیوں سے جنگ کرو۔
لیکن فرعون اور فرعونیوں نے حضرت موسیٰ (ع) کی دعوت سے رو گر دانی کی اور حق کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کی بجائے اس سے تکبر کیا

( فَاسْتَکْبَرُوا) ۔
انھوں نے تکبر کی وجہ سے اور انکساری کی روح نہ ہونے کے باعث حضرت موسیٰ کی دعوت کے واضح حقائق کی پر واہ نہ کی ۔ اس طرح اس مجرم اور گنہ گار قوم نے اپنا جرم و گناہ جاری رکھا ۔ ( وَ کَانُوا قَوْمًا مُجْرِمِینَ) ۔
اگلی آیت میں حضرت موسیٰ اور ان کے بھائی سے فرعونیوں کے بعض مبارزات کے بارے میں گفتگو ہے پہلا مرحلہ یہ تھا کہ انھوں نے انکار ، تکذیب اور افتراء کا راستہ اختیار کیا ان کی نیت کو بڑا قرار دیا ۔بڑوں کے طریقے کو درہم بر ہم کرنے کا الزام دیا اور اجتماعی نظام میں خلل ڈالنے کی تہمت لگائی ۔ جیسا کہ قرآن کہتا ہے : جس وقت ہماری طرف سے حق ان کے پاس آیا ( تو باوجودیکہ انھوں نے اس کے چہرے سے اسے پہچان لیا ) کہنے لگے کہ یہ واضح جادو ہے

 ( فَلَمَّا جَائَھُمْ الْحَقُّ مِنْ عِنْدِنَا قَالُوا إِنَّ ھَذَا لَسِحْرٌ مُبِینٌ) ۔
حضرت موسیٰ کی دعوت کی قوت ِ جاذبہ ایک طرف، آنکھوں میں سما جانے والے معجزات دوسری طرف روز افزون اور حیران کن اثر نفوذ تیسری طرف بنے کہ فرعونی فکر میں پڑ گئے ۔ انھیں اس سے بہتر کوئی بات نہ سوجھی کہ انھیں جادو گر کہیں اور ان کے کام کو جا دو قرار دیں اور یہ ایسی تہمت ہے جو پوری تاریخ انبیاء میں اور خصوصاً پیغمبر اسلام کے بارے میں نظر آتی ہے لیکن حضرت موسیٰ (ع) نے اپنے دفاع میں دو لیلوں سے نقاب الٹ دئیے اور ان کے جھوٹ اور تہمت کو آشکار کردیا ۔
آپ (ع) نے پہلے ان سے کہا کہ کیا تم حق کی طرف جادو کی نسبت دیتے ہو کیا یہ جادو ہے اور ا س کی جادو سے کوئی مشابہت ہے ؟
( قَالَ مُوسَی اٴَتَقُولُونَ لِلْحَقِّ لَمَّا جَائَکُمْ اٴَسِحْرٌ ھَذَا ) ۔
مندر جہ بالا جملے میں محذوف مقدر ہے کہ جو پورر کلام سے سمجھا جاتا ہے ، جو اصل میں اس طرح ہے :
اتقولون للحق لما جاء کم سحر، اسحر ھٰذا“
یعنی یہ درست ہے کہ سحر اور معجزہ دونوں ہی اثر رکھتے ہیں ۔ یہ حق اور باطل ممکن ہے دونوں لوگوں کو متاثر کریں لیکن جادو ک اچہرہ کہ جو ایک باطل چیز ہے ، معجزے سے کہ جو حق ہے بالکل جدا ہے ۔ انبیاء کے اثر کو جادو گروں کے اثر پر قیاس نہیں کیا جاسکتا ۔ جادو گروں کے کام بے ہدف ، محدود اور بے وقعت ہوتے ہیں ۔ جب کہ انبیاء کے معجزات کے مقاصد روشن ، اصلاحی ، انقلابی اور تربیتی ہوتے ہیں علاوہ ازیں جادو گر بھی کامیاب نہیں ہوتے( وَلاَیُفْلِحُ السَّاحِرُونَ) ۔
یہ تعبیر در اصل انبیاء کے کام کے جادو سے ممتاز اور جدا ہونے پر ایک دلیل ہے پہلی دلیل میں جادو اور معجزے کا فرق بیان کیا گیا ہے ان دونوں کے مختلف رخ کی طرف اشارہ ہے اور ان کے ہدف اور مقصد ک ااختلاف ثابت کیا گیا ہے لیکن یہاں جادو گر اور معجزہ لانے والے کے حالات و صفات کے اختلاف کے حوالے سے مطلب کے اثبات میں مدد لی گئی ہے ۔
جادو گر کا کام اور فن انحراف پیدا کرنے اور غافل کرنے کا پہلو رکھتا ہے ۔ جادو سے فائدہ اٹھانے والے افراد منحرف ، لوگوں کو غافل کرنے والے اور دھوکا باز ہوتے ہیں ۔ جبکہ پیغمبر حق طلب ، دلسوز ، پاک دل ، باہدف ، نیک ، پارسا اور مادی امور کی پرواہ نہ کرنے والے جواں مرد ہوتے ہیں ۔
جادو گر بھی رست گاری اور فلاح کا چہرہ نہیں دیکھتے وہ دولت و ثروت ، مقام اور منصب ذاتی مفادات کے سوا کسی چیز کے لئے کام نہیں کرتے ۔ جبکہ انبیاء کا ہدف و مقصد ہدایت ، خلق خدا کا مفاد اور انسانی معاشرے کے تمام معنوی اور مادی پہلو وٴں کی اصلاح ہوتا ہے ۔
پھر انھوں نے اپنی تہمتوں کی سیلاب کا رخ موسیٰ کی طرف کئے رکھا اور ان سے کھل کر کہنے لگے: کیا تو ہمارے آباوٴواجداد اوربزرگوں کے طور طریقے سے پھیر دینا چاہتا ہے ( قَالُوا اٴَجِئْتَنَا لِتَلْفِتَنَا عَمَّا وَجَدْنَا عَلَیْہِ آبَائَنَا) ۔
در حقیقت انھو ں نے بڑوں کے طور طریقے ، رسومات ، خیالی عظمت او ران کے افسانوی بتوں کا سہارا لیا تاکہ عوام کو حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون (ع) سے متنفر کرسکیں اور انھیں یقین دلائیں کہ یہ تمہارے معاشرےاور ملک کے مقدسات اور عظمتوں کو پامال کرنا اور ان سے کھیلنا چاہتے ہیں ۔
اس کے بعد انھو ں نے اپنی پہلی بات کو جاری رکھا اور کہا کہ خدا کے دین کے بارے میں تمہاری دعوت جھوٹ سے زیادہ کچھ نہیں ۔ یہ تو سب اس سر زمین پر حکومت کرنے کے لئے جال اور خائنانہ سازشیں ہیں ( وَتَکُونَ لَکُمَا الْکِبْرِیَاءُ فِی الْاٴَرْضِ ) ۔
درحقیقت چونکہ ان کی ہر کوشش لوگں پر ظالمانہ حکومت کے لئے تھی لہٰذا دوسروں کو بھی ایسا ہی خیال کرتے تھے ۔ وہ انبیاء کی مصلحانہ کو ششوں کو بھی یہی معنی پہناتے تھے اور کہتے تھے کہ ” تم جان لو کہ ہم تم دو افراد پرکبھی ایمان نہیں لائیں گے ۔ “ کیونکہ ہم تمہارے مقاصد سمجھ لیتے ہیں اور تمہارے تحزیبی پر گرام سے ہم آگاہ ہیں (وَمَا نَحْنُ لَکُمَا بِمُؤْمِنِینَ) ۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خلاف ان کی جنگ کا یہ پہلا مرحلہ ہے ۔

 

۷۹۔ وَقَالَ فِرْعَوْنُ ائْتُونِی بِکُلِّ سَاحِرٍ عَلِیمٍ۔
۸۰۔ فَلَمَّا جَاءَ السَّحَرَةُ قَالَ لَھُمْ مُوسَی اٴَلْقُوا مَا اٴَنْتُمْ مُلْقُونَ ۔
۸۱۔ فَلَمَّا اٴَلْقَوْا قَالَ مُوسَی مَا جِئْتُمْ بِہِ السِّحْرُ إِنَّ اللهَ سَیُبْطِلُہُ إِنَّ اللهَ لاَیُصْلِحُ عَمَلَ الْمُفْسِدِینَ۔
۸۲۔ وَیُحِقُّ اللهُ الْحَقَّ بِکَلِمَاتِہِ وَلَوْ کَرِہَ الْمُجْرِمُونَ ۔

ترجمہ

۷۹۔ فرعون نے کہا :ہر گاہ جادو گر ( اور ساحر )کومیرے پاس لے آوٴ ۔
۸۰۔ جس وقت جادو گر آئے اور موسیٰ نے ان سے کہا : تم ( جادو کے اسباب میں سے ) جو کچھ ڈال سکتے ہو ڈال دو ۔
۸۱۔ جب انھوں نے ( جا دو کے اسباب) ڈالے تو موسیٰ نے کہا کہ جو کچھ تم لائے ہو وہ جادو ہے جسے خدا جلدی باطل کر دے گا کیونکہ خدا فساد کرنے والوں کے عمل کی اصلاح نہیں کرتا ۔
۸۲۔ اور حق کو وہ اپنے وعدہ سے ثابت کر دکھا تا ہے اگر چہ مجرم ناپسند کرتے ہوں ۔

 


۱۔ ”آیات “ سے مراد وہی حضرت موسیٰ (ع) کے متعدد معجزات جو ابتداء میں اپنے ساتھ لائے تھے ۔

 

حضرت موسیٰ (ع) کے خلاف جنگ کا دوسرا مرحلہحضرت نوح (ع) کے بعد آنے والے انبیاء
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma