چند قابل توجہ نکات

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 08
جہالت اور دشمن کے خلاف جہاد مجاہدین کو مشکلات پر جزا ضرور ملے گی

۱۔ لاینا لون من عدو نیلا“کا مفہوم :
جیسا کہ سطور بالا میں ذکر ہوا ہے اس جملے اکثر مفسرین نے یہ مراد لیا ہے کہ مجاہد ین راہ ِ خدا میں دشمن سے بی تکلیف اٹھائیں چاہے وہ زخم کی صورت میں ہو یا قید و بد کی صورت میں یا پھر قتل ہونے کی صورت میں ہو خدائی جز ا کے لئے ان کے نامہٴ اعمال میں لکھی جاتی ہے اور ہر ایک کی مناسبت سے انھیں اجر ملے گا ۔
اس طرف توجہ کرتے ہوئے کہ آیت مجاہدین کی مشکلات شمار کر رہی ہے یہی معنی مناسب معلوم ہوتا ہے لیکن اگر خود اس جملے کی ب بندی کا سہارا لیں اور اس کے الفاظ کی مناسبت سے اس کی تفسیر کریں تو پھر اس کا معنی یہ ہوگا کہ وہ پیکر دشمن پر ج وبھی ضرب لگاتے ہیں ان کے نامہ عمل میں لکھی جائے گی کیونکہ ”نال من عدوہ “ لغت میں دشمن پر ضب بلگانے کے معنی میں ہے لیکن پوری آیت کے لئے توجہ گذشتہ تفسیر کے لئے قرینہ ہے ۔
۲۔ احسن ماکانوا یعلون “ سے کیا مراد ہے ؟
اس جملے کی دو تفسیرں ذکر کی گئی ہیں ایک یہ کہ لفظ ” احسن “ ان کے افعال کی صفت ہے اور دوسرا یہ کہ ان کی جزا کی صفت ہے ۔
پہلی صفت ہم نے اوپر انتخاب کی ہے یہی ظاہر آیت سے بھی زیادہ منافق ہے ۔ اس تفسیر کے مطابق ایسے مجاہدین کے اعمال ان کی زندگی کے بہترین اعمال قرار دئیے گئے ہیں اور خدا ان کی جزا ان کے تناسب کے لحاظ سے دے گا ۔
دوسری تفسیر لفظ ” احسن “ کے بعد لفظ ” من “ کی تقدیر کی محتاج ہے اس کے مطابق خدائی جزا ان کے اعمال سے بہتر اور بالاتر قرار دی گئی ہے ۔ اس کے مطابق جملے کی تقدیر اس طرح ہو گی :لیجزیھم اللہ احسن مما کانوا یعملون ۔ یعنی جو کچھ وہ انجام دے چکے ہیں خدا انھیں اس سے بہتر جزا دے گا ۔
۳۔ یہ آیت ہر دور کے مسلمانوں کے لئے ہے :
مندرجہ بالا آیات صرف گذشتہ مسلمامنوں کے لئے نہ تھیں بلکہ آج کے بھی اور ہر دور کے مسلمانوں کے لئے ہیں ۔ اس میں شک نہیں کہ ہر جہاد میں چاہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا، طرح طرح کی مشکلات اور پریشانیاں ہوتی ہیں لیکن جب مجاہدین قلب و روح کو خد اپر ایمان اور ا س کے عظیم وعدوں سے روشن کریں او رجان لیں کہ ہر سانس ، ہر بات اور ہر قدم جو ا س کے راستے میں اٹھائیں گے وہ ضائع نہیں ہوگا بلکہ اس کا حساب بغیر کسی کم و کاست کے انتہائی باریک بینی سے محفوظ ہے اور خدا انھیں ان کے بدلے میں انھیں بہترین اعمال شمار کرتے ہوئے اپنے لطف کے بحر بیکراں سے مناسب ترین جزا دے گا تو ان حالات میں وہ مشکلات بر داشت کرنے سے کبھی نہیں گھبرائیں گے اور مشکلات کی کثرت سے نہیں ڈریں گا اور جہاد کتنا ہی طولانی ، کھٹن اور حادثات سے معمور ہووہ کسی قسم ضعف ہووہ کسی قسم کی ضعف اور سستی کا مظاہرہ نہیں کریں گے ۔

 

۱۲۲۔ وَمَا کَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِیَنفِرُوا کَافَّةً فَلَوْلاَنَفَرَ مِنْ کُلِّ فِرْقَةٍ مِنْھُمْ طَائِفَةٌ لِیَتَفَقھُوا فِی الدِّینِ وَلِیُنذِرُوا قَوْمَھُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَیْھِمْ لَعَلَھُمْ یَحْذَرُونَ ۔
ترجمہ
۱۲۲۔ مناسب نہیں کہ سب مومنین ( میدان جہاد کی طرف ) کوچ کریں ۔ ہر گروہ میں سے ایک طائفہ کیوں خرچ نہیں کرتا( اور ایک حصہ باقی نہیں رہتا) دین ( اور اسلامکے معارف و احکام ) سے آگاہی حاصل کریں اور اپنی قوم کی طرف باز گشت کے وقت انھیں ڈرائیں تاکہ وہ ( حکم خدا کی مخالفت سے ) ڈریں اور رک جائیں ۔

شان نزول

مرحوم طبری نے مجمع البیان میں ابن عباس سے روایت کی ہے کہ جس وقت پیغمبر اکرم میدان جہاد کی طرف روانہ ہوئے تو سب مسلمان آپ کے ساتھ نکل پڑتے ۔ پیچھے معذور افراد اور منافقین رہ جاتے لیکن جب کچھ آیات منا فقین کی نازل ہوئیں اور خصوصاً جنگ تبوک سے منہ موڑنے والوں کو جس طرح سے وعید و ملامت نے آگھیرا اس سے مومنین جہاد کے میدانوں میں شرکت کے لئے اور زیادہ پختہ ہو گئے ۔ یہاں تک کہ وہ جنگیں جن میں پیغمبر ذاتی طور پر شرکت نہیں کرتے تھے ان میں شرکت کے لئے بھی سب نکل پڑتے تھے اور رسول اللہ کو تنہا چھوڑ دیتے تھے ۔
اس صورت حال کے پیش نظر مندر جہ بالا آیت نازل ہوئی اور انھیں بتا یا گیا کہ ضرورت کے علاوہ مناسب نہیں کہ سب مسلمان میدان جنگ کی طرف جائیں بلکہ ایک گروہ مدینہ کی طرف جائے او رمدینہ میں جانے والے رسول اللہ سے اسلامی معارف و احکام کی تعلیم حاصل کریں اور اپنے مجاہددوستوں کو واپس آنے کے بعد تعلیم دیں ۔
اس عظیم مفسر نے اس اضمون کی ایک اور شانِ نزول نقل کی ہے : اصحاب پیغمبر میں سے کچھ افراد تبلیغ دین کے لئے بادیہ نشین قبائل کے پاس گئے ،۔ بادیہ نشینوں نے ان کی آمد کو پسند کیا اور ان سے اچھا سلوک کیا لیکن بعض نے ان پر اعتراض کیا کہ تم لوگ کویں رسول اللہ کو چھوڑ کر ہمارے پاس آ گئے ہو۔ یہ بات سن کر وہ پریشان اور افسردہ ہوئے اور پیغمبر خدا کی خدمت میں پلٹ آئے اس پر یہ آیت نازل ہوئی او ران کے تبلیغی کام کی تائید کی اور ان کی پریشانی کو دور کیا ۔
تفسیر تبیان میں اس آیت کی ایک اور شانِ نزول بھی نقل ہوئی ہے اور وہ یہ کہ جب بادیہ نشین لوگ مسلمان ہو گئے تو احکام ِ اسلام معلوم کرنے کے لئے سب کے سب مدینہ کی طرف چل پڑے اس سے مدینہ میں اجناس کی قیمتیں چڑھ گئیں اور کئی اور مشکلات پیدا ہوگئیں ۔
اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور انھیںحکم دیا گیا کہ ضروری نہیں کہ تم سب سے اپنے شہر اور گھروں کو خالی چھوڑ کر معارف ِ اسلام سمجھنے کے لئے مدینہ آجاوٴ بلکہ اگر کچھ لوگ آجائیں تو کافی ہے ۔

 

جہالت اور دشمن کے خلاف جہاد مجاہدین کو مشکلات پر جزا ضرور ملے گی
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma