بھائی کو روکنے کی کوشش

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 10
چند اہم نکات تفسیر

آخر کار بھائی یوسف (ع) کے پا س پہنچے اور انہیں بتا یا کہ ہم نے آپ کے حکم کی تعمیل کی ہے اور باوجود اس کے کہ ہمارے والدپہلے چھوٹے بھائی کو ہمارے ساتھ بھیجنے پر راضی نہ تھے لیکن ہم نے اصرار کرکے اسے راضی کی ہے تاکہ آپ جالیں کہ ہم نے قول و قرار پورا کیا ہے ۔
حضرت یوسف (ع) نے بڑی عزت و احترام سے ان کی پذیرائی کی ، انہیں مہمان بلا یا اور حکم دیا کہ دسترخوان یاطبق کے پاس دو دو افراد آئیں ۔ انہوں نے ایسا ہیں کیا ، اس وقت بنیامین جو تنہا رہ گیا تھا رونے لگا اور کہنے لگا کہ اگر میرا یوسف (ع) زندہ ہوتا تو مجھے اپنے ساتھ ایک دسترخوان پر بٹھا تاکیونکہ ہم پدری مادری بھائی تھے ۔
پھر حکم دیا کہ دو دو افراد کے لئے ایک ایک کمرہ سونے کے لئے تیار کیا جائے ۔بنیامین پھر اکیلا رہ گیا تو حضرت یوسف (ع) نے فرمایا : اسے میرے پاس بھیج دو ۔ ا س طرح حضرت یوسف (ع) نے اپنے بھائی کو اپنے ہاں جگہ دی لیکن دیکھا کہ وہ بہت دکھی اور پریشان ہے اور ہمیشہ اپنے کھوئے ہوئے بھائی یوسف (ع) کی یاد میں رہتا ہے ۔ ایسے میں یو سف (ع) کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور آپ (ع) نے حقیقت کے چہرے سے پر دہ ہٹا دیا ، جیسا کہ قرآن کہتا ہے : جب یوسف (ع) کے پاس پہنچے تو اس نے اپنے بھائی کو اپنے ہاں جگہ دی اور کہاکہ میں وہی تمہارا بھائی یوسف ہوں ، غمگین نہ ہو اور اپنے دل کو دکھی نہ کر اور ان کے کسی کام سے پریشان نہ ہو( وَلَمَّا دَخَلُوا عَلَی یُوسُفَ آوَی إِلَیْہِ اٴَخَاہُ قَالَ إِنِّی اٴَنَا اٴَخُوکَ فَلاَتَبْتَئِسْ بِمَا کَانُوا یَعْمَلُونَ ) ۔
” لا بتئس “ اصل میں ” بوٴس “ کے مادہ سے ضررر اور شدت کے معنی میں ہے اور اس مقام پر اس کا معنی ہے ” غمگین نہ ہو“۔
بھائیوں کے کام کہ جو بنیامین کو دکھی اور پریشان کرتے تھے ان سے مراد ان کی وہ نامہربانیاں اور بے التفاتیاں تھیں جو وہ اس کے اور یوسف (ع) کے لئے روارکھتے تھے اور وہ سازشیں کہ جو اسے گھر والوں سے دور کرنے کے لئے انجام دیتے تھے ۔ حضرت یوسف (ع) کی مراد یہ تھی کہ تم دیکھ رہے ہو کہ ان کی کارستانیوں سے مجھے کوئی نقصان نہیں پہنچا بلکہ وہ میری ترقی اور بلندی کا ذریعہ بن گئیں لہٰذا اب تم بھی اس بارے میں اپنے دل کو دکھی نہ کرو۔
بعض روایات کے مطابق اس موقع پر حضرت یوسف (ع) نے اپنے بھائی بنیامین سے کہا : کیا تم پسند کرتے ہو کہ میرے پاس رہ جاوٴ اس نے کہا: ہاں میں تو راضی ہوں لیکن بھائی ہر گز نہیں راضی ہوں گے کیونکہ انہوںنے باپ سے قول و قرار کیا ہے اور قسم کھائی ہے کہ مجھے ہرقیمت پر اپنے ساتھ واپس لے جائیں گے ۔
حضرت یوسف (ع) نے کہا : تم فکر نہ کرو میں ایک منصوبہ بناتا ہوں جس وہ مجبور ہو جائیں گے کہ تمہیں میرے پاس چھوڑ جائیں ۔ غلات کے بار تیار ہو گئے تم حکم دیا کہ مخصوص قیمتی پیمانہ بھائی کے بارمیں رکھ دیں ( کیونکہ ہر شخص کے لئے غلے کا ایک باردیا جاتا تھا ) ( فَلَمَّا جَھَّزَھُمْ بِجَھَازِھِمْ جَعَلَ السِّقَایَةَ فِی رَحْلِ اٴَخِیہ) ۔
البتہ یہ کام مخفی طور پر انجام پا یا اور شاید اس کا علم مامورین میں سے فقط ایک شخص کو تھا ۔
جب اناج کو پیمانے سے دینے والوں نے دیکھا کہ مخصوص قیمتی پیمانے کا کہیں نام ونشان نہیں ہے حالانکہ پہلے وہ ان کے پاس موجود تھا۔ لہٰذا جب وہ قافلہ چلنے لگا تو کسی نے پکارکر کہا : اے قافلے والو! تم چور ہو ( ثُمَّ اٴَذَّنَ مُؤَذِّنٌ اٴَیَّتھَا الْعِیرُ إِنَّکُمْ لَسَارِقُونَ) ۔
یوسف (ع)کے بھائیوں نے جب یہ جملہ سنا تو سخت پریشان ہوئے اور وحشت زدہ ہو گئے کیونکہ ان کے ذہن میں تو اس کا خیال بھی نہ آسکتا تھا کہ اس احترام و اکرام کے بعد ان پر چوری کا الزام لگا یا جائے گا ۔لہٰذا انہوں ا س کی طرف رخ کرکے کہا: تمہاری کونسی چیز چوری ہوگئی ہے ( قَالُوا وَاٴَقْبَلُوا عَلَیْھِمْ مَاذَا تَفْقِدُونَ) ۔
انہوں نے کہا ہم سے بادشاہ کا پیمانہ گم ہوگیا ہے اور ہمیں تمہارے بارے میں بد گمانی ہے ( قَالُوا نَفْقِدُ صُوَاعَ الْمَلِکِ ) ۔
پیمانہ چونکہ گراں قیمت ہے اور باد شاہ کو پسند ہے لہٰذا ” وہ جس شخص کو ملے اور وہ اسے لے آئے تو اسے ایک اونٹ کا بار بطور انعام دیا جائے گا “ (وَلِمَنْ جَاءَ بِہِ حِمْلُ بَعِیرٍ) ۔
پھر یہ بات کہنے والے نے مزید تاکید سے کہا : اورمیں ذاتی طو ر پر اس انعام کا ضامن ہوں ( وَاٴَنَا بِہِ زَعِیمٌ) ۔
بھائی یہ بات سن کر سخت پریشان ہوئے اور حواس باختہ ہو گئے اور وہ نہیں سمجھتے تھے کہ معاملہ کیا ہوا ، ان کی طرف رخ کرکے ” انہوں نے کہا: خدا کی قسم تم جانتے کہ ہم یہاں اس لئے نہیں آئے کہ فتنہ و فساد کرین اور ہم کبھی بھی چور نہیں تھے “( قَالُوا تَاللهِ لَقَدْ عَلِمْتُمْ مَا جِئْنَا لِنُفْسِدَ فِی الْاٴَرْضِ وَمَا کُنَّا سَارِقِینَ) ۔
یہ جو انہوں نے کہاکہ تم خود جانتے ہو کہ ہم فسادی اور چور نہیں ہیں ، شاید اس طرف اشارہ ہو کہ تم ہمارا سابقہ کردار اچھی طرح جانتے ہ وکہ گزشتہ موقع پر ہماری پیش کرد ہ قیمت جو تم نے ہمارے غلات میں رکھ دی تھی وہ ہم دوبارہ تمہارے پاس لے آئے ہیں اور تمہیں بتا یا کہ وہ ساری کی ساری ہم تمہیں واپس کرنے کو تیار ہیں لہٰذا وہ افراد جو دور دراز کے ملک سے اپنا قرض ادا کرنے واپس آجاتے ہیں ان سے کیونکر ممکن ہے کہ چوری کے لئے ہاتھ بڑھائیں ۔
اس کے علاوہ کہا جاتا ہے کہ جب وہ مصر میں داخل ہو ئے تو انہون نے اپنے اونٹوں کے منہ دہان بدنوں سے باندھ دیئے تھے تاکہ وہ کسی کی زراعت اور مال کا نقصان نہ کریں ۔ لہٰذا ان کی مراد یہ تھی کہ ہم جو اس حد تک احتیاط کرتے ہیں حتی کہ ہمارے جانور بھی کسی کو ضرر یا نقصان نہ پہنچائیں تو کس طرح ممکن ہے کہ ہم ایسے کام کے مرتکب ہو ں ۔
یہ سن کر مامورین ان کی طرف متوجہ ہوئے اور ” کہا : لیکن اگر تم جھوٹے ہوئے تو اس کی سزا کیا ہے ؟ “ ( قَالُوا فَمَا جَزَاؤُہُ إِنْ کُنتُمْ کَاذِبِینَ) ۔
” انہوں نے جواب میں کہا : اس کی سزا یہ ہے کہ جو شخص کے بارے میں بادشاہ ک اپیمانہ مل جائے اسے روک لو اور اسے اس کے بدلے میں لے لو“ ( قَالُوا جَزَاؤُہُ مَنْ وُجِدَ فِی رَحْلِہِ فَھُو جَزَاؤُہُ ) ۔” جی ہاں ! ہم اسی طرح ظالموں کو سزا دیتے ہیں (کَذَلِکَ نَجْزِی الظَّالِمِینَ) ۔
اس موقع پر حضرت یوسف (ع) نے حکم دیا کہ ان کے غلات کے بارے کھولے جائیں اور ایک ایک جانچ پڑتال کی جائے البتہ اس بناء پر ان کے اصلی منصوبے کا کسی کو پتہ نہ چلے ، اپنے بھائی بنیامین کے بار سے پہلے دوسروں کے سامان کی پڑتال کی اور پھر وہ مخصوص پیمانہ اپنے بھائی کے مال سے بر آمد کرلیا ( فَبَدَاٴَ بِاٴَوْعِیَتِھِمْ قَبْلَ وِعَاءِ اٴَخِیہِ ثُمَّ اسْتَخْرَجَھَا مِنْ وِعَاءِ اٴَخِیہِ) ۔
بنیامین کے بارے سے پیمانہ بر آمد ہوا تو تعجب سے بھائیوں کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے گویا غم و اندوہ کے پہاڑ ان کے سروں پر آگرا اور انہیں یو ں لگا جیسے وہ ایک عجیب مقام پر پھنس گئے ہیں کہ جس کے چاروں طرف راستے بند ہو گئے ہیں ۔ ایک طرف ان کا بھائی ظاہرا ایسی چوری کا مر تکب ہوا جس سے ان کے سر ندامت سے جھک گئے اور دوسری طرف ظاہراً عزیز مصر کی نظروں میں ان کی عزت و حیثیت خطرے میں جا پڑ ی کہ اب آئندہ کے لئے اس کی حمایت حاصل کرنا ان کے لئے ممکن نہ رہا اور ان تمام باتوں سے قطع نظر انہوں نے سوچا کہ با پ کو کیا جواب دیں گے اور وہ کیسے یقین کرے گا کہ اس میں ان کوئی قصور نہیں ہے ۔
بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ موقع پر بھائیوں نے بنیامین کی طرف رخ کرکے کہا: اے بے خبر ! تونے ہمیں رسوا کردیا ہے اور ہمارا منہ کالا کردیا ہے ۔ تونے یہ کیسا غلط کام انجام دیا ہے ( نہ تونے اپنے باپ پر رحم کیا ، نہ ہم پر اور نہ خاندان یعقوب (ع) پر کہ جو خاندان ِ نبوت ہے )آخر ہمیں بتا تو سہی کہ تونے کس وقت پیمانہ اٹھا یا اور اپنے بار میں رکھ لیا ۔
بنیامین نے جو معالے کی اصل اور قضیے کے باطن کو جانتا تھا ٹھنڈے دل سے جواب دیا کہ یہ کام اسی شخص نے کیا ہے جس نے تمہاری دی ہوئی قیمت تمہارے بار میں رکھ دی تھی لیکن بھائیوں کو اس حادثے نے اس قدر پریشان کررکھا تھا کہ وہ سمجھ نہ سکے کہ وہ کیا کہہ رہاہے ۔ ۱
پھر قرآن مزید کہتا ہے : ہم نے اس طرح یوسف (ع) کے لئے ایک تدبیر کی (تاکہ وہ اپنے بھائی کو دوسرے بھائیوں کی مخالفت کے بغیر روک سکیں ) ( کَذَلِکَ کِدْنَا لِیُوسُفَ) ۔
اہم مسئلہ یہ ہے کہ اگر یوسف (ع) قوانین مصر کے مطابق سلوک کرتے تو انہیں چاہئیے تھا کہ اسے زود و کوب کرتے اور قید خانے میں ڈال دیتے لیکن اس طرح نہ صرف بھائی کو آزار و تکلیف پہنچتی بلکہ خود ان کا مقصد کہ بھائی کو اپنے پاس رکھیں ، پورانہ ہوتا ۔ اسی لئے انہوں نے پہلے بھائیوں سے اعتراف لیا کہ اگر تم سے چوری کی ہو تو تمہارے نزدیک اس کی کیا سزا ہے تو انہوں نے اپنے ہاں رائج طریقے کے مطابق جواب دیا کہ ہمارے ہاں یہ طریقہ ہے کہ طور کو اس کی چوری کے بدلے اپنے قبضے میں لے لیتے ہیں اور اس سے کام لیتے ہیں اور حضرت یوسف (ع) نے بھی اسی طریقے کے مطابق ان سے سلوک کیا کیونکہ مجرم کو سزا دینے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ اسے ا س کے اپنے قانون کے مطابق سزا دی جائے ۔
اسی بناء پرقرآن کہتا ہے : یوسف (ع) ملکِ مصر کے قانون کے مطابق اپنے بھائی کو نہیں لے سکتے تھے اور اپنے پاس نہیں رکھ سکتے تھے ( مَا کَانَ لِیَاٴْخُذَ اٴَخَاہُ فِی دِینِ الْمَلِکِ) ۔
اس کے بعد استثناء کے طور پر فرماتاہے : مگر یہ کہ خدا چاہے ( إِلاَّ اٴَنْ یَشَاءَ اللهُ ) ۔
یہ اس طرف اشارہ ہے کہ یہ کام جو یوسف (ع) نے انجام دیا اور بھائیوں کے ساتھ ان کے طریقے کے مطابق سلوک کیا فرمان الہٰی کے مطابق تھا اور یہ بھائی کی حفاظت اور ان کے با پ کی اور دوسرے بھائیوں کی آز مائش کی تکمیل کے لئے ایک منصوبہ تھا ۔
آخر میں قرآن مزید کہتا ہے : ہم جس کو چاہتے ہیں درجات بلند کرتے ہیں ( نَرْفَعُ دَرَجَاتٍ مَنْ نَشَاء) ۔
ان افراد کے درجات۔ جو اہل ہوں اور یوسف کی طرح امتحانات کی کٹھالی سے صحیح و سالم نکل آئیں ۔
بہر حال ہر عالم سے بڑھ کر ایک عالم و دانا ہے ( یعنی خدا) ( وَفَوْقَ کُلِّ ذِی عِلْمٍ عَلِیمٌ) ۔اور وہی ہے جس نے اس منصوبے کا یوسف (ع) کو الہام کیا تھا ۔

 


۱۔مجمع البیان جلد ۵ ص ۲۵۳۔ مذکورہ آیت کے ذیل میں ۔
2۔ طبرسی نے مجمع البیان میں نقل کیا ہے کہ اس زمانے میں ایک گروہ میں یہ طریقہ رائج تھا کہ وہ چور کو ایک سال کے لئے غلام بنالیتے تھے ۔ نیز یہ بھی نقل کیا ہے کہ خاندان ِ یعقوب (ع) میں چوری کی مقدار کے برابر غلامی کی مدت معین کی جاتی تھی ( تاکہ وہ اسی کے مطابق کام کرے ) ۔
 
چند اہم نکات تفسیر
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma