تفسیر

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 10
بھائی کو روکنے کی کوشش چند اہم نکات

آخر کار حضرت یوسف (ع) کے بھائی باپ کی رضا مندی کے بعد اپنے چھوٹے بھائی کو ہمراہ لے کر دوسری مرتبہ مصر جانے کو تیار ہوئے تو اس موقع پر باپ نے انہیں نصیحت کی ۔ ” اس نے کہا :میرے بیٹو !تم ایک در وازے سے داخل نہ ہونا بلکہ مختلف در وازوں سے داخل ہونا “
( وَقَالَ یَابَنِیَّ لاَتَدْخُلُوا مِنْ بَابٍ وَاحِدٍ وَادْخُلُوا مِنْ اٴَبْوَابٍ مُتَفَرِّقَةٍ) ۔
اور مزید کہا : ” یہ حکم دے کر میں خدا کی طرف سے کسی حتمی حادثے کو تم سے بر طرف نہیں کرسکتا “ (وَمَا اٴُغْنِی عَنکُمْ مِنْ اللهِ مِنْ شَیْءٍ) ۔لیکن ناگوار حوادث کا ایک سلسلہ ایسا ہے جس سے بچا جا سکتا ہے اور ان کے متعلق خدا کا حتمی حکم صادر نہیں ہوا ۔
میرا مقصد یہ ہے کہ ایسے حوادث تم سے دور ہیں اور ایسا ہونا ممکن ہے ۔
آخر میں کہا : ” حکم اور فرمان خدا کے ساتھ مخصوص ہے “ ( إِنْ الْحُکْمُ إِلاَّ لِلَّہِ) ۔” میں نے خدا پر توکل کیا ہے “( عَلَیْہِ تَوَکَّلْت) ۔” اور تمام توکل کرنے والوں کو اسی پر توکل کرنا چاہئیے اور اسی سے مدد طلب کرو اور اپنا معاملہ اسی کے سپرد کرو“ (وَعَلَیْہِ فَلْیَتَوَکَّلْ الْمُتَوَکِّلُونَ ) ۔
اس میں شک نہیں کہ اس زمانے میں دوسرے شہروں کی طر ح مصر کے پایہ تخت کے ا گرد گر بھی فصیل تھی ۔ اس کے بھی برج و بار تھے اور اس کے متعدد دروازے تھے ۔
رہا یہ سوال کہ حضرت یعقوب (ع) نے کیوں نصیحت کی کہ ان کے بیٹے ایک در وازے سے داخل نہ ہوں بلکہ مختلف حصوں میں تقسیم ہو کر مختلف دروازوں سے شہر میں داخل ہو ، ا س کی وجہ مندرجہ بالاآیت میں مذکورنہیں ہے ۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ حضرت یوسف (ع) کے بھائی ایک تو بہت حسین و جمیل تھء ( اگر چہ وہ یوسف نہ تھے مگر یوسف کے بھائی تو تھے ) ۔ ان کا قد کاٹھ بہت اچھا تھا ۔ لہٰذا ان کے باپ پر یشان تھے کہ گیارہ افراد اکھٹے جن کے چہرے مہرے معلوم ہو کہ وہ مصر کے علاوہ کسی اور ملک سے آئے ہیں ، لوگ ان کی طرف متوجہ نہ ہوں وہ نہیں چاہتے تھے کہ اس طرح انہیں نظر بد لگ جائے ۔
اس تفسیر کے بعد مفسرین کے درمیان نظر بد کی تا ثیر کے بارے میں ایک طویل بحث چھڑ گئی ہے ۔ انہوں نے اس کے لئے روایات و تاریخ میں سے کئی ایک شواہد پیش کئے ہیں جنہیں ہم انشاء الہ اس آیت کی تفسیر میں ذکر کریں گے :
و ان یکاد الذین کفروا لیزلقونک بابصار ھم ( ن و القلم ۔ ۵۱)
اس آیت کے ذیل میں ہم ثابت کریں گے کہ اس سلسلے کی کچھ بحث بجا بھی ہے اور سائنسی لحاظ سے بھی ایک مخصوص سیالہ ٴ مقنا طیسی کہ جو آنکھ سے باہر اڑتا ہے اس کی توجیہ پیش کی جا سکتی ہے اگر چہ عامة الناس نے اس معاملے میں بہت سی خرافات شامل کردی ہیں ۔
حضرت یعقوب (ع) کے اس حکم کے بارے میں جو دوسری علت بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ ہو سکتا ہے جب اونچے لمبے چوڑے چکلے مضبوط جسموں والے اکھٹے چلیں تو حاسدوں کو انہیں دیکھ کر حسد پیدا ہو اور وہ ان کے بارے میں حکومت سے کوئی شکایت کرنے لگیں اور ان کے متعلق یہ بد ظنی کریں کہ وہ کسی خرابی اور فتنہ و فساد کا ارادہ رکھتے ہیں اس لئے باپ نے انہیں حکم دیا کہ مختلف در وازوں سے داخل ہوں تاکہ لوگ ان کی طرف متوجہ نہ ہوں ۔
بعض مفسرین( عظیم و خطیب مرحوم اشراقی ( قدس سرہ ))نے اس کی ایک عرفانی تفسیر بھی ہے ۔ وہ یہ کہ یعقوب (ع) راہنما راہ کے حوالے سے اپنے بیٹوں کو ایک اہم معاشرتی مسئلہ سمجھانا چاہتے تھے اور وہ یہ کہ کھوئی ہوئی چیز کو صرف ایک ہی راستے سے تلاش نہ کریں بلکہ ہر دروازے سے داخل ہو کر اسے ڈھونڈیں۔
کیونکہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ انسان ایک مقصد تک پہنچنے کے لئے صرف ایک ہی راہ کا انتخاب کرتا ہے اور جب آگے راستہ بن پاتا ہے تو مایوس ہو کر بیٹھ جاتا ہے لیکن اگر وہ اس حقیقت کی طرف متوجہ ہو کہ متوجہ ہو کہ گمشدہ افراد اور چیزیں عموماً ایک ہی راستے پر جانے سے نہیں ملتیں بلکہ مختلف راستوں سے ان کی جستجو کرنا چاہتے تو عام طور پر کامیاب ہو جاتا ہے ۔
برادران یوسف (ع) روانہ ہوئے اور کنعان و مصر کے درمیان طویل مسافت طے کرنے کے بعد سر زمین مصر میں داخل ہوئے اور جب باپ کے دئے ہو ئے حکم کے مطابق مختلف راستوں سے مصر میں داخل ہوئے تو یہ کام انہیں کسی خدا ئی حادثے سے دور نہیں کرسکتا تھا ( وَلَمَّا دَخَلُوا مِنْ حَیْثُ اٴَمَرھُمْ اٴَبُوھُمْ مَا کَانَ یُغْنِی عَنْھُمْ مِنْ اللهِ مِنْ شَیْءٍ) ۔بلکہ اس کا فائدہ صرف یہ تھا کہ ” یعقوب کے دل میں ایک حاجت تھی جو اس طرح پوری ہوتی تھی “ (إِلاَّ حَاجَةً فِی نَفْسِ یَعْقُوبَ قَضَاھَا) ۔
یہ اس طرف اشارہ ہے کہ اس کا اثر صرف باپ کے دل کی تسکین اور آرام تھا کیونکہ وہ اپنے سارے بیٹوں سے دور تھا اور رات دن ان کی اور یوسف کی فکر میں رہتا تھا اور ان کے بارے میں حوادث کے گزند اور حاسدوں اور بد خواہوں کے بغض و حسد سے ڈرتا تھا اور اسے صرف اس بات سے اطمینان تھا کہ وہ اس کے احکام کے کاربند رہیں گے ۔ اس پر اس کا دل خوش تھا ۔
اس کے بعد قرآں یعقوب (ع) کی یوں مدح و ثنا اور تعریف و توصیف کرتا ہے : وہ ہماری ہوئی تعلیم کے سبب علم آگہی رکھتا تھا جب کہ اکثر لوگ نہیں جانتے( وَإِنَّہُ لَذُو عِلْمٍ لِمَا عَلَّمْنَاہُ وَلَکِنَّ اٴَکْثَرَ النَّاسِ لاَیَعْلَمُونَ ) ۔
اس طرف اشارہ ہے کہ اسی طرح بہت سے لوگ عالم اسباب میں گم ہو جاتے ہیں ، خدا کو بھول جاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ بعض لوگوں کو نظر بد سے نہیں بچا یا جاسکتا۔ اسی بنا ء پر ایسے لوگ خدا اور اس پر توکل کو بھول کر ہر کہ کہ ومہ کے دامن سے جاچمٹتے ہیں لیکن حضرت یعقوب (ع) اس طرح کے نہ تھے ۔ وہ جانتے تھے کہ جب تک خدا کسی چیز کو نہ چاہے وہ انجام نہیں پاسکتی لہٰذا پہلے درجے میں ان کا بھروسہ اور اعتماد خدا پر تھا ۔ اس کے بعد وہ عالم ِ اسباب کی طرف جاتے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ جانتے تھے کہ ان اسباب کے پیچھے ایک مسبب الاسباب ذات پاک ہے ، جیسا کہ قرآن بقرہ ۱۰۲ میں شہر بابل کے جادو گروں کے بارے میں کہتا ہے :
وما ھم بضارین بہ من احد الا باذن اللہ
وہ جادو سے کسی کو نقصان نہیں پہنچاسکتے تے مگر یہ کہ خدا چاہے ۔
یہ اس طرف اشارہ ہے کہ ان سب چیزوں سے مافوق خدا کاارادہ ہے دل اس سے باندھنا چاہئیے اور اسی سے مدد لینا چاہئیے ۔

۶۹۔ وَلَمَّا دَخَلُوا عَلَی یُوسُفَ آوَی إِلَیْہِ اٴَخَاہُ قَالَ إِنِّی اٴَنَا اٴَخُوکَ فَلاَتَبْتَئِسْ بِمَا کَانُوا یَعْمَلُونَ ۔
۷۰۔ فَلَمَّا جَھَّزَھُمْ بِجَھَازِھِمْ جَعَلَ السِّقَایَةَ فِی رَحْلِ اٴَخِیہِ ثُمَّ اٴَذَّنَ مُؤَذِّنٌ اٴَیَّتھَا الْعِیرُ إِنَّکُمْ لَسَارِقُونَ۔
۷۱۔ قَالُوا وَاٴَقْبَلُوا عَلَیْھِمْ مَاذَا تَفْقِدُونَ۔
۷۲۔ قَالُوا نَفْقِدُ صُوَاعَ الْمَلِکِ وَلِمَنْ جَاءَ بِہِ حِمْلُ بَعِیرٍ وَاٴَنَا بِہِ زَعِیمٌ۔
۷۳۔ قَالُوا تَاللهِ لَقَدْ عَلِمْتُمْ مَا جِئْنَا لِنُفْسِدَ فِی الْاٴَرْضِ وَمَا کُنَّا سَارِقِینَ۔
۷۴۔ قَالُوا فَمَا جَزَاؤُہُ إِنْ کُنتُمْ کَاذِبِینَ۔
۷۵۔ قَالُوا جَزَاؤُہُ مَنْ وُجِدَ فِی رَحْلِہِ فَھُو جَزَاؤُہُ کَذَلِکَ نَجْزِی الظَّالِمِینَ۔
۷۶۔ فَبَدَاٴَ بِاٴَوْعِیَتِھِمْ قَبْلَ وِعَاءِ اٴَخِیہِ ثُمَّ اسْتَخْرَجَھَا مِنْ وِعَاءِ اٴَخِیہِ کَذَلِکَ کِدْنَا لِیُوسُفَ مَا کَانَ لِیَاٴْخُذَ اٴَخَاہُ فِی دِینِ الْمَلِکِ إِلاَّ اٴَنْ یَشَاءَ اللهُ نَرْفَعُ دَرَجَاتٍ مَنْ نَشَاءُ وَفَوْقَ کُلِّ ذِی عِلْمٍ عَلِیمٌ ۔

ترجمہ

۶۹ ۔جب یوسف کے پا س پہنچے تو انہوں نے اپنے بھائی کو اپنے پا س جگہ دی اور کہا کہ میں تمہارا بھائی ہو ں جو کچھ یہ کرتے ہیں اس سے غمگین اور پریشان نہ ہو۔
۷۰۔ اور جس وقت ان کا سامان باندھا گیا تو ان کے باد شاہ نے پانی پینے کا برتن اپنے بھائی کے سامان میں رکھ دیا۔ اس کے بعد کسی نے آواز بلند کی کہ اےس قافلے والو! تم چور ہو۔
۷۱ ۔ انہوں نے اس کی طرف رخ کرکے کہا تمہاری کیا چیز گم ہو گئی ہے ۔
۷۲ ۔ انہوں نے کہا: باد شاہ کا پیمانہ ، اور جو شخص اسے لے آئے ( غلے کا ) اونٹ کا ایک بار اسے دیا جائے گا اور میں ( اس انعام کا ) ضامن ہوں ۔
۷۳۔ انہوں نے کہا : قسم بخدا تم جانتے ہو کہ ہم اس علاقے میں فساد کرنے نہیں آئے اور ہم ( کبھی بھی ) چور نہیں تھے ۔
۷۴۔انہوں نے کہا : اگر تم جھوٹے ہوئے تو تمہاری سزا کیا ہے ۔
۷۵۔ انہوں نے کہا :جس کے سامان میں ( وہ پیمانہ ) مل گیا تو وہ خود اس کی سزا ہو گا ( اور اس کام کی بنا ء پر وہ غلام ہو جائے گا ) ہم ظالموں کو اس طرح سے سزا دیتے ہیں ۔
۷۶۔ تو اس وقت ( یوسف نے ) اپنے بھائی کے سامان سے پہلے ان کے سامان کی تلاشی لی اور پھر اپنے بھائی کے سامان سے اسے برآمد کرلیا۔ اس طرح ہم نے یوسف کو چارہ کار یاد دلایا ۔ وہ مصر ( کے بادشاہ ) کے آئین کے مطابق اپنے بھائی کو ہر گز نہیں لے سکتا تھا مگر یہ کہ خدا چاہے ۔ ہم جس شخص کے چاہیں درجات بلند کرتے ہیں اور ہر صاحب ِ علم کے اوپر ایک عالم ہے ۔
 

بھائی کو روکنے کی کوشش چند اہم نکات
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma