صاحبِ ایمان افراد کودھتکارا نہیں جاسکتا

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 09
۱۔ علمِ غیب اور خدا کے خاص بندےحضرت نوح کے جوابات

ہم نے گزشتہ آیات میں دیکھا ہے کہ خود غرض اور بہانہ جُو قوم حضرت نوح(علیه السلام) پر مختلف اعتراضات کرتی تھی جن کا انھوں نے نہایت عمدہ اور واضح جواب دیا، زیرِ بحث آیات میں بھی ان کی بہانہ تراشیوں کا جواب دیا گیا ہے ۔
پہلی آیت میں نبوّت کی ایک دلیل بیان کی گئی ہے جو حضرت نوح(علیه السلام) نے تاریک دل قوم کو روشنی بخشنے کے لئے پیش کی تھی، ارشاد ہوتا ہے: اے قوم! مَیں اس دعوت کے بدلے تم سے مال وثروت اور اجر وجزاء کا مطالبہ نہیں کرتا (وَیَاقَوْمِ لَااٴَسْاٴَلُکُمْ عَلَیْہِ مَالًا) ۔ میرا اجر وجزاء صرف الله پر ہے وہ خدا کہ جس نے مجھ نبوّت کے ساتھ مبعوث کیا ہے اور مخلوق کو دعوت دینے پر مامور کیا ہے (إِنْ اٴَجْرِی إِلاَّ عَلَی اللهِ) ۔
یہ امر اچھی طرح سے نشاندہی کرتا ہے کہ اس پروگرام سے میرا کوئی مادی ہدف نہیں ، مَیں سوائے خدا کے معنوی وروحانی اجر کے کچھ بھی نہیں دیکھتا ہوں اور کوئی جھوٹا مدعی ایسا نہیں ہوسکتا جو اس قسم کے سردرد، ناراحتی اور بے آرامی کو یوں ہی اپنے لئے خرید لے اور یہ سچّے رہبروں کی پہچان کے لئے ایک میزان ہے، اُن جھوٹے موقع پرستوں کے مقابلے میں جو کہ جب بھی قدم اٹھاتے ہیں بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر اس سے ان کا کوئی نہ کوئی مادی ہدف اور مقصد ہوتا ہے ۔
اس کے بعد ان کے جواب میں جنھیں اصرار تھا کہ حضرت نوح(علیه السلام) غریب وحقیر اور کم افراد کو جو آپ پر ایمان لائے تھے خود سے دُور کردیں حضرت نوح(علیه السلام) حتمی طور پر (فیصلہ سناتے ہوئے) کہتے ہیں: مَیں ہرگز ان لوگوں کو جو ایمان لائے ہیں نہیں دھتکاروں گا (وَمَا اٴَنَا بِطَارِدِ الَّذِینَ آمَنُوا) ۔ کیونکہ وہ اپنے پروردگار سے ملاقات کریں گے اور دوسرے جہان میں اس کے سامنے میرے ساتھ ہوں گے (إِنَّھُمْ مُلَاقُو رَبِّھِمْ) ۔ (۱)
آیت کے آخر میں انھیں بتاگیا ہے: مَیں سمجھتا ہوں کہ تم جاہل ہو (وَلَکِنِّی اٴَرَاکُمْ قَوْمًا تَجْھَلُونَ) ۔
اس سے بڑھ کر جہالت کیا ہوگی کہ فضیلت کو پرکھنے کی میزان تم گنوا بیٹھے ہو، آج تمھاری نظر دولت، مالی وجاہت، ظاہری مقام ومنصب اور سن وسال معیارِ فضیلت بن چکے ہیں اور صاحبان ایمان افراد جو تہی دست اور برہنہ پا ہیں وہ تمھارے گمان میں بارگاہ خداوندی سے دُور ہیں، یہ تمھاری بڑی غلط فہمی ہے اور یہ تمھاری جہالت کی نشانی ہے ۔
علاوہ ازیں تم اپنی جہالت ونادانی کی بناء پر سمجھتے ہو کہ پیغمبر کوفرشتہ ہونا چاہیے حالانکہ انسانوں کا رہبر انہی کی نوع سے ہونا چاہیے تاکہ وہ ان کی ضروریات ، مشکلات اور تکالیف کو محسوس کرسکے اور سمجھ سکے ۔
بعد والی آیت میں مزید وضاحت کے لئے ان سے کہا گیا: اے قوم! اگر مَیں ان باایمان لوگوں کو دھتکاردوں تو خدا کے سامنے (اس عظیم عدالت میں بلکہ اُس جہان میں) کون میری مدد کرے گا (وَیَاقَوْمِ مَنْ یَنصُرُنِی مِنْ اللهِ إِنْ طَرَدْتُھُمْ) ۔
صالح اورمومن افراد کو دھتکارنا کوئی معمولی کام نہیں ہے، وہ کل قیامت کے دن میرے خلاف ہوں گے اور وہاں کوئی شخص میرا دفاع نہیں کرسکے گا، نیز ممکن ہے عذابِ الٰہی اس جہان میں بھی مجھے دامن گیر ہو، کیا تم کچھ سوچتے سمجھتے نہیں ہو کہ تمھیں ہو کہ مَیں جو کچھ کررہا ہوں عین حقیقت ہے (اٴَفَلَاتَذَکَّرُونَ) ۔
تفکر“ اور ”نذکر“ میں یہ فرق ہے کہ تفکر در حقیقت کسی چیز کی شناخت کے لئے ہوتا ہے چاہے اس کے بارے میں ہمیں پہلے سے کچھ پتہ نہ ہو لیکن ”تذکر“ (یادآوری) اس موقع پر بولا جاتا ہے جب انسان اس امر کے بارے میں زیرِ بحث مسائل بھی اسی نوعیت کے تھے کہ انسان اپنی فطرت اور وجدان کی طرف توجہ کرنے سے انھیں سمجھ سکتا ہے لیکن ان غرور، تعصب، خود پرستی اور غفلت نے ان کے چہروں پر پردہ ڈال دیا تھا ۔
اپنی قوم کے مہمل اعتراضات کے جواب میں حضرت نوح(علیه السلام) آخری بات یہ کہتے ہیں کہ اگر تم خیال کرتے ہو اور توقع رکھتے ہو کہ وحی اور اعجاز کے سوا مَیں تم پر کوئی امتیاز یا برتری رکھوں تو یہ غلط ہے ، مَیں صراحت سے کہنا چاہتا ہوں کہ ”میں نہ تم سے کہتا ہوں کہ خدائی خزانے میرے قبضے میں ہیں اور نہ ہر کام جب چاہوں انجام دے سکتا ہوں“ (وَلَااٴَقُولُ لَکُمْ عِندِی خَزَائِنُ اللهِ) ۔ ”نہ میں غیب سے آگاہی کا دعویٰ کرتا ہوں“ (وَلَااٴَعْلَمُ الْغَیْبَ) ۔ ”اور نہ مَیں کہتا ہوں کہ مَیں فرشتہ ہوں (وَلَااٴَقُولُ إِنِّی مَلَکٌ) ۔
ایسے بڑے اور جُھوٹے دعوے جُھوٹے مدعیوں کے ساتھ مخصوص ہیں اور ایک سچا پیغمبر کبھی ایسے دعوے نہیں کرے گا کیونکہ خدائی خزانے اور علمِ غیب صرف خدا کی پاک ذات کے اختیار میں ہیں اورفرشتہ ہونا بھی ان بشری احساسات سے مناسب نہیں رکھتا، لہٰذا جو شخص ان تین میں سے کوئی ایک دعویٰ کرے یا یہ سب دعوے کرے تو یہ اس کے جُھوٹے ہونے کی دلیل ہے ۔
پیغمبر اسلام کے بارے میں سورہٴ انعام کی آیت ۵۰ میں ایسی تعبیر ملتی ہے جہاں فرمایا گیا ہے:
<قُلْ لَااٴَقُولُ لَکُمْ عِندِی خَزَائِنُ اللهِ وَلَااٴَعْلَمُ الْغَیْبَ وَلَااٴَقُولُ لَکُمْ إِنِّی مَلَکٌ إِنْ اٴَتَّبِعُ إِلاَّ مَا یُوحیٰ إِلَیَّ
مَیں نہیں کہتا کہ خدا کے خزانے میرے پاس ہیں، نہ یہ کہتا ہوں کہ مَیں علم غیب رکھتا ہوں اور نہ یہ کہتا ہوں کہ مَیں فرشتہ ہوں، مَیں صرف اس کی پیروی کرتا ہوں جو مجھ پر وحی ہوتی ہے ۔
اس آیت میں امتیازِ پیغمبر کو وحی میں منحصر کرنا اور مندرجہ بالا تینوں امور کی نفی کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت نوح(علیه السلام) سے مربوط آیات میں بھی ایسای امتیاز مفہوم کلام میں مخفی ہے اگرچہ صراحت سے بیان نہیں ہوا ۔
آیت کے آخر میں دوبارہ مستضعفین کا ذکر کرتے ہوئے تاکیداً کہا گیا ہے ”میں ہرگز ان افراد کے بارے میں جو تمھاری نگاہ میں حقیر ہیں، نہیں کہہ سکتا کہ خدا انھیں کوئی جزائے خیر نہیں دے گا (وَلَااٴَقُولُ لِلَّذِینَ تَزْدَرِی اٴَعْیُنُکُمْ لَنْ یُؤْتِیَھُمْ اللهُ خَیْرًا) ۔ بلکہ اس کے برعکس اس جہان کی خیر انہی کے لئے اگرچہ ان کا ہاتھ مال ودولت سے خالی ہے، یہ تو تم ہو جنھوں نے خام خیالی کی وجہ سے خیر کو مال ومقام یا سن وسال میں منحصر سمجھ رکھا ہے اور تم حقیقت سے بالکل بے خبر ہو۔
اور بالفرض اگر تمھاری بات سچی ہو اور وہ پشت اور اوباش ہوں تو خدا ان کے باطن اور نیتوں سے آگاہ ہے (اللهُ اٴَعْلَمُ بِمَا فِی اٴَنفُسِھِمْ) ۔
مَیں تو ان میں ایمان وصداقت کے سوا کچھ نہیں پاتا، لہٰذا میری ذمہ داری ہے کہ مَیں انھیں قبول کرلوں، مَیں تو ظاہر پر مامور ہوں اور بندہ شناس خدا ہے ۔
اور اگر مَیں اس کے علاوہ کچھ کروں تو یقیناً ظالموں میں سے ہوجاوٴں گا (إِنِّی إِذًا لَمِنَ الظَّالِمِینَ) ۔
آخری جملے کی تفسیر میں یہ احتمال بھی ہے کہ وہ آیت کے سارے مضمون سے مربوط ہو یعنی اگر میں علمِ غیب جاننے، فرشتہ ہونے یا خزائن کا مالک ہونے کا دعویٰ کروں یا ایمان لانے والوں کو دھتکاردوں تو خدا کی بارگاہ میں اور وجدان کی نظر میں مَیں ظالموں کی صف میں داخل ہوں گا ۔

 

 

۱۔ علمِ غیب اور خدا کے خاص بندےحضرت نوح کے جوابات
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma