۲۔ ”اٴَخْبَتُوا“ کا مفہوم :

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 09
حضرت نوح(علیه السلام) کی قوم کی ہلا دینے والی سرگزشت۱۔ تین مربوط حقائق:

اٴَخْبَتُوا“اخبات“ کے مادہ سے ہے اس کی اصل ”خبت“ (بروزن ”ثبت“ )ہے جس کے معنی ہیں صاف اور وسیع زمین جس میں آرام و اطمینان سے چل پھر سکتا ہے، اسی بناء پر یہ مادہ اطمینان کے معنی میں استعمال ہوا ہے اور خضوع وتسلیم کے معنی میں بھی آیا ہے کیونکہ ایسی زمین چلنے پھرنے کے لئے بھی اطمینان بخش ہے اور خود چلنے والوں کے سامنے خاضع اور تسلیم بھی ہے ۔
اسی بناء پر جملہٴ ”اٴَخْبَتُوا إِلیٰ رَبِّھِمْ“ ہوسکتا ہے مندرجہ ذیل متن میں سے کسی ایک معنی میں ہو اگرچہ تینوں معانی ہوں تو کوئی مضائقہ نہیں ہے:۔
۱۔ سچّے مومنین خدا کے سامنے خاضع ہیں ۔
۲۔ وہ اپنے پروردگار کے سامنے سرتسلیم خم کئے ہوئے ہیں ۔
۳۔ وہ خدا کے وعدوں پر اطمینان رکھتے ہیں ۔
ہر صورت میں مومنین کی ایک عالی ترین صفت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، جس کا اثر ان کی تمام زندگی میں منعکس ہوتا ہے ۔
یہ امر جاذب نظر ہے کہ حضرت امام صادق علیہ السلام سے ایک حدیث میں ہے کہ آپ(علیه السلام) کے اصحاب میں سے ایک شخص نے عرض کیا کہ ہمارے درمیان کلیب نامی ایک شخص ہے، آپ(علیه السلام) سے مروی جو بھی حدیث اس تک پہنچے وہ فوراً کہتاہے کہ مَیں اس کے سامنے تسلیم ہوں، اس لئے کہ اس کانام ”کلیب تسلیم“ رکھ دیا ہے ۔
امام(علیه السلام) نے فرمایا: اس پر خدا کی رحمت ہو، پھر فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ تسلیم کسے کہتے ہیں، ہم خاموش رہے تو فرمایا: خدا کی قسم یہ وہی ”اخبات“ ہے جو خدا کے کلام ”الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَاٴَخْبَتُوا إِلیٰ رَبِّھِمْ“ میں آیا ہے ۔ (۱)
بعد والی آیت میں خدا اس گروہ کی حالت کو ایک واضح اور زندہ مثال کے ساتھ یان کرتے ہوئے کہتا ہے: ان دو گروہوں کی حالت، نابینا اور بہرے اور بینا اور سننے والے“ کی سی ہے (مَثَلُ الْفَرِیقَیْنِ کَالْاٴَعْمَی وَالْاٴَصَمِّ وَالْبَصِیرِ وَالسَّمِیعِ) ۔
کیا یہ دونوں گروہ ایک دوسرے کے مساوی ہیں (ھَلْ یَسْتَوِیَانِ مَثَلًا) کیا تم تذکر نہیں کرتے اور غور وفکر نہیں کرتے (اٴَفَلَاتَذَکَّرُونَ) ۔
جیسا کہ علم معانی میں آیا ہے کہ ہمیشہ حقائق عقلی کو مجسم کرنے اور عمومی سطح پر ان کی وضاحت وصراحت کے لئے معقولات کو محسوسات سے تشبیہ دیتے ہیں، قرآن نے اس طریقہ کا زیادہ استعمال کیا ہے اور بہت سے حساس اور پُر اہمیت مسائل کو واضح اور خوبصورت مثالوں سے استفادہ کرتے ہوئے حقائق کو عالی ترین صورت میں بیان کیا ہے، مندرجہ بالا بیان بھی اس قسم کا ہے کیونکہ موٴثر ترین وسیلہٴ حِسّی حقائق کی شناخت کے لئے مادہ وطبیعت میں آنکھ اور کان ہیں، اسی بناء پر یہ باور نہیں کیا جاسکتا کہ وہ افراد جو آنکھ اور کان سے مکمل طور پر مثلاً مادر زاد صورت میں بے بہرہ ہوں کسی چیز کا اس جہانِ طبیعت میں صحیح طور پر ادراک حاصل کرلیں، وہ مسلماً ایک مکمل بے خبری کے عالم میں زندی بسر کریں گے ، اسی طرح وہ افراد جو ہٹ دھرمی، حق دشمنی، تعصب، خود خواہی اور خود پرستی کے چنگل میں گرفتار ہونے کی وجہ سے حقیقت میں آنکھ اور کان گنوا بیٹھے ہیں وہ ہرگز عالم غیب سے مربوط حقائق، ایمان کے اثرات، لذّتِ عبادتِ خداوندی اور اس کے فرمان کے سامنے سرِتسلیم خم کرنے کی عظمت کا ادراک نہیں کرسکتے، ایسے افراد اندھوں، بہروں کی مانند ہیں جو گھٹا ٹوپ اندھیرے اور موت کی خاموشی میں زندگی بسر کرتے ہیں جبکہ مومن دیکھنے والی آنکھ اور سننے والے کان سے ہر حرکت کو دیکھتے ہیں اور ہر صدا کوسنتے ہیں اور اس کو مدِّنظر رکھتے ہوئے اپنا راستہ سعادت آفرین راہ کی طرف اختیار کرلیتے ہیں ۔

 

۲۵ وَلَقَدْ اٴَرْسَلْنَا نُوحًا إِلیٰ قَوْمِہِ إِنِّی لَکُمْ نَذِیرٌ مُبِینٌ

۲۶ اٴَنْ لَاتَعْبُدُوا إِلاَّ اللهَ إِنِّی اٴَخَافُ عَلَیْکُمْ عَذَابَ یَوْمٍ اٴَلِیمٍ
۲۷ فَقَالَ الْمَلَاٴُ الَّذِینَ کَفَرُوا مِنْ قَوْمِہِ مَا نَرَاکَ إِلاَّ بَشَرًا مِثْلَنَا وَمَا نَرَاکَ اتَّبَعَکَ إِلاَّ الَّذِینَ ھُمْ اٴَرَاذِلُنَا بَادِی الرَّاٴْیِ وَمَا نَریٰ لَکُمْ عَلَیْنَا مِنْ فَضْلٍ بَلْ نَظُنُّکُمْ کَاذِبِینَ
۲۸ قَالَ یَاقَوْمِ اٴَرَاٴَیْتُمْ إِنْ کُنتُ عَلیٰ بَیِّنَةٍ مِنْ رَبِّی وَآتَانِی رَحْمَةً مِنْ عِنْدِہِ فَعُمِّیَتْ عَلَیْکُمْ اٴَنُلْزِمُکُمُوھَا وَاٴَنْتُمْ لَھَا کَارِھُونَ
ترجمہ
۲۵۔ ہم نے نوح کو اُن کی قوم کی طرف بھیجا (پہلی مرتبہ اس نے اُن سے کہا) مَیں تمھارے لئے واضح ڈرانے والا ہوں
۲۶۔ (میری دعوت یہ ہے کہ) سوائے الله کے (جو واحد یکتا خدا ہے ) کسی کی عبادت نہ کرو مَیں تم پر دردناک دن والے عذاب سے ڈرتا ہوں ۔
۲۷۔ اس کی قوم کے کافر سرداروں نے (جواب میں) کہا: ہم تو تجھے صرف اپنے جیسا بشر پاتے ہیں اور وہ لوگ جنھوںنے تیری پیروی کی ہے انھیں ہم سوائے سادہ لوح پست لوگوں کے نہیں پاتے اور تمھارے لئے کوئی فضیلت اپنی نسبت نہیں دیکھتے بلکہ تمھیں دروغ گو خیال کرتے ہیں ۔
۲۸۔ (نوح نے) کہا: میں اپنے پروردگار کی طرف سے واضح دلیل رکھتا ہوں اور اس نے اپنی طرف سے مجھے رحمت عطا کی ہے جو تم پر مخفی ہو (پھر بھی تم میری رسالت کا انکار کروگے) کیا مَیں تمھیں واضح امر قبول کرنے پر مجبور کرسکتا ہوں جبکہ تم آمادہ نہیں ہو۔

 


۱۔ تفسیر برہان: ج۲، ص۱۱۶.

حضرت نوح(علیه السلام) کی قوم کی ہلا دینے والی سرگزشت۱۔ تین مربوط حقائق:
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma