مومن عالی ظرف اور بے ایمان کم ظرف ہوتے ہیں

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 09
۱۔ امتِ معدودہ اور یارانِ مہدی علیہ السلام:مقصدِ خلقت

ان آیات میں اس بحث کی مناسبت سے کہ جو بے ایمان افراد کے بارے میں گزرچکی ہے، ایسے افراد کے نفسیاتی حالات اور اخلاقی کمزوریوں کے بعض نکات کی تشریح ہوئی ہے، وہی کمزور گوشے جو انسان کو تاریکیوں اور فساد کی راہوں کی طرف کھینچ لے جاتے ہیں ۔
ایسے افراد کی پہلی صفت جو ذکر کی گئی ہے وہ حقائق کا مذاق اڑانا اور حیات ساز مسائل کے بارے میں تمسخر کرنا ہے وہ جہالت ونادانی اور غرور وتکبر کی وجہ سے جس وقت خدائی نمائندوں کو، بدکاروں کی سزا کے بارے میں ڈراتے دھمکاتے ہیں، جبکہ چند روز گزرنے کے باوجود خدا اپنے لطف وکرم سے ان کے عذاب اور سزا کو تاخیر میں ڈال دیتا ہے تو بڑی بے شرمی اور ڈھٹائی سے کہتے ہیں، کس چیز نے اس خدائی عذاب اور سزا کو تاخیر میں ڈال دیا ہے؟ کیا ہُوا اس سزا کا اور کہاں گیا وہ عذاب؟ (وَلَئِنْ اٴَخَّرْنَا عَنْھُمَ الْعَذَابَ إِلیٰ اٴُمَّةٍ مَعْدُودَةٍ لَیَقُولُنَّ مَا یَحْبِسُہُ) ۔
امت“ مادہ ”ام“ (بروزن قم) سے ماں کے معنی میں آیا ہے جس کا معنی در اصل مختلف اشیاء کا ایک دوسرے میں ضم ہوجانا ہے، اسی بناء پر ہر اس گروہ کو جو اپنے ہدف یا ایک ہی زمان ومکان میں جمع ہو، امت کہا جاتا ہے ۔
البتہ یہ لفظ وقت اور زمانے کے معنی میں بھی آیا ہے، کیونکہ زمانے کے اجزاء باہم پیوست ہوتے ہیں یا اس بناء پر کہ ہر جماعت یا گروہ کسی نہ کسی زمانے میں زندگی گزارتا ہے، سورہٴ یوسف کی آیت ۴۵ میں ہے:
<وَادَّکَرَ بَعْدَ اٴُمَّةٍ
آزاد شدہ قیدی ایک مدت کے بعد یوسف کو یاد کرنے لگا ۔
زیرِ بحث آیت میں لفظ ”امت“ انھیں معنی میں آیا ہے ، لہٰذا لفظ ”معدودہ“ سے توصیف کیا گیا ہے یعنی اگر تھوڑی مدت کے لئے ان سے عذاب موٴخر کردیا جائے تو کہتے ہیں کہ کونسی چیز اس سے مانع ہوئی ہے ۔
پس یہ شیوہ اور طریقہ تمام مغرور اور جاہلوں کا ہے جو چیز ان کے میلانات سے مطابقت نہ رکھے وہ ان کی نگاہ میں مذاق ہے، اسی لئے وہ مردانِ حق کی ہلادینے اور بیدار کرنے والی دھمکیوں کوشوخی اور مذاق سمجھتے ہیں لیکن قرآن مجید ان کو صراحت کے ساتھ جواب دیتا ہے: ”آگاہ رہو جس دن خدائی عذاب آن پہنچا کوئی اسے روک نہیں سکے گی اور جس چیز کا وہ مذاق اڑاتے تھے وہ (عذاب) ان پر نازل ہوگا اور انھیں تباہ کردے (اٴَلَایَوْمَ یَاٴْتِیھِمْ لَیْسَ مَصْرُوفًا عَنْھُمْ وَحَاقَ بِھِمْ مَا کَانُوا بِہِ یَسْتَھْزِئُون) ۔
یہ درست ہے کہ اس وقت ان کا نالہ وفریاد آسمان تک بلند ہوگا اور اپنی شرم انگیز گفتگو سے پشیمان ہوں گے لیکن نہ وہ نالہ وفریاد کہیں پہنچے کا اور نہ وہ پشیمانی انھیں کوئی فائدہ پہنچائے دے گی ۔
ان کمزوری کا ایک اور نکتہ، مشکلات وناراحتیوں اور برکات الٰہی کے منقطہ ہونے پر ان کی کم ظرفی ہے جیسا کہ بعد والی آیت میں آیا ہے : اور جس وقت کسی نعت اور رحمت کا مزہ ہم انسان کو چکھائیں گے اور پھر وہ اس سے واپس لے لیں تو وہ مایوس اور ناامید ہوجاتا ہے اور کفرانِ نعمت اور ناشکری پر اٹھ کھڑا ہوتا ہے ( وَلَئِنْ اٴَذَقْنَا الْإِنسَانَ مِنَّا رَحْمَةً ثُمَّ نَزَعْنَاھَا مِنْہُ إِنَّہُ لَیَئُوسٌ کَفُورٌ) ۔
اگرچہ اس آیت میں گفتگو انسان کے بارے میں بطور کلی آئی ہے لیکن جیسا کہ ہم نے پہلی بھی اشارہ کیا ہے کہ لفظِ ”انسان“ سے اس قسم کی آیات میں غیر ترتیب یافتہ، خود غرض اور ناکارہ انسانوں کی طرف اشارہ ہے، اس بناء پر یہ بحث گزشتہ آیات میں بے ایمان افراد کے متعلق بحث پر منطبق ہوتی ہے ۔ۺ
بے ایان افراد کی کمزوری کا تیسرا نکتہ یہ ہے کہ جس وقت نازونعمت میں ڈوبے ہوئے ہوتے ہیں تو ان پر تکبّر اور غرور اور نفس پرستی اس قدر چھائی ہوتی ہے کہ سب کچھ بھول جاتے ہیں ۔
جیسا کہ قرآن فرماتا ہے: اور مشکلات وتکالیف اب مجھ سے دور ہوگئی ہیں جو کبھی دوبارہ نہ آئیں گی ۔ اور یوں وہ پروردگار کی نعمتوں کے شکرانے سے غافل ہوجاتا ہے (وَلَئِنْ اٴَذَقْنَاہُ نَعْمَاءَ بَعْدَ ضَرَّاءَ مَسَّتْہُ لَیَقُولَنَّ ذَھَبَ السَّیِّئَاتُ عَنِّی إِنَّہُ لَفَرِحٌ فَخُورٌ) ۔
اس آیت کے جملہ ”ذَھَبَ السَّیِّئَاتُ عَنِّی“ میں ایک دوسرا احتمال بھی پایا جاتا ہے اور وہ یہ کہ جب اس طرح کے لوگ شدائد ومشکلات کو نعمتوں سے بدل دیتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ گزشتہ مصائب ہمارے گناہوں کا گفارہ تھے ۔ اب ہمارے گناہ ان کی وجہ سے دھل گئے ہیں اور ہم پاک وپاکیزہ ہوگئے ہیں اور یہ خیال کرتے ہوئے کہ وہ مقربان درگاہِ خدا ہوچکے ہیں توبہ اور اس خدا کی بارگاہ میں بازگشت کے تصوّر سے عاری ہوجاتے ہیں ۔
پس فرمایا: صرف صاحبان ایمان کہ جنھوں نے زندگی کے شدائد اورسخت حوادث کے مقابلے میں صبر واستقامت کا اختیار کیا اور جو ہر حال میں اعمالِ صالح بجالانے میں کوتاہی نہیں کرتے، تنگ نظری، ناشکرگزاری اور غرور وتکبر سے کنارہ کش ہیں جو نہ تو وفورِ نعمت کے وقت مغرور ہوتے اور خدا کو فراموش کرتے ہیں اور نہ ہی شدِّت ِ مصائب کے وقت مایوسی اور کفرانِ نعمت کرتے ہیں بلکہ ان کی عظیم روح اور بلند فکر نعمت وبلا دونوں کو برداشت کرتی ہے، وہ یاد خدا اور اپنی ذمہ داریوں سے غافل نہیں ہوتے، یہی لوگ خدا کے مقرب بندے ہیں اور انہی کے لئے بخشش اور بہت بڑا اجر ہے (إِلاَّ الَّذِینَ صَبَرُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ اٴُوْلٰئِکَ لَھُمْ مَغْفِرَةٌ وَاٴَجْرٌ کَبِیرٌ) ۔

 

۱۔ امتِ معدودہ اور یارانِ مہدی علیہ السلام:مقصدِ خلقت
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma