آخرکار زیرِ بحث آیت میں مسلمانوں کو اسلام کے عالمگیر ہونے کی بشارت دی گئی ہے، گذشتہ آیت کی بحث جس کا مقصد یہ ہے کہ دشمنانِ اسلام کی جان توڑ کوششیں بارآور نہیں ہوں گی، اس کی تکمیل کرتے ہوئے صراحت سے فرمایا گیا ہے: وہ ایسی ذات ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے تمام ادیان پر کامیابی اور غلبہ دے اگرچہ مشرکین اسے پسند نہیں کرتے (ھُوَ الَّذِی اٴَرْسَلَ رَسُولَہُ بِالْھُدیٰ وَدِینِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہُ عَلَی الدِّینِ کُلِّہِ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُونَ) ۔
ہدایت سے مراد روشن دلائل اور واضح براہین ہیں جو دین اسلام میں موجود ہیں اور دینِ حق سے مراد یہی دین ہے جس کے لئے اصول اور فروع حق ہیں، مختصر یہ ہے کہ اس کی تاریخ، اس کے مدارک اور اس کا حاصل سب حق ہے اور بلاشبہ وہ دین جس کے مضامین بھی حق ہیں اور جس کے دلائل، مدارک اور تاریخ سب روشن ہیں اسے آخرکار تمام ادیان پر غالب اور کامیاب ہونا چاہیے ۔
رفتارِ زمانہ، علم کی پیشرفت اور روابط کی آسانی کے ساتھ ساتھ زہریلے پراپیگنڈا کا پردہ ہٹتا جائے گا اور حقائق کا چہرہ آشکار ہوتا چلا جائے گا اور مخالفین حق اس کی راہ میں جو رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں وہ سب ختم ہوجائیں گی، یوں دینِ حق تمام جگہوں پر محیط ہوجائے گاچاہے حق کے دشمن نہ چاہیں اور چاہے اپنی مذموم حرکتوں سے باز نہ آئیں کیونکہ ان کی حرکتیں راہِ تاریخ کے خلاف ہیں اور سننِ آفرینش کی ضد ہیں ۔