۲۔ تخلیق کائنات کی کیفیت

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
پیام امام امیرالمؤمنین(ع) جلد 1
۳۔ تخلیق کائنات کے متعلق، نزول قرآن کے زمانے میں موجودہ مفروضے۱۔ عصر حاضر کے نظریات پر اس کلام کی اجمالی تطبیق

وہ نہایت پیچیدہ مسائل جو دانشمند اور متفکر حضرات کے سامنے ہیں اُن میں سے ایک مسئلہ یہی ہے کہ کائنات کی تخلیق کیسے ہوئی، اس مسئلہ کی بازگشت اربوں سال پہلے کی طرف ہے اور شاید یہ مسئلہ کسی انسان کی فکر میں نہ سما سکے، اسی وجہ سے بڑے بڑے دانشمند، اپنے ان تمام مفروضوں اور اندازوں کے باوجود جن کا انھوں نے اظہار کیا اور اس سلسلہ میں انھوں نے طاقت فرسا مطالعہ اور کوششیں کی ہیں، کسی جگہ تک نہیں پہنچ سکے بلکہ سب نے اس مسئلہ میں عاجزی کا اظہار کیا ہے ۔
لیکن بشر کی جستجو گر روح اُسے خاموش ہوکر چین سے نہیں بیٹھنے دیتی کہ اس سلسلہ میں گفتگو نہ کرے، حقیقت میں دانشمندوں کی زبان حال یہ ہے کہ اگرچہ ہم اس موضوع کی تہہ اور حقیقت تک پہنچنے سے عاجز اور ناتواں ہیں، لیکن اس کے باوجود ہم اس کا ایک تصور اور خیال اپنے ذہن میں بٹھاکر اپنی جستجوگر اور پیاسی روح کو تھوڑا سیراب کرنے کی خواہش رکھتے ہیں ۔
قرآنی آیات اور اسلامی روایات واحادیث میں اس مسئلہ کی طرف فقط مختصر سا اشارہ نظر آتا ہے لہٰذا وہ بھی ہمارے ذہن میں فقط ایک دھندے سے خیال کی تصویر کشی کرتی ہیں، اس سے زیادہ کچھ نہیں اور طبیعی طور پر یہ مسئلہ بھی اسی بات کا تقاضا کرتا ہے ۔
بہرحال تخلیق کائنات کے متعلق جو بھی اِس خطبہ شریفہ میں آیا ہے وہ اس سے ہماہنگ ہے جو خطبہ نمبر۲۱۱ میں ہم پڑھتے ہیں کہ حضرت نے ارشاد فرمایا: ”وَکَانَ مِن اقتدار جَبَرُوتِہِ وَبَدِیع لَطَائِفِ صَنْعِتِہ اٴن جَعَلَ مِن مَاءِ الْبَحْرِ الزَّاخِرِ الْمُتَرَاکِمِ الْمُتَقَاصِفِ یَبَساً جَامِداً ثُمَّ فَطَرَ مِنہُ اٴَطْبَاقاً فَفَتَقَھَا سَبْعَ سَمَوَاتٍ، بَعدَ اِرْتِتَاقِھَا؛ خلّاق کائنات کے اقتدار وجبروت کی طاقت اور اس کی صناعی کی حیرت انگیز لطافت یہ تھی کہ اس نے طغیاںمتلاطم اور تہہ دار سمندر کے پانی سے جس کی موجیں شدّت سے آپس میں ٹکرارہی تھیں ایک ٹھوس اور خشک چیز کو پیدا کیا، پھر اس کے طبقے بنائے اور ایک دوسرے میں پیوستہ کرنے کے بعد اُنھیں شگافتہ کرکے سات آسمان پیدا کئے“۔
اسلامی روایتوں میں بھی اس سلسلہ میں کثرت سے بحث وگفتگو دکھائی دیتی ہے، اکثر روایات، اس بیان سے ہماہنگ ہیں جو اس خطبہ میں آیا ہے، فقط اس فرق کے ساتھ کہ ان میں سے بہت سی روایتوں میں آیاہے کہ پہلے اس پانی پر جھاگ نمودار ہوئے، جھاگ سے بھاپ یا دھواں اٹھا اور آسمانوں کووجود میں لایا ۔(1)
لیکن جیسا کہ کہا گیا ہے ان حدیثوں میں کوئی تضاد یا ٹکراوٴ نہیں ہے چونکہ قوی امکان ہے کہ سب سے پہلا مادّہ، بہنے والی چیز کی طرح دبی ہوئی سیّال گیس کی شکل میں رہا ہو اور اس پر مختلف مرحلوں میں پانی، بھاپ اور دھوئیں کا عنوان صادق آتا ہے ۔
یہ بات بھی غور طلب ہے کہ اُن روایات اور حدیثوں میں بھی کوئی تضاد یا ٹکراوٴ نہیں ہے جن میں بیان ہوا ہے کہ سب سے پہلے جو چیز پیدا ہوئی وہ پانی ہے یا سب سے پہلے الله نے پیغمبر اکرم صلی الله علیہ والہ وسلّم کے نور کو خلق کیا یا سب سے پہلے عقل کو بنایا ہے، اس لئے کہ ان میں سے بعض احادیث، عالَم مادّہ کی تخلیق پر ناظر ہیں اور بعض حدیثیں عالَم مجردات اور عالَم ارواح پر نظر رکھتی ہیں ۔
گذشتہ بیان سے واضح ہوجاتا ہے کہ ان روایات اور سورہٴ فصّلت کی گیارہویں آیت میں جو بیان ہوا ہے کوئی کسی طرح کا تضاد یا ٹکراوٴ نہیں ہے قرآن مجید کے سورہٴ فصّلت میں ارشاد ہوتا ہے: <ثُمَّ اسْتَوَی إِلَی السَّمَاءِ وَھِیَ دُخَانٌ ”اس کے بعد آسمانوں کو بنایا حالانکہ وہ دھواں تھے“۔

 


1۔ ان روایات کے بارے میں مزید معلومات کے لئے بحارالانوار، مطبوعہ بیروت، ج۳، ۱۰،اور ۵۷ میں رجوع فرمائیں، اس سلسلہ کی زیادہ تر حدیثیںجلد۵۷ میں موجود ہیں ۔
 
۳۔ تخلیق کائنات کے متعلق، نزول قرآن کے زمانے میں موجودہ مفروضے۱۔ عصر حاضر کے نظریات پر اس کلام کی اجمالی تطبیق
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma