پانی پہلی مخلوق تھی

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
پیام امام امیرالمؤمنین(ع) جلد 1
ساتواں حصّہچھٹا حصہ

عالم کی پیدائش کی کیفیت سے متعلق اس حصہ اور آئندہ حصہ میں مولائے کائنات امیر المومنین علی (علیہ السلام)کے کلمات سے جو کچھ استفادہ ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ خداوند عالم نے سب سے پہلے پانی یا دوسرے لفظوں میںایساسیال جو پانی کی طرح تھا، خلق کیااور اس کو تیز و تند ہوا کے کندھوں پر سوار کیا ان تیز و تند ہواؤں کو حکم کیا گیا تھا کہ اس سیال کو کامل طور سے محفوظ رکھیں ،منتشر نہ ہونے دیںور سرحدوں پر اس کو متوقف رکھیں ۔
اس کے بعد اس سے بھی زیادہ تیز و تند ہواکو خلق کیا تاکہ وہ اس عظیم سیال میں امواج کو ایجاد کرے اور اس تیز و تند ہوا نے پانی کی عظیم امواج کو اور زیادہ عظیم بنادیا پھر وہ موجیں اتنی بلند ہوئیں کہ فضا کی کمر پر سوار ہوگئی اور اس سے سات آسمان خلق ہوگئے ۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ پانی ، ہوا، طوفان وغیرہ جیسے الفاظ (کیونکہ اس وقت نہ پانی تھا نہ ہو ا اورنہ طوفان یہاں تک کہ اس وقت نہ روز تھا اور نہ شب)کنایہ ہیں ان موجودات سے جن کو ہم آج پانی اور ہوا سے مشابہ دیکھتے ہیں کیونکہ لغویین نے ان الفاظ کو ان کاموں کے لئے وضع کیا ہے اور جو چیز اس عالم کی تخلیق میںواقع ہوئی ہے اس کے لئے انہوں نے کوئی لفظ وضع نہیں کیا ہے ۔
جو کچھ مولا علی (علیہ السلام) کے کلام میںبیان ہوا ہے اس میں غور وفکر کرنے سے ان آخری فرضیات کی تفسیر کی جاسکتی ہے جن کو آج کے دانشوروں نے بیان کیا ہے ،ہم یقینی طور پر یہ نہیں کہتے کہ مولا کی مراد یہی تھی بلکہ اجمالی طور پر اس طرح کی تفسیرکو اس کے لئے ذکر کیا جاسکتا ہے ۔
توضیح : دنیا کی پیدائش کے سلسلہ میں آج کے آخری فرضیات یہ ہیں کہ شروع میں تمام عالم ،گیس کا ایک بہت عظیم انبار تھا جو سیال سے مشابہ تھا اور اس کے اوپر ”دخان“ (دھویں) کا نام رکھا جاسکتا ہے یا دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ وہ آسمان کے بالائی حصوں میں دھواں تھااور جتنا بھی دنیا کے مرکز سے نزدیک ہوتا جاتھا اتنا ہی چھوٹا اور سیال کی صورت اختیار کرتا جاتا تھا ۔
جو چیز اس عظیم ،انبار کو محفوظ کئے ہوئے تھی وہ جذب کرنے والی وہی طاقت تھی جو دنیا کے تمام ذرات کے درمیان برقرار ہے ،یہ قوت جاذبہ اس سیال گیس کے اوپر مسلط اور محکم تھی اور اس کو اجازت نہیں دیتی تھی کہ یہ اپنی حدوں سے باہر نکلے ۔
اس کے بعد اس عظیم انبارنے اپنے مرکز کا چکر لگانا شروع کیا (یا شروع ہی سے اپنے اطراف میں چکر لگارہا تھا) یہاں پراپنے مرکز سے فرار کرنے والی طاقت وجود میں آئی(۱) ۔
مرکز سے اس طاقت کے فرار کرنے کی وجہ سے گیس کا یہ عظیم انبار فضا میں داخل پھیلنے لگا ۔ اور نہج البلاغہ کی تعبیر میں اس دریا کی امواج کو ہر طرف بھیجنے لگایا دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ زمین کے صفحہ پر جو جھاگ ظاہر ہوئے تھے ان کو باہر نکالا اور ان کو کھلی ہوئی ہوا اور وسیع فضا میں اوپر لے گیا (اس خطبہ کے آئندہ جملوں میں بھی یہی تعبیر بیان ہوئی ہے) اور اس سے منظومہ شمشی،کہکشاں،چھوٹے اور بڑے کرات (یا قرآن کریم اور نہج البلاغہ کی زبان میں سات آسمان )وجود میں آئے ۔
ہم کسی اصرار کے بغیر مذکورہ تعبیرات کو ان نظریات پر تطبیق کرتے ہیں ،ہم اس حدتک کہتے ہیں کہ آسمان،منظومہ شمسی ، کہکشاں او رکرہ زمین کی پیدائش میں نظریوں کے افق اور آج کے علمی فرضیات کاملا مولا علی (علیہ السلام) کے جملوں میں قابل درک ہیں ۔
اب ہم ان دقیق اور ظریف تعبیرات کا مطالعہ کرتے ہیں جو مولا علی کے کلام میں بیان ہوئے ہیں:
پہلے آپ فرماتے ہیں : خدا وند عالم نے اس عظیم فضاء میں جس کو پہلے خلق کیا تھا ، پانی جاری کیا،ایسا متلاطم پانی جس کی امواج بہت زیادہ شدید تھیں(فاجری فیھا ماء متلاطما(۲) تیارہ (۳)) ۔
”تلاطم“ کے معنی امواج کا ایک دوسرے سے ٹکرانا ہے اور ”تیار“ کے معنی ہر طرح کی امواج کے ہیں، خصوصا وہ امواج جو پانی کو باہر پھنکتی ہیں ۔
کیا یہ متلاطم اور پر جوش پانی وہی پہلے والاسیال گیس نہیںہے جو آج کے دانشوروں کے نظریات کے مطابق دنیا کے اولین مادے کو تشکیل دیتا ہے؟
اس کے بعد اس پانی کے تلاطم اور جوش و خروش کے سلسلہ میں زیادہ تاکید کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ” یہ اس وقت تھا جب یہ امواج اس متلاطم دریا سے اٹھتی تھیں اور ایک دوسرے کے اوپر سوار ہوتی تھیں(متراکما(۴) زخارہ(۵) ) ۔
اس کے بعد مزید فرماتے ہیں : خداوند عالم نے اس پانی کو ایک تیز و تند ہوا اور سخت طوفان کے کاندھے پر لاد دیا (حملہ علی متن الریح العاصفة(6) والزعزع(7) القاصفة(8)) ۔
عاصف“ کے معنی توڑے اور کوٹنے کے ہیں ”زعزع“ کے معنی مضطرب، شدید اور ”قاصف“ کے معنی بھی توڑنے کے ہیںاور یہ پے در پے تمام تاکیدیں اس شدید اور وسیع ہوا کی قدرت کو بیان کرنے کیلئے ہیں ۔
اس عظیم اور وحشتناک طوفان کوحکم دیا گیا تھا کہ پانی کی امواج کو محفوظ اور ان کے اجزاء کو ایک دوسرے سے متصل کردے اور ان کو اپنی حدود میں محفوظ رکھ(فامرھا بردہ ، وسلطھا علی شدہ(9) ، وقرنھا الی حدہ ) ۔
کیایہ عظیم اور شدیدطوفان امواج جاذبہ کی طرف اشارہ نہیں ہے جس کو خداوند عالم نے عالم مادہ کے تمام ذرات پر مسلط کیا ہے جس کے ذریعہ سے تمام اجزاء کے متصل ہونے اور ذرات کے منتشر ہونے سے روکتا ہے، اور سب کو مہار کرکے اپنے دائرہ میں محفوظ رکھتا ہے؟
عظیم امواج اور اس کے شرایط کوبیان کرنے کیلئے تیز ،سخت اور مہار کرنے والی ہوا سے بہتر اور کیا تعبیر بیان کی جاسکتی تھی ۔
یہ سب اس وقت تھا کہ جب اس کے نیچے فضا ہاتھ کھولے ہوئے تھا اور پانی (وہی سیال گیس) اس کے اوپر حرکت کررہا تھا(الھوائمن تحتھا فتیق(10)، والماء من فوقھا دفیق(11)) ۔
فتیق“ کا مادہ ”فتق“ ہے اور اس کے معنی کھلنے کے ہیں ۔ ”دفیق“ کا مادہ ”دفق“ ہے اوراس کے معنی تیزی سے حرکت کرنے کے ہیں ۔
جی ہاں یہ متلاطم موجیں تیز ہواؤں کے ذریعہ محدود ہوجاتی ہیں اور اپنی حدوں سے تجاوز کرنے سے روک دی جاتی ہیں ۔
یہاں پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان تیز اور مہار کرنے والی ہواؤں کے باوجود وہ متلاطم موجیں کس طرح پانی کے اندر پیدا ہوتی تھیں، کیونکہ عام طور سے موجیں ہوا اور طوفان کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں، جب کہ یہاں پر طوفان ، امواج کو روکنے اور مہار کرنے کا کردار ادا کرتا تھا پھر کون سی چیز باعث ہوتی تھی کہ ان امواج میں تلاطم پیدا ہو۔
ایسا لگتا ہے کہ ان امواج کی پیدائش کا سبب خود اس کے اندر کوئی چیز تھی جو پانی کو ہمیشہ متلاطم کرتی تھی ،یہ علت اور سبب کیا ہے ، دقیقا طور سے ہمارے لئے یہ بات ثابت نہیں ہے ،لیکن آج کے دانشوروں کے نظریات سے کامل طور پر سازگار ہے ۔ کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ پہلے سیال گیس کے اندر پے در پے بم منفجر ہوتے تھے ، وہی انفجار جو آج بھی ہمارے سورج کے اندر پیدا ہوتے ہیں ۔ یہ عظیم انفجار ، سیال گیس کے آرام میں خلل ایجاد کرتا تھا اور امواج میں ایک عظیم تلاطم پیدا کردیتا تھا ۔
اس فراز کو کامل کرنے کیلئے بعد والے فراز کا مطالعہ کرتے ہیں اور مولا علی(علیہ السلام) کے نظریات کے مطابق دنیا کی پیدائش کا دقیق نقشہ بناتے ہیں ۔


۱۔ جو چیز بھی اپنے گردچکر لگاتی ہے ،وہ اپنے مرموزی طاقت کے تحت اس مرکز سے فرار کرنا چاہتی ہے ،بالکل اسی آگ کی طرح جس کو ہم اپنے ہاتھ سے گھوماتے ہیں اگر وہ اچانک ہمارے ہاتھ سے چھٹ جائے تو بہت دور جاکر گرے گی ، یہ وہی طاقت ہے جو مرکز سے فرار کرنا چاہتی ہے اور یہ جتنی بھی شدید ہوگی اسی قدر دور سے دور جگہ پر جاکر گرے گی ۔
۲۔”متلاطم“ کا مادہ ”لطم“ (ختم کے وزن پر) ہے اس کے معنی ہاتھ کی ہتھیلی سے چہرہ پرطمانچہ مارنے کے ہیں، بعد میں یہ لفظ امواج کے تھپیروں میں استعمال ہونے لگا ۔
۳۔ ”تیار“ دریا کی ان امواج کو کہتے ہیں جو پانی کو دریا سے باہر پھینکتی ہیں، بعض اہل لغت نے اس کو ہر طرح کی موج پر اطلاق کیا ہے (مقاییس اللغة اور لسان العرب) ۔
۴۔ ”متراکم“ کا مادہ ”رکم“ (رزم کے وزن پر) ہے، اس کے معنی کسی چیز کو اکھٹا کرنے اور ان میں سے بعض کو بعض کے اوپر ڈالنے کے ہیں ، بادلوں، ریت، پانی ا وران انسانوں کے اوپر اطلاق ہوتا ہے جو ایک جگہ جمع ہوجاتے ہیں (مفردات، لسان العرب، مقاییس اللغة) ۔
۵۔ ”زخار“ کا مادہ ”زخر“ ہے اور ”زخور“ اصل میں بلندی کے معنی میں ہے اور یہ دریا کے بھرجانے اور اپنی حدود سے باہر نکلنے پر بھی اطلاق ہوتا ہے (لسان العرب و مقاییس اللغة) ۔
6۔ ”عاصفہ“ کا مادہ ”عصف“ (عصر کے وزن پر) ہے اس کے معنی ہلکے اور جلدی کے ہیں اسی وجہ سے حبوبات کے چھلکوں اور گھانس پھونس کے ٹوٹے ہوئے ٹکڑوں کو جلدی منتشر ہوجانے کی وجہ سے عصف کہتے ہیں ۔ ”عاصف“ اور ”معصف“ اس چیز کو کہتے ہیں جو اشیاء کو ٹوڑکر نرم کردیتی ہے (مفردات، لسان العرب، مقاییس اللغة) ۔
7۔ ”زعزع“(زمزم کے وزن پرہے اور اس )کے معنی حرکت اور اضطراب کے ہیںاور یہ شدید و سخت کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ( لسان العرب، مقاییس اللغة) ۔
8۔ قاصفہ کا مادہ قصف (حذف کے وزن پر)ہے اس کے معنی کسی چیز کو توڑنے کے ہیں، اسی وجہ سے سخت اور شدید طوفانوں کو قاصف کہتے ہیں کیونکہ یہ دریاؤں میں کشتیوں کو توڑدیتے ہیں ،اسی طرح شدید رعد و برق کو قاصف کہتے ہیں (مفردات، لسان العرب، مقاییس اللغة) ۔
9 ”شد“ (مد کے وزن پرہے) کے معنی کسی چیز کی قوت اور طاقت کے ہیں، اسی وجہ سے قوی (خصوصا جنگ میں قوی) افراد کو شدید کہا جاتا ہے ۔ یہ لفظ، محکم گرہ لگانے(چاہے بدن میں ہو یا باطنی اور روحی طاقت میںیا مصیبت اور عذاب )میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔(مفردات، لسان العرب، مقاییس اللغة) ۔
10۔ ”فتیق“ کا مادہ ”فتق“ ہے جو کہ پہلے فراز میں گزر گیا ہے ۔
11۔ ”دفیق“ کا مادہ ”دفق“ (دفن کے وزن پر)ہے اصل میں اس کے معنی کسی چیز کو آگے کی طرف ہانکنے کے ہیں اور تیزی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ تیز چلنے والے اونٹ کو ”ادفق“ کہتے ہیں ۔
ساتواں حصّہچھٹا حصہ
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma