۱۔ مخلوق اور خالق کا رابطہ اور ”وحدت وجود“ کا مسئلہ!

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
پیام امام امیرالمؤمنین(ع) جلد 1
۲۔ ناآگاہ افراد کا خدا کے صفات کی حقیقت سے منحرف ہونانکات

خدا وند عالم او رمخلوق کے درمیان کیا رابطہ ہے اس سلسلہ میں فلاسفہ اور دانشوروں کے درمیان اختلاف ہے۔ اس سلسلہ میں بعض گروہ نے افراط سے کام لیا ہے اور انہوں نے وحدت وجود اور موجود کی راہ میں قدم بڑھایا اور اس کو مخلوق کی طرح سمجھنے لگے۔
وہ کہتے ہیں عالم ہستی میں ذاتی وجود ایک سے زیادہ نہیں ہے اور اس کے علاوہ جوکچھ بھی ہے اس میں اس کی ذات کے جلوے موجود ہیں یا دوسرے لفظوں میں یہ کہاجائے : ایک سے زیادہ کوئی چیز نہیں ہے اورکثرت ، تعدد، خیالات اور فکریں ایسی سراب کی طرح ہیں کہ جو اپنے آپ کو پانی ظاہر کرتا ہے لیکن وہ کچھ بھی نہیں ہے۔
کبھی کبھی وحدت او راتحاد کے بجائے حلول کی تعبیر کرتے ہیں اور کہتے ہیں وہ ایسی ذات ہے جو تمام اشیاء میں حلول کرگئی ہے اور ہر زمانہ میں ایک لباس میں آتا ہے اور بے خبر وجال لوگ اس میں دوئی کا احساس کرتے ہیں جب کہ وہ ایک سے زیادہ کچھ نہیں ہے (۱) ۔
۱۔ بہت سے صوفیوں کا یہی عقیدہ ہے اور ان کے بڑے علماء کے جملے اس بات پر گواہ ہیں جو انہوں نے کہے ہیں جیسے بعض نے کہا ہے ”انی انا اللہ“ (میں خدا ہوں) اور بعض نے بہت تعجب خیز جملات کہیں ہیں ”سبحانی ما اعظم شانی” (میں پاک و منزہوں! میرا مقام و منزلت کتنا بڑا ہے!) اور بعض نے اپنے اشعار میں وضاحت کے ساتھ کہا ہے: بت پرستی عین خدا پرستی ہے!
مسلمان گر بدانستی کہ بت چیست
یقین کردی کہ حق در بت پرستی است!
جیسا کہ مولوی کہ اشعار میں بیان ہوا ہے جو خدا کو ایک بت عیار کے عنوان سے یاد کرتا ہے کہ خدا وند عالم ایک روز آدم کے لباس میں آیا! اور بعد میں نوح کی شکل میں اس کے بعد موسی و عیسی کی شکل میں ظاہر ہوااور پھر محمد (ص) کی شکل میں اور ایک روز علی اور ان کی تلوار ذوالفقار کی شکل میں ظاہر ہوا اور آخر کار منصورکی شکل میں سولی پر چڑھ گیا! ( ”عارف و صوفی چہ می گویند“ سے تلخیص، صفحہ ۱۱۷) ۔
خلاصہ یہ کہ وہ عالم ہستی کو ایک دریا کی طرح سمجھتے ہیں اور موجودات کو اس دریا کے قطرے:
ہر کس کہ ندیدہ قطرہ بابحریکی
حیران شدہ ام کہ چون مسلمان باشد؟!
دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ ہر طرح کی دوئی، اس عالم میں خیال و وہم کے علاوہ کچھ نہیں ہے:
وصال این جایگہ رفع خیال است
خیال از پیش بر خیزد وصال است!
بلکہ بعض علماء کے عقیدے کے مطابق انسان صوفی حقیقی اس وقت ہو سکتا ہے جب وحدت وجود اور موجود پر اعتقاد رکھتا ہو بغیر اس کے صوفی حقیقی نہیں بن سکتا کیونکہ تصوف کی اساس اور بنیاد یہی وحدت وجود ہے!
اگر چہ ان کے بعض کلمات ، توجیہ کرنے اور بعض صحیح معانی پر حمل کرنے کے قابل ہیں۔ جیسا کہ عالم میں قائم بالذات کا حقیقی وجود ایک سے زیادہ نہیں ہے اور باقی جو کچھ ہے وہ اسی سے وابستہ ہے (جیسا کہ تشبیہ میں اسمی اور حرفی معنی کی بحث میں کہا ہے)یا یہ ہے کہ خداوندعالم کی ذات (کہ جس کاوجود ہر جہت سے لامحدود ہے) کے علاوہ باقی موجودات اس قدر چھوٹی اور بے قیمت ہیں جن کا شمار نہیں ہوتا ایسا نہیں ہے کہ ان کا اصلا وجود ہی نہ ہو۔
لیکن ان کی یہ باتیں توجیہ و تاویل کے قابل نہیں ہیں بیشک یہ کہتے ہیں اس دنیا میں ایک وجود کے علاوہ کچھ نہیں ہے باقی جو کچھ ہے وہ ایک خیال اور وہم ہے یہاں تک کہ وضاحت کرتے ہیں کہ بت پرستی بھی اگر محدود نہ ہو تو عین خدا پرستی ہے، کیونکہ تمام عالم وہ ہے اور وہ تمام عالم ہے۔
یہ بات کسی کی بھی ہو(وجدان و عقل کے برخلاف ، بلکہ بدیہات میں سے ہے اور اس کے ذریعہ علت و معلول، خالق و مخلوق اور عابد معبود کا انکار کیا جارہا ہے) اسلامی عقاید کے لحاظ سے اس کا فساد و بطلان کسی کے اوپر پوشیدہ نہیں ہے۔کیونکہ اس صورت میں خدا اوربندہ، پیغمبر و امت، عابد و معبود اور شارع و مکلف کا کوئی مفہوم ہی نہیں رہ جائے گایہاں تک کہ بہشت و دوزخ، اہل بہشت اور اہل دوزخ سب ایک ہوجائیں گے اور سب اس کی عین ذات ہیں،اور یہ دوئی ، وہم و خیال کی ایجاد ہے کہ اگر اس وہم و خیال کے پردوں کو ہٹا دیں تواس کے وجود کے علاوہ کچھ باقی نہیں رہے گا! اور اس کا لازمہ یہ ہے کہ خداوند عالم کے مجسم ہونے یا اس کے حلول ہوجانے کا اعتقاد قائم ہوجائے گا۔
لہذا یہ نہ عقل و دلایل عقل سے سازگارہے اور نہ اسلامی عقاید اور قرآن سے۔ یہی وجہ ہے کہ فقیہ نامدار مرحوم محقق یزدی (قدس سرہ) عروة الوثقی کے متن میں کفار کی بحث کے سلسلہ میں لکھتے ہیں : لا اشکال فی نجاسة الغلاة والخوارج والنواصب و اما المجسمة والمجبرة والقائلین بوحدة الوجود من الصوفیة اذا التزموا باحکام الاسلام فالاقوی عدم نجاستھم الا مع العلم بالتزامہم بلوازم مذاھبھم من المفاسد (۱) ۔ غلات، خوارج اور نواصب کے ناپاک ہونے میں کوئی شک نہیں ہے (۲) ۔ لیکن جو لوگ خدا کی جسمانیت اور جبر کے قائل ہیں اور اسی طرح صوفیوں کا وہ گروہ جو وحدت الوجود کا قائل ہے، اگر یہ اسلام کے احکام پر عمل کریں تو اقوی یہ ہے کہ یہ نجس نہیں ہیں ، مگر یہ ثابت ہوجائے کہ جو چیزیں ان کے مذہب میں فاسد ہیں یہ ان پر قائم ہیں۔
اس عبارت میں دو نکتہ قابل توجہ ہیں: ایک وحدت وجود کے معتقدین کو جبریوں اور جو لوگ خدا کی جسمانیت کے قائل ہیں،ان کے اوپر عطف کرنااور ان سب کو ایک صف میںشمار کرنا اور دوسرے اس بات کی وضاحت کہ ان کے اعتقاد میں مفاسد دینی پائے جاتے ہیں اگر یہ ان مفاسد کو انجام دیں تو مسلمان نہیں ہیں اور اگر ان مفاسد کو انجام نہ دیں تو مسلمانوں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔
یہ بات وضاحت کے ساتھ سمجھا رہی ہے کہ ان کے مذہب میں اس قدر مفاسد موجود ہیں کہ اگر یہ ان پر پابند رہیں تو مسلمانوں کی صف سے خارج ہوجائیں گے۔
یہ بات قابل توجہ ہے کہ جن علماء نے عروہ الوثقی پر حاشیہ لگایا ہے، انہوں نے اس بات کو قبول کیا ہے یا اس پر کچھ قیود کا اضافہ کیا ہے (جیسے توحید اور رسالت کے انکار کا سبب نہ ہو) (3) ۔
اس مسئلہ کے مفاسد اور برائیوں کو جاننے کے لئے ایک مثال پیش کرتے ہیں جس کی طرف مثنوی میں اشارہ ہوا ہے۔
مثنوی کے چوتھے دفتر میں ایک لمبی داستان کو نقل کرتے ہوئے یزید کے جملہ ”سبحانی ما اعظم شانی“ کو نقل کیا ہے جس پر اس کے مریدوں نے اعتراض کیا ہے کہ یہ کیا بکواس ہے جس کو بیان کرتے ہو اور کہتے ہو ”لا الہ الا انا فاعبدون” (میرے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے لہذا میری پرستش کرو)؟!۔ اس نے کہا اگر میں نے دوبارہ اس کی تکرار کی تو چاقو سے میرے اوپر حملہ کرنا۔ دوبارہ پھر اس نے یہی کہااور ”میرے جبہ میں خدا کے علاوہ کوئی نہیں ہے اس کو زمین و آسمان میں کیوں تلاش کرتے ہو“کا نغمہ الانپا۔ اس کے مریدوں نے چاقو سے اس پر حملہ کیا،لیکن انہوں نے دیکھا کہ وہ چاقو سے اپنے جسم کو زخمی کررہے ہیں۔
یہ گھڑا ہوا افسانہ اور اس طرح کی فکر بتا رہی ہے کہ اس راہ کو تلاش کرنے والے کہاں تک جاتے ہیں۔
اس بات کو نہج البلاغہ میں ایک معاصر کے کلام پر ختم کرتے ہیں:
”یہ مکتب (وحدت وجود بہ معنائے وحدت موجود)عقلی تمام قوانین ، نفسانی فکر اور الہی ادیان کی باتوں سے دور ہے اور جہان ہستی کو وجود کے مرتبہ (خدا) سے اوپر لے جاتا ہے یا خدا کو بہت پست کرکے اس دنیا سے ملا دیتا ہے ، ایسا لگتا ہے کہ اس مکتب نے بعض افراد کے ذہن کواشکالات سے چھٹکارا پانے کیلئے مشغول کررکھا ہے (4) ۔


۱۔ عروة الوثقی، نجاست کافر کی بحث، مسئلہ ۲۔
۲۔”غلات“ وہ لوگ ہیں جو ائمہ(علیہم السلام)خصوصا حضرت علی(علیہ السلام) کے بارے میں غلو کرتے ہیں اور ان کو خدا جانتے ہیں یا ان کو خدا کے ساتھ متحد شمار کرتے ہیں۔ ”خوارج“ وہ لوگ ہیں جو جنگ صفین میں سے باقی رہ گئے تھے اور انہوں نے حضرت علی(ع) کے خلاف خروج کیا تھااور جنگ نہروان میں آپ کے ساتھ جنگ میں ہار گئے تھے ۔ اور نواصب ، اہل بیت (علیہم السلام) کے دشمن ہیں۔
3۔اس کی زیادہ وضاحت کیلئے مرحوم آیة اللہ شیخ محمد تقی آملی (فقیہ ، فلسفی) کی کتاب مصباح الھدی کی جلد اول کے صفحہ ۴۱۰ پر مراجعہ کریں اور اسی طرح مرحوم آیةاللہ خوئی کی تقریرات میں تیسری جلد کے صفحہ ۸۱ اور ۸۲ پر مراجعہ کریں۔
4۔ترجمہ و تفسیر نہج البلاغہ، استاد جعفری، جلد ۲، ص ۶۴۔
 
۲۔ ناآگاہ افراد کا خدا کے صفات کی حقیقت سے منحرف ہونانکات
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma