امام حسین (علیہ السلام) اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
اهداف قیام حسینى
اس مقصد کا پیغامامر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے مراحل

جیسا کہ پہلے بھی ذکرہوچکا ہے بنی امیہ خصوصا یزید کی حکومت کے زمانہ میں منکرات کا بول بالا تھا ،یہاں تک کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی حکومت کے مرکز مدینہ منورہ میں بھی انواع و اقسام کی منکرات اور محرمات انجام پانے شروع ہوگئے تھے (۱) ۔ اور بات یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ بعض گروہ گانا گانے والی عورتوں کے استقبال میں مدینہ سے باہر جاتے تھے اور اس کام سے شرمندگی کا احساس نہیں کرتے تھے!اب آپ خود ان مشکلات کی تحقیق کریں ، اور دوسرے شہروں کی حالت کا تصور کریں جو اسلام کے مرکز سے بہت دور تھے ۔ البتہ یہ تمام باتیں(جیسا کہ پہلے بھی اشارہ کیا گیا ہے) فطری تھیں ، کیونکہ جب حکومت کے رئیس افراد جو اپنے آپ کو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا خلیفہ و جانشین سمجھتے تھے وہ طرح طرح کے گناہوں میں آلودہ تھے ،لہذا عام انسان سے کیا توقع کی جاسکتی ہے ؟!
شاعر نے کیا خوب کہا ہے :
اذا کان رب البیت بالدف مولعا
فشیمة اھل البیت کلھم الرقص
(۲) ۔
جب کسی گھر کے ذمہ دار کو گانے بجانے کا بہت زیادہ شوق ہو تو پھر دوسرے تمام گھر والے ناچنے اور گانے میں مشغول ہوجائیں گے ۔
جی ہاں ، اسلامی دنیا کے مغرب و مشرق میں منکرات کا بول بالا تھا اور معروف کو بھلادیاگیا تھا ، صلحا، عباد، مہاجرین اور انصار ، حکومت سے بہت دور ہوگئے تھے، ظالم، فاسق اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے جن لوگوں کو جلا وطن کیا تھا انہوں نے حکومت کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں لے لی تھی (۳) ۔ امام حسین (علیہ السلام) نے ایسے حالات میں اپنے پورے وجود (جان ، دل اور زبان ) کے ساتھ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمہ داری کونبھایا ۔ عاشور کے روز قرآن کریم کو اپنے سر پر رکھ کے دونوں لشکروں کے درمیان کھڑے ہوگئے اور کئی مرتبہ ان کو قرآن پر عمل کرنے کی دعوت دی، اور جب آپ نے دیکھا کہ دل و زبان کے مرحلہ سے کچھ نہیں ہوگا تو بعد والے مرحلہ میں داخل ہوئے ۔ تیسرے مرحلہ میں کبھی دشمن نابود ہوجاتا ہے اور اس طرح منکرات ترک ہوجاتے ہیں اور اگر اس طرح بھی ممکن نہ ہو تو پھرقربانی کی نوبت آتی ہے اور اس مہم کو سر کیا جاتا ہے ۔ جی ہاں امام حسین (علیہ السلام) نے اپنا خون پیش کرکے اس اہم وظیفہ کو ادا کیا اور اسلام کے جوان سال درخت کی سینچائی کی اور اس کو نابود ہونے سے نجات دلائی ۔
۴۔ معاویہ نے عمروبن عاص، زیاد بن ابیہ، مغیرہ بن شعبہ، سمرة بن جند جیسے افراد کو مصر، بصرہ، اور کوفہ کی حکومت میں شامل کرلیا تھا ، قابل توجہ بات یہ ہے کہ حضرت علی (علیہ السلام) نے ایک نہج البلاغہ کے ایک خط میں اس واقعہ کی پیشین گوئی کی تھی ۔ اس کی زیادہ وضاحت کے لئے کتاب عاشورا، ص ۱۶۳ کے بعد مطالعہ فرمائیں ۔
اباعبداللہ الحسین (علیہ السلام) ، آپ کی اولاد اور اصحاب نے اپنے خون سے اسلام کی کھیتی کی سینچائی بھی کی اوراس کو آفاتوں سے بھی بچایا ۔ اگر امام حسین (علیہ السلام) کا قیام نہ ہو تاتو بنی امیہ اور زمانہ جاہلیت کے بچے ہوئے لوگ ذلیل و رسوا نہ ہوتے تو پھرمعلوم ہے کہ اسلام کس مصیبت میں گرفتار ہوجاتا اور اگر اسلام باقی رہتا تو اس کھیت کی طرح ہوتا جو مشکلات کی وجہ سے زیادہ پھل نہیں دے پاتا ۔
اسلام کی اہم تاریخ میں واقعہ کربلا کے بعدبہت سے قیام برپا ہوئے جیسے توابین کا قیام، مختار کا قیام وغیرہ۔ان تمام قیام اور انقلاب کا ایک ہی نعرہ تھا اور ”الرضا لآل محمد“ (3) تھا ۔ یہاں تک کہ ابومسلم خراسانی نے بھی اسی نعرہ کے ذریعہ حکومت حاصل کی اور اس نے بنی امیہ کی حکومت کو نابود کردیا ، اگر چہ اس نے حکومت کو اس کے اصلی وارثوں کو دینے میں غلطی کی اور اس کو بنی عباس کے حوالہ کردیا ، یا ان کے حوالہ کرنے پر مجبور ہوگیا ۔
اس بناء پر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر امام حسین (علیہ السلام) کے قیام کے مقاصد میں سے ایک مقصد تھا اور آپ اس مقصد تک پہنچنے کے لئے اپنا خون دینے کے بعد کامیاب ہوئے اوراس کے آثار ظاہر ہونے لگے اور وہ جاہلی رسم و رواج متوقف ہوگئے ۔

 


۱۔ مروج الذہب ، ج ۳، ص ۶۷میں مسعودی کے بقول یزید کی کوتاہ مدت حکومت کے دوران اس کا دربار فسادو فحشاء کا اڈا تھا اور اس کے آثار معاشرہ میں بھی پھیل گئے تھے ،یہاں تک کہ مقدس ماحول جیسے مکہ اور مدینہ میں بھی اکثر لوگ لہو و لعب کے آلات استعمال کرنے لگے تھے ۔ (عاشورا ، ص ۲۱۶) ۔
۲۔ التحفة السنیة ، ص ۷۹، اضواء علی الصحیحین ، ص ۲۸۶۔ والانتصار للعاملی، ج۶، ص ۴۸۰۔
3۔ بحارالانوار، ج۵۲، ص ۳۰۲، ح ۴۶ ، صفحات ۱۷۴ ، ۱۷۵، ۱۷۸، ۱۹۹۔
اس مقصد کا پیغامامر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے مراحل
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma