مسجدیں آباد رکھنا ہر کسی کے بس میں نہیں

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 07
معیارِ فضیلتتفسیر

جب مشرکین سے معاہدہ فسخ ہونے کا اور ان سے جہاد کرنے کا حکم ملا تو اس کے بعد بعض لوگوں میں جو ممکنہ باتیں زیرِ بحث آسکتی تھیں ان میں سے ایک سوال یہ بھی ممکن تھا کہ اس عظیم گروہ کو ہم کیوں دھتکار دیں اور انھیں مراسم حج کی ادائیگی کے لئے مسجد الحرام میں قدم رکھنے کی اجازت کیوں نہ دیں حالانکہ ان میں ان کی شرکت ہر لحاظ سے رونق کا سبب ہے، بعض لوگوں کا خیال تھا کہ مسجد الحرام کی عمارت میں رونق کی صورت میں ان کی طرف سے ایک اہم امداد حاصل ہے اور معنوی آبادی کے طور پر بھی ان کی طرف سے ایک کمک حاصل تھی کیونکہ خانہٴ کعبہ کے گرد ان کی جمعیت زیادہ ہے، مندرجہ بالا آیات میں سے ایسے بیہودہ اور بے بنیاد افکار کا جواب دیتی ہیں، پہلی ہی آیت میں تصریح کی گئی ہے: مشرکین یہ حق نہیں رکھتے کہ وہ الله کی مساجد کو اباد کریں جبکہ وہ صراحت سے اپنے کفر کی گواہی دیتے ہیں (مَا کَانَ لِلْمُشْرِکِینَ اٴَنْ یَعْمُرُوا مَسَاجِدَ اللهِ شَاھِدِینَ عَلیٰ اٴَنفُسِھِمْ بِالْکُفْرِ) ۔
ان کا اپنے کفر کی گواہی دینا ان کی باتوں سے بھی آشکار ہے اور ان کے اعمال سے بھی، یہاں تک کہ ان کا طرزِ عبادت اور ان کے مراسمِ حج بھی اس امر پر شاہد ہیں ۔
اس کے بعد اس حکم کی دلیل اور فلسفے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے: ایمان نہ رکھنے کی وجہ سے ان لوگوں کے اعمال نیست ونابود اور برباد ہوجائیں گے اور خدا کی درگاہ میں کوئی قدر وقیمت نہیں رکھتے (اٴُوْلٰئِکَ حَبِطَتْ اٴَعْمَالُھُمْ) ۔
اسی بناپر وہ ہمیشہ کے لئے جہنم کی آگ میں رہیں گے (وَفِی النَّارِ ھُمْ خَالِدُونَ) ۔
ان حالات میں نہ تو مسجد الحرام وغیرہ کی آبادی اور تعمیر کے لئے ان کی کوششیں کوئی قدر وقیمت رکھتی ہیں اور نہ ہی خانہ کعبہ کے اطراف میں ان کا اژدہام کوئی حیثیت رکھتا ہے ۔
خدا پاک اور منزہ ہے اور اس کے گھر کو بھی پاک وپاکیزہ ہونا چاہیے اور غلیظ اور گندے لوگوں کا ہاتھ خانہ خدا اور مسجد سے بالکل دور ہونا چاہیے ۔
اگلی آیت میں اس گفتگو کی تکمیل کے لئے مساجد اور مراکز عبادت کو آباد کرنے والوں کے لئے پانچ اہم شرائط بیان کی گئی ہیں ۔ ارشاد ہوتا ہے: صرف وہ لوگ الله کی مساجد کو آباد کرتے ہیں جو خدا اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں (إِنَّمَا یَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللهِ مَنْ آمَنَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ) ۔ اس میں پہلی اور دوسری شرط کی طرف اشارہ ہے، یہ شرائط اعتقادی اور بنیادی پہلو رکھتی ہیں، جب تک یہ دونوں نہ ہوں انسان سے کوئی بھی پاک، شائستہ اور خالص عمل سرزد نہیں ہوسکتا بلکہ اگر ظاہراً شائستہ ہو بھی تو باطن طرح طرح کی ناپاک اغراض سے آلودہ ہوگا ۔
اس کے بعد تیسری اور چوتھی شرط کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے: (وَاٴَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَی الزَّکَاةَ) یعنی خدا اور روزِ جزا پر اس کا ایمان فقط دعویٰ کی حد تک اور زبانی نہ ہو بلکہ وہ اپنے پاک اعمال کے ذریعے اس کی تاکید کرے، اس کا خدا سے رشتہ بھی مستحکم ہو اور نماز کو صحیح طریقے سے انجام دے، مخلوق خدا سے بھی اس کا تعلق ہو اور زکوٰة ادا کرے ۔
آخر میں آخری شرط کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے: اور خدا کے علاوہ کسی سے نہ ڈرے (وَلَمْ یَخْشَ إِلاَّ اللهَ) ۔
اس کا دل عشقِ خدا سے معمور ہو اور صرف اس کے فرمان کے سامنے احساسِ ذمہ داری رکھتا ہو اور اس کے مقابلے میں کمزور بندوں کو اس سے بہت چھوٹا سمجھتا ہو کہ وہ اس کی سرنوشت، اس کے معاشرے، اس کے مستقبل، اس کی کامیابی، اس کی پیش رفت اور آخر میں اس کے مرکزِ عبادت کی آبادی میں کوئی تاثیر رکھتے ہوں ۔
آخر میں مزید فرمایا گیا ہے: یہ گروہ جو ایسی صفات کا حامل ہے ہوسکتا ہے کہ ہدایت پالے اور اپنے مقصد تک پہنچ جائے اور مساجدِ خدا کی تعمیر اور آبادی کے لئے کوشش کرے اور اس کے عظیم نتائج سے بہرہ ور ہو (فَعَسیٰ اٴُوْلٰئِکَ اٴَنْ یَکُونُوا مِنَ الْمُھْتَدِینَ) ۔

چند اہم نکات

۱۔ مساجد کی آبادی سے کیا مراد ہے؟
کیا مساجد کی آبادی سے مراد ان کی تاسیس وتعمیر ہے یا ان میں اجتماع کرنا اور ان کے اجتماعات میں شرکت مراد ہے؟ اس آیت کو عُمران مساجد کی آیت کہتے ہیں، بعض مفسّرین نے اس کی تفسیر کے سلسلے میں ان دو میں سے صرف ایک کو انتخاب کیا ہے حالانکہ اس لفظ کا وسیع ہے جس میں یہ تمام امور شامل ہیں ۔
مشرکین اور بت پرست نہ تو مساجد میں شرکت کا حق رکھتے ہیں اور نہ ہی ان کی تعمیر کا بلکہ یہ تمام امور مسلمانوں کے ہاتھوں انجام پانا چاہییں ۔
ان آیات سے ضمنی طور پر معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو نہیں چاہیے کہ وہ مساجد کی تعمیر کے لئے مشرکین کی بلکہ غیرمسلموں میں سے کسی کی بھی مدد حاصل کریں کیونکہ پہلی آیت اگرچہ مشرکین کے بارے میں گفتگو کرتی ہے لیکن دوسری آیت کہ جو لفظ ”إِنَّمَا“ سے شروع ہوتی ہے مسجدوں کی تعمیر کو مسلمانوں کے ساتھ مخصوص کردیتی ہے ۔
یہاں سے واضح ہوجاتا ہے کہ مساجد کے متولی اور نگران بھی پاکیزہ ترین افراد میں سے منتخب ہونے چاہییں نہ کہ ناپاک اور بُرے لوگ مال وروت، مقام ومنصب یا معاشرے میں اثر ورسوخ کی وجہ سے منتخب ہوجائیں جیسا کہ متاسفانہ بعض علاقوں میں رائج ہے کہ ایسے لوگ ان مراکزِ عبادت اور اسلامی اجتماعات کے لئے مقرر کئے جاتے ہیں، تمام ناپاک ہاتھوں کو ان تمام مقدس مراکز سے منقطع کیا جانا چاہیے، جس دن سے جابر حکمرانوں، گناہ آلود سرمایہ داروں اور بدکرداروں نے مساجد اور اسلامی مراکز کی تعمیر میں ہاتھ ڈالا ہے اس دن سے ان کی روحانیت اور اصلاحی پروگرام مسخ ہوگئے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ اب کیسی بہت سی مساجد نے مسجدِ ضرار کی صورت اختیار کرلی ہے ۔
۲۔ عمل صالح کا سرچشمہ صرف ایمان ہے:
ہوسکتا ہے بعض لوگ یہ سوچتے ہوں کہ اس میں کیا حرج ہے کہ غیرمسلموں کے سرمائے سے ان مراکز کی تعمیر اور آبادی کے لئے فائدہ اٹھالیا جائے لیکن جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ اس بنیادی نکتے کی طرف توجہ نہیں کرتے کہ اسلام ہر مقام پر عمل صالح کو شجر ایمان کا ثمر شمار کرتا ہے، عمل ہمیشہ انسان کی نیت اور عقیدے کا سایہ ہے اور وہ ہمیشہ اس شکل وصورت اور رنگ وڈھنگ کو اپناتا ہے، ناپاک نیتوں سے ممکن نہیں کہ پاک عمل وجود میں آئے اور اس کا نتیجہ اور ثمر مفید صورت میں نکلے کیونکہ عمل نیت کی بازگشت ہے ۔
۳۔ بہادر محافظ:
وَلَمْ یَخْشَ إِلاَّ اللهَ“ (خدا کے علاوہ کسی سے نہیں ڈرتا) یہ جملہ نشاندہی کرتا ہے کہ مساجد کی تعمیر، آبادی اور نگہداری شجاعت وبہادری کے بغیر ممکن نہیں ہے، یہ مقدس اسلامی مراکز انسان سازی کے مراکز اور تربیت کی اعلیٰ درسگاہوں میں اسی صورت میں تبدیل ہوں گے جب ان کے بانی اور محافظ اور شجاع ہوں گے کہ جو خدا کے علاوہ کسی سے نہ ڈرتے ہوں، کسی مقام ومرتبہ اور قوت سے متاثر نہ نہیں ہوں گے کہ جو ان میں خدائی پروگراموں کے علاوہ کوئی کام نہیں ہونے دیں گے ۔
۴۔ کیا اس سے صرف مسجد الحرام مراد ہے؟
بعض مفسّرین نے مندرجہ آیات کو مسجدالحرام سے مخصوص قرار دیا ہے جبکہ آیت کے الفاظ عام ہیں اور ایسی تشخیص کے لئے کوئی دلیل موجود نہیں ہے اگرچہ مسجد الحرام جو کہ عظیم ترین اسلامی مسجد ہے اس کا مصداقِ اوّل ہے اور جب یہ آیت نازل ہوئی تھی زیادہ تر یہی مسجد محلِ نظر تھی لیکن یہ بات تخصیصِ آیات کی دلیل نہیں بن سکتی ۔
۵۔ تعمیر مساجد کی اہمیت
مسجد بنانے کی اہمیت کے بارے میں اہلِ بیتِ رسول علیہم السلام سے اور اہل سنّت کے طرق سے بہت سی احادیث وارد ہوئی ہیں، ان سے تعمیر مسجد کی بے حد اہمیت ظاہر ہوتی ہے، پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا:
مَن بَنیٰ مَسْجِداً وَلَو کَمَفْحَصِ قطَاة بَنَی اللهُ لَہُ بَیْتاً فِی الْجَنَّةِ“
جو شخص کوئی مسجد بنائے اگرچہ پرندے کے گھونسلے کے برابر ہو تو خدا جنت میں اس کے لئے ایک گھر بنائے گا ۔(۱)
ایک اور حدیث میں پیغمبر اکرم صلی الله علیہ والہ وسلم سے منقول ہے:
من اٴسرج فی مسجد سراجاً لم تزل الملائکة وحملة العرش یستغفرون لہ مادام فی ذلک المسجد ضوئہ
جو شخص مسجد میں چراغ روشن کرے جب تک اس چراغ کی روشنی رہے گی فرشتے اور حاملینِ عرشِ الٰہی اس کے لئے استغفار اور دعائے خیر کرتے رہیں گے ۔(2)
لیکن آج کے زمانے میں جس چیز کی زیادہ ضرورت ہے وہ مساجد کی معنوی آبادی اور تعمیر ہے، دوسرے لفظوں میں جتنی ہم مسجد کو اہمیت دیتے ہیں اس سے زیادہ اہلِ مسجد، نگران مسجد اور محافظین مسجد کو اہمیت دینا چاہیے، ہر طرف سے اسلامی تحریک مسجد سے اٹھنا چاہیے، مسجد کو تہذیب نفس اور لوگوں کی آکاہی وبیداری کے لئے استعمال ہونا چاہیے، ماحول کو پاکیزہ بنانے اور ورثہٴ اسلامی کے دفاع کے لئے مسلمانوں کو آمادہ کرنے کا مرکز مسجد کو ہونا چاہیے ۔
خصوصیت سے اس طرف توجہ کرنا چاہیے کہ مسجد صاحبِ ایمان نوجوانوں کے لئے مرکز بنے نہ یہ کہ صرف آگے بیٹھنے والوں اور بیکار لوگوں کا مرکز بنی رہے، مسجد معاشرے کے فعال ترین طبقوں کا مرکز ہونا چاہیے نہ کہ ناکارہ اور خوابیدہ افراد کا مرکز۔

 

۱۹ اٴَجَعَلْتُمْ سِقَایَةَ الْحَاجِّ وَعِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ کَمَنْ آمَنَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَجَاھَدَ فِی سَبِیلِ اللهِ لَایَسْتَوُونَ عِنْدَ اللهِ وَاللهُ لَایَھْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِینَ
۲۰ الَّذِینَ آمَنُوا وَھَاجَرُوا وَجَاھَدُوا فِی سَبِیلِ اللهِ بِاٴَمْوَالِھِمْ وَاٴَنفُسِھِمْ اٴَعْظَمُ دَرَجَةً عِنْدَ اللهِ وَاٴُوْلٰئِکَ ھُمَ الْفَائِزُونَ
۲۱ یُبَشِّرُھُمْ رَبُّھُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْہُ وَرِضْوَانٍ وَجَنَّاتٍ لَھُمْ فِیھَا نَعِیمٌ مُقِیمٌ
۲۲ خَالِدِینَ فِیھَا اٴَبَدًا إِنَّ اللهَ عِنْدَہُ اٴَجْرٌ عَظِیمٌ
ترجمہ
۱۹۔ کیا حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجد الحرام کو آباد کرنے کا عمل اس شخص (کے عمل) کی طرح قرار پاسکتا ہے جو خدا اور روزِ جزا پر ایمان لایا ہے اور اس نے اُس کی راہ میں جہاد کیا ہے، (یہ دونوں) خدا کے ہاں ہرگز برابر نہیں ہیں اور خدا ظالموں کو ہرگز ہدایت نہیں کرتا ۔
۲۰۔ وہ جو ایمان لائے اور انھوں نے ہجرت کی اور اپنے مال وجان سے راہِ خدا میں جہاد کیا، خدا کے ہاں ان کا مقام ومنزلت بلند ہے اور وہ عظیم نعمت پر فائز ہیں ۔
۲۱۔ پروردگار انھیں اپنی طرف سے رحمت، خوشنودی اور ایسے باغات بہشت کی بشارت دیتا ہے جن میں ہمیشہ رہنے والی نعمتیں ہیں ۔
۲۲۔ وہ ہمیشہ ان باغوں میں (اور ان نعمتوں میں گھرے) رہیں گے کیونکہ خدا کے ہاں عظیم اجر وثواب ہے ۔

شان نزول

مندرجہ بالا آیات کے شان نزول کے بارے میں شیعہ اور سُنی کتب میں مختلف روایات نقل ہوئی ہیں، ان میں سے جو زیادہ صحیح نظر آتی ہے اسے ذیل میں درج کیا جاتا ہے ۔
اہل سنّت کے مشہور عالم حاکم ابوالقاسم حسکانی نقل کرتے ہیں کہ شیبہ اور عباس میں سے ہر ایک دوسرے پر افتخار کررہے تھے اس سلسلے میں ایک دوسرے کے ساتھ باتیں کررہے تھے کہ حضرت علی علیہ السلام ان کے پاس سے گزرے اور کہا کہ کس چیز پر فخرومباہات کررہے ہو، عباس نے کہا مجھے ایسا امتیاز حاصل ہے کہ جو کسی کے پاس نہیں اور وہ ہے خانہٴ خدا کے حاجیوں کو پانی پلانا ۔
شیبہ نے کہا کہ میں مسجد الحرام کو تعمیر کرنے والا ہوں اور (خانہ کعبہ کا کلید دار ہوں) ۔
حضرت علی(ع) نے کہا: مجھ شرم آتی ہے کہ میں کم سن ہونے کے باوجود تم ایسا افتخار اور امتیاز رکھتا ہوں کہ جو تم نہیں رکھتے ۔
انھوں نے پوچھا: وہ کونسا افتخار اور امتیاز ہے؟
آپ(ع) نے فرمایا: میںنے تلوار سے جہاد کیا یہاں تک کہ تم خدا اور رسول پر ایمان لے آئے ۔
عباس غصّے میں آکر کھڑے ہوگئے اور دامن کو کھینچتے ہوئے رسول الله کی تلاش میں نکلے، (آپ ملے تو آپ سے شکایت کے طور پر) کہنے لگے: کیا آپ دیکھتے نہیں کہ علی مجھ سے اس قسم کی بات کرتا ہے ۔
رسول الله نے فرمایا: علی کو بلاوٴ۔
جب حضرت علی علیہ السلام بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے تو آنحضرت نے فرمایا: تم نے اپنے چچا (عباس) سے کوئی ایسی بات کیوں کی ہے ۔
حضرت علی(ع) نے عرض کیا: یا رسول الله! اگر مجھ سے انھیں تکلیف پہنچی ہے تو میں نے تو ایک حقیقت بیان کی تھی، کوئی حق بات پر ناراض ہوتا ہو تو اور کوئی خوش ہوتا ہو تو ہو۔
اس موقع پر جبرئیل نازل ہوئے اور کہا: یا محمد! آپ کے پروردگار نے آپ پر سلام بھیجا ہے اور کہا ہے کہ یہ آیات ان کے سامنے پڑھیے <اٴَجَعَلْتُمْ سِقَایَةَ الْحَاجِّ وَ---- (کیا حاجیوں کو سیراب کرنا اور مسجد الحرام کی آبادی خدا اور روزِ جزا پر ایمان لانے اور راہِ خدا میں جہاد کرنے کی مانند قرار دیتے ہو یہ ہرگز ایک دوسرے کے مساوی نہیں ہیں ۔(3)
یہی روایت مضمون کے تھوڑے اختلاف کے ساتھ اہل سنّت کی بہت سی کتب میں منقول ہے، مثلاً تفسیر طبری، ثعلبی، اصحابِ النزول واحدی، تفسیر بغدادی ، معالم التنزیل علامہ بغوی، مناقب ابن مغازلی، جامع الاصول ابن اثیر، تفسیر فخر رازی اور دیگر کتب۔(4)
بہرحال مندرجہ بالا حدیث مشہور ومعروف احادیث میں سے ہے یہاں تک کہ متعصب افراد نے بھی اس کا اعتراف کیا ہے، ہم ان آیات کی تفسیر مکمل کرکے دوبارہ اس کے بارے میں گفتگو کریںگے ۔

 


۱۔ یہ حدیث کتاب وسائل کے باب ۸ میں ہے جوکہ احکامِ مساجد کے ابواب میں سے ہے اور اسی طرح المنار جلد۱۰، ص۲۱۳ پر ابن عباس سے منقول ہے ۔
2۔ کتاب کنز العرفان، ج۱، ص۱۰۸، بحوالہ کتاب محاسن، ص۵۷-
3۔ تفسیر مجمع البیان، زیر بحث آیات کے ذیل میں-
4۔ حدیث کی مزید وضاحت کے لئے اور اس کے مدارک کے مشخصات کے بارے میں احقاق الحق جلد۳، ص۱۲۲تا۱۲۷ کی طرف رجوع فرمائیں ۔
معیارِ فضیلتتفسیر
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma