شدّت عمل اور سختی ساتھ ساتھ

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 07
حد سے بڑھ جانے والے پیمانجن کا معاہدہ قابلِ احترام ہے

یہاں مشرکین کے لئے دی گئی چار ماہ کی مہلت ختم ہونے کے بعد مسلمانوں کی ذمہ داری بیان کی گئی ہے اور مشرکین کے بارے میں سخت ترین حکم صادر ہوا ہے ارشاد ہوتا ہے: جب حرام مہینے ختم ہوجائیں تومشرکین کو جہاں پاوٴ قتل کردو (فَإِذَا انسَلَخَ الْاٴَشْھُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِکِینَ حَیْثُ وَجَدْتُمُوھُمْ) ۔(۱)
اس کے بعد حکم دیا گیا ہے: ”انھیں قتل کردو“ (وَخُذُوھُمْ) ”اور ان کا محاصذرہ کرلو“ (وَاحْصُرُوھُمْ) ۔ ”اور ہر جگہ ان کی کمین میں بیٹھ جاوٴ اور ان کے راستے مسدود کردو“ (وَاقْعُدُوا لَھُمْ کُلَّ مَرْصَدٍ) ۔(۲)
یہاں ان کے بارے میں چار سخت احکام نظر آتے ہیں:
۱۔ ان کے راستے مسدود کردو۔
۲۔ ان کا محاصرہ کرلو۔
۳۔ انھیں قید کرلو اور۔
۴۔ انھیں قتل کردو۔
ظاہراً معلوم ہوتا ہے کہ چاروں امور ایک حکم تخییری صورت میں نہیں ہیں بلکہ گرد وپیش، زمان ومکان اور لوگوں کے حالات واوضاع دیکھ کر فیصلہ کیا جانا چاہیے اور ان امور میں سے جو مناسب سمجھا جائے اس پر عمل کیا جانا چاہیے اور اگر قتل کرنے کے علاوہ کوئی اور چارہ کار نہ ہو تو انھیں قتل کرنا جائز ہے ۔
یہ شدید طرزِ عمل اس بناپر ہے کہ اسلام کا منصوبہ یہ ہے کہ روئے زمین پر بت پرستی کی جڑ اکھاڑ پھینکی جائے اور جیسا کہ ہم پہلے بھی اشارہ کرچکے ہیں کہ آزادی مذہب کا معاملہ یعنی دوسرے مذہب کے پیروکاروں کو اسلام قبول کرنے پر مجبور نہ کرنا آسمانی ادیان اور اہلِ کتاب یعنی یہود ونصاریٰ وغیرہ پر منحصر ہے اور اس میں شامل نہیں ہے کیونکہ بت پرستی کوئی دین و مذہب نہیں کہ جس کا احترام کیا جائے بلکہ یہ تو پستی، بیہودگی، کجروی اور بیماری ہے جسے ہر حالت میں اور ہر قیمت پر جڑ سے نکال پھینکنا چاہیے ۔
لیکن یہ شدّت وسختی اس معنی میں نہیں کہ ان کے لئے لوٹ آنے کا راستہ ہی بند کردیا جائے بلکہ وہ جس حالت میں اور جس وقت چاہیں اپنی جہت اور نظریہ بدل سکتے ہیں لہٰذا فوراً ہی مزید حکم دیا گیا ہے: اگر وہ توبہ کریں، حق کی طرف پلٹ آئیں، نماز قائم کریں اور زکوٰة ادا کریں تو انھیں چھوڑ دو اور ان سے مزاحمت نہ کرو (فَإِنْ تَابُوا وَاٴَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوْا الزَّکَاةَ فَخَلُّوا سَبِیلَھُمْ) ۔ اور اس صورت میں پھر وہ باقی مسلمانوں سے بالکل مختلف نہیں ہیں اور تمام احکام و حقوق میں ان کے ساتھ شریک ہیں کیونکہ ”خدا بخشنے والا اور مہربان ہے“ اور جو کوئی اس کی طرف پلٹ آئے وہ اسے اپنے رحمت سے نہیں دھتکارتا

(إِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَحِیمٌ) ۔
ایک اور حکم کے ذریعے اگلی آیت میں اس موضوع کی تکمیل کی گئی ہے تاکہ اس میں کوئی شک وشبہ باقی نہ رہ جائے کہ اس حکم سے اسلام کا ہدف توحید اور حق وعدالت کے دین کو عام کرنا ہے نہ کہ استعمار اور استثمار اور دوسروں کے اموال اور زمینوں پر قبضہ کرنا لہٰذا فرمایا گیا ہے: اگر کوئی بت پرست تم سے پناہ طلب کرے تو اسے پناہ دو تاکہ وہ خدا کی بات سنے (وَإِنْ اٴَحَدٌ مِنَ الْمُشْرِکِینَ اسْتَجَارَکَ فَاٴَجِرْہُ حَتَّی یَسْمَعَ کَلَامَ اللهِ) یعنی ان سے انتہائی نرمی کا سلوک کرو اور اسے سوچ بچار کا موقع دو تاکہ وہ آزادنہ طور پر تمھاری دعوت کے مختلف پہلووٴں کا مطالعہ کرے اب اگر اس کے دل میں نورِ ہدایت چمکا تو اسے قبول کرلے گا، مزید فرمایا گیا ہے: ”مدتِ مطالعہ ختم ہونے پر اسے اس کی جائے امان تک پہنچادو“ تاکہ اثنائے راہ میں کوئی اس سے معترض نہ ہو

(ثُمَّ اٴَبْلِغْہُ مَاٴْمَنَہُ) ۔
آخر میں اس اصلاحی حکم کی علت یوں بیان کی گئی ہے: یہ اس لئے کہ وہ بے خبر اور لاعلم گروہ ہے (ذٰلِکَ بِاٴَنَّھُمْ قَوْمٌ لَایَعْلَمُونَ) ۔
اس بنا پر اگر علم وآگہی کے حصول کے دروازے ان پر کھل جائیں تو یہ امید ہوسکتی ہے کہ وہ بت پرستی سے جو کہ جہالت ونادانی کی پیداوار ہے نکل آئیں اور خدا اور توحید کی راہ پر گامزن ہوجائیں جو کہ علم ودانش کا تقاضا ہے ۔
شیعہ وسنی کتب میں نقول ہے:
جب بت پرستوں کے معاہدے منسوخ ہونے کا اعلان ہوگیا تو ایک بت پرست نے حضرت علی علیہ السلام سے کہا: اے فرزندِ ابوطالب! اگر یہ چار مہینے گزرجانے کے بعد ہم میں سے کوئی شخص پیغمبر سے ملاقات کرنا چاہے اور ان کے سامنے کچھ مسائل پیش کرے یا خدا کا کلام سُنے تو کیا وہ امان میں ہے؟
حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: ہاں کیونکہ خدا فرماتا ہے:
<وَإِنْ اٴَحَدٌ مِنَ الْمُشْرِکِینَ اسْتَجَارَکَ فَاٴَجِرْہُ----(3)
اس طرح سے پہلی آیت سے جو بہت زیادہ سخت معلوم ہوتی ہے دوسری آیت کے نرمی کے ساتھ مل کر ایک اعتدال کی صورت پیش کرتی ہے تربیت کا طریقہ یہی ہے کہ ہمیشہ سختی اور نرمی کو باہم ملایا جاتا ہے تاکہ اس سے ایک شفا بخش معجون تیار کی جائے ۔

چند اہم نکات

۱۔ ”اشھر حرم“ سے یہاں کیا مراد ہے؟
اگرچہ بعض مفسّرین نے یہاں پر بہت کچھ کہا ہے لیکن گذشتہ آیات کو مدنظر رکھتے ہوئے ظاہری مفہوم یہ نکلتا ہے کہ یہ وہی مہلت کے چار مہینے ہیں جو مشرکین کے لئے مقرر کئے گئے ہیں جن کی ابتداء دس ذی الحجہ ۹ھ سے ہوتی ہے اور انتہا ۱۰/ ربیع الثانی ۱۰ھ کو ہوتی ہے ، بہت سے محققین نے اسی تفسیر کو اپنایا ہے اور زیادہ اہمیت کی بات اس ضمن میں یہ ہے کہ کئی ایک روایات میں بھی اس کی تصریح ہوئی ہے ۔(4)
۲۔ کیا نماز اور زکوٰة قبولیتِ اسلام کی شرط ہے؟
مندرجہ بالا ٰآات سے پہلی نظر میں یہ معلوم ہوتا ہے کہ بت پرستوں کی توبہ کی قبولیت کے لئے نماز اور زکوٰة ادا کرنا بھی ضروری ہے، اسی بناپر اہلِ سنت کے بعض فقہاء نے نماز اور زکوٰة ترک کرنے کو کفر کی دلیل سمجھا ہے ۔
لیکن یہ حق ہے کہ ان دو عظیم اسلامی احکام کے ذکر کا مقصد یہ ہے کہ وہ تمام مواقع جہاں اسلام کا دعویٰ مشکوک نظر آئے جیسے اُس زمانے میں بت پرستوں کے معاملے میں عام طور پر ایسا ہی تھا، وہاں ان دو عظیم فرائض کی انجام دہی کو ان کے اسلام کی نشانی سمجھا جائے ۔
یا ہوسکتا ہے کہ مراد ہو کہ نماز اور زکوٰة کو دو خدائی قوانین کے طور پر قبول کریں اور ان کے سامنے سرجھکائیں اور انھیں باقاعدہ تسلیم کریں اگرچہ عملی طور پر وہ کوتاہی کرتے ہوں، یہ مفہوم اس لئے سمجھا گیا ہے کیونکہ ہمارے پاس بہت سے دلائل موجود ہیں کہ انسان صرف نماز اور زکوٰة ترک کرنے سے کفار کی صف میں شمار نہیں کیا جاسکتا اگرچہ اس کا اسلام بہت ہی ناقص ہوتا ہے ۔
البتہ اگر زکوٰة اسلامی حکومت کے خلاف قیام کے طور پر ہو تو وہ سببِ کفر ہے لیکن یہ ایک الگ بحث ہے جو ہمارے زیرِ بحث موضوع سے مربوط نہیں ہے ۔
۳۔ ایمان علم کا ثمر ہے
مندرجہ بالا آیات سے یہ نکتہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بے ایمانی کا اہم عامل جہالت ہے اور ایمان کا بنیادی سرچشمہ علم وآگہی ہے لہٰذا لوگوں کی ہدایت کے لئے ضروری ہے کہ انھیں مطالعہ اور غورو فکر کے کافی وسائل مہیا کئے جائیں تاکہ وہ راہ حق کو سمجھ سکیں نہ یہ کہ اندھا دھند اور کورانہ تقلید میں اسلام قبول کریں ۔

 

۷ کَیْفَ یَکُونُ لِلْمُشْرِکِینَ عَھْدٌ عِنْدَ اللهِ وَعِنْدَ رَسُولِہِ إِلاَّ الَّذِینَ عَاھَدْتُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ فَمَا اسْتَقَامُوا لَکُمْ فَاسْتَقِیمُوا لَھُمْ إِنَّ اللهَ یُحِبُّ الْمُتَّقِینَ
۸ کَیْفَ وَإِنْ یَظْھَرُوا عَلَیْکُمْ لَایَرْقُبُوا فِیکُمْ إِلًّا وَلَاذِمَّةً یُرْضُونَکُمْ بِاٴَفْوَاہِھِمْ وَتَاٴْبیٰ قُلُوبُھُمْ وَاٴَکْثَرُھُمْ فَاسِقُونَ
۹ اشْتَرَوْا بِآیَاتِ اللهِ ثَمَنًا قَلِیلًا فَصَدُّوا عَنْ سَبِیلِہِ إِنَّھُمْ سَاءَ مَا کَانُوا یَعْمَلُونَ
۱۰ لَایَرْقُبُونَ فِی مُؤْمِنٍ إِلًّا وَلَاذِمَّةً وَاٴُوْلٰئِکَ ھُمَ الْمُعْتَدُونَ
ترجمہ
۷۔ مشرکین کے لئے اور اس کے رسول کے ہاں کس طرح عہدو پیمان ہوگا (جبکہ وہ بارہا اپنا معاہدہ توڑنے کے لئے تیار ہوگئے ہیں) مگر وہ کہ جن کے ساتھ تم نے مسجد الحرام کے پاس معاہدہ کیا ہے (یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے اپنے معاہدے کو محترم سمجھا ہے) جب تک وہ تمھارے ساتھ وفادار ہیں تم بھی وفاداری کرو کیونکہ خدا پرہیزگاروں کو دوست رکھتا ہے ۔
۸۔ کس طرح (ان کے معاہدے کی کوئی قدر وقیمت ہو) حالانکہ اگر وہ تم پر غالب آجائیں تو نہ تم سے رشتہ داری کا لحاظ کرتے ہیں اور نہ عہد وپیمان کا، اپنی زبان سے تو تمھیں خوش رکھتے ہیں لیکن ان کے دل انکار کرتے ہیں اور ان میں سے اکثر نادان ہیں ۔
۹۔ انھوں نے خدا کی آیات کو تھوڑی سی قیمت پر بیچ ڈالا اور (لوگوں کو) اس کی راہ سے منحرف کردیا، وہ بُرے اعمال بجالاتے تھے ۔
۱۰۔ (نہ صرف تمھارے بارے میں بلکہ) ہر با ایمان شخص کے بارے میں وہ رشتہ داری اور عہد وپیمان کا لحاظ نہیں رکھتے اور وہ تجاوز کرنے والے ہیں ۔

 


۱۔ ”انسلخ“ مادہ ”انسلاخ“ سے باہر جانے کے معنی میں ہے اور اس کی اصل ”سلخ الشاة“ یعنی ”اس نے بکری کا چمڑا اتارا ہے“۔
۲۔ ”مرصد“ ”رصد“ کے مادہ سے راہ یا کمین گاہ کے معنی میں ہے ۔
3۔ تفسیر برہان، ج۲، ص۱۰۶، اور تفسیر فخر الدین رازی، ج۵، ص۲۲۶-
4۔ تفسیر نور الثقلین، ج۲، زیرِ بحث آیت کے ذیل میں اس ضمن میں چند احادیث نکل گئی ہیں ۔
 
حد سے بڑھ جانے والے پیمانجن کا معاہدہ قابلِ احترام ہے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma