توضیح اور تحقیق

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 07
مشرکین کے معاہدے لغو ہوجاتے ہیں۶۔ ایک حقیقت جسے چھپانے کی کوشش ہوتی ہے:

یہ حدیث حضرت علی علیہ السلام کی ایک عظیم فضیلت ثابت کرتی ہے، لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس قسم کی دوسری احادیث کی طرح یہ بھی سردمہری کا شگار ہوگئی ہے، بعض لوگوں کی کوشش ہے کہ اس کی قیمت بالکل گرادیں یا اس کی اہمیت کم کردیں، اس کے لئے انھوں نے اِدھر اُدھر بہت ہاتھ پاوٴں مارے ہیں، مثلاً:
۱۔ کبھی موٴلف المنار کی طرح احادیث میں صرف وہ حصّہ بیان کی گیا ہے جس میں مراسمِ حج پر حضرت ابوبکر کی نظارت سے گفتگو ہے لیکن حضرت ابوبکر سے سورہٴ برائت لینے کے بارے میں اور وہ گفتگو جو رسول الله نے حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں کی ہے سے متعلق خاموشی اختیار کی ہے حالانکہ ان احادیث میں سے اگر بعض اس بارے میں خاموش ہیں تو یہ بات اس امر کی دلیل نہیں بنتی کہ جو احادیث اس سلسلے میں بحث کرتی ہیں ان سب کو نظر انداز کردیا جائے، تحقیقی روش کا تقاضا ہے کہ وہ تمام احادیث پر توجہ دیں چاہے وہ ان کے میلان اور پہلے سے کئے گئے فیصلے کے برخلاف کیوں نہ ہوں ۔
۲۔ کبھی کچھ حضرات ان میں سے بعض احادیث کی سند کو ضعیف قرار دیتے ہیں مثلاً وہ حدیث جو سماک اور حنش تک جا پہنچی ہے (اس سلسلے میں بھی مفسّر مذکور کا نام بطور مثال پیش کیا جاسکتا ہے) حالانکہ اس حدیث کے ایک یاد دہی کے طریق سے سند تو نہیں اور اس کے راوی سماک اور حنش پر ہی منحصر نہیں بلکہ یہ حدیث متعدد طرقف سے ان کی معتبر کتب میں آئی ہے ۔
۳۔ کبھی بعض لوگ متنِ حدیث کے بارے میں تعجب انگیز توجیہیں کرتے ہیں مثلاً کہتے ہیں اگر رسول الله نے سورہ کی تبلیغ کا حکم حضرت علی(ع) کو دیا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ عربوں یہ رسم تھی کہ معاہدے کو لغو قرار دینے کا اعلان خود متعلقہ شخص کرے یا اس کے خاندان کاکوئی فرد۔
حالانکہ اوّل تو متعدد طرقِ حدیث میں تصریح ہوئی ہے کہ رسول الله نے فرمایا کہ جبرئیل میرے لئے یہ حکم لے کر آیا ہے کہ یا مجھے یہ حکم دیا گیا ہے ۔
دوسری بات یہ ہے کہ اس حدیث کے بعض طرق میں جو سطور بالا میں ذکر ہوئے ہیں ہم پڑھتے ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا:
اگر تم یہ کام نہ کرو تو پھر مجھے خود یہ کام کرنا پڑے گا ۔
تو کیا پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے چچا آپ کے رشتہ داروں میں سے کوئی اور مسلمانوں میں موجود نہیں تھا کہ اگر علی(ع) نہ جاتے تو پھر خود پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم ہی یہ اقدام کرتے ۔
تیسری بات یہ ہے کہ خود اس امر کے لئے کہ یہ عربوں کی رسم تھی کہ انھوں نے کسی قسم کا کوئی مدرک، حوالہ یا دلیل پیش نہیں کی ۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مذکورہ حدیث میں توجیہ کے لئے اپنے میلان کے مطابق تخمینے قائم کئے ہیں ۔
چوتھی بات یہ ہے کہ اس حدیث کے بعض معتبر طرق میں ہے:
”لایذھببھا الّا رجل منّی واٴنا منہ“
اسے کوئی نہیں لے جاسکتا مگر میں یا جو مرد مجھ سے ہو۔
یہ اور اس جیسے اور جملے جو متنِ روایات میں موجود ہیں نشاندہی کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم ، حضرت علی علیہ السلام کو اپنی طرح اور اپنے آپ کو ان کی طرح جانتے تھے (جیسا کہ آیہٴ مباہلہ میں آیا ہے)
جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اگر تعصبات اور پہلے سے کئے گئے فیصلے اور ذہنوں میں بٹھائے گئے عقائد ایک طرف کردیئے جائیں تو رسول الله نے اس مقام سے تمام صحابہ پر علی(ع) کی فضیلت وبرتری کو مشخص ومعیّن کیا ہے ”وانّ ھٰذا الّا بلاغ“۔
 
۱ بَرَائَةٌ مِنْ اللهِ وَرَسُولِہِ إِلَی الَّذِینَ عَاھَدتُّمْ مِنَ الْمُشْرِکِینَ
۲ فَسِیحُوا فِی الْاٴَرْضِ اٴَرْبَعَةَ اٴَشْھُرٍ وَاعْلَمُوا اٴَنَّکُمْ غَیْرُ مُعْجِزِی اللهِ وَاٴَنَّ اللهَ مُخْزِی الْکَافِرِینَ
ترجمہ
۱۔ خدا اور اس کے رسول کا یہ اعلانِ بیزاری ان مشرکین کے لئے ہے جن سے تم نے معاہدہ کیا تھا ۔
۲۔ اس کے باوجود چار ماہ (تک تمھیں مہلت ہے کہ) زمین میں (آزادانہ) چلو پھرو (اور جہاں چاہو جاوٴ اور جو چاہو سوچ بچار کرو) اور جان لو کہ تم خدا کو عاجز وناتواں نہیں کرسکتے (اور اس کی قدرت سے فرار نہیں کرسکتے اور یہ بھی جان لو کہ) خدا کافروں کو ذلیل وخوار کرنے والا ہے ۔

 

مشرکین کے معاہدے لغو ہوجاتے ہیں۶۔ ایک حقیقت جسے چھپانے کی کوشش ہوتی ہے:
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma