وہی ذات ہے جس کا دائرہ فضل و کرم بہت وسیع ہے

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 04
ایک سخت تنگ موڑ پر پہنچا دیا ۔ غیروں پہ تکیہ

منافقین کے بارے میں بحث کے بعد مرتدین کے سلسلے میں گفتگو ہے کہ قرآن کی پیشین گوئی کے مطابق اس دین سے خارج ہو جائیں گے لیکن خدا ، اس کے دین نیز مسلمانوں اور اسلامی معاشرے کی تیز رفتار پیش رفت کو کچھ نقصان نہیں پہنچا سکیں گے ۔ کیونکہ خدا آئندہ اس دین کی حمایت کے لئے ایک اور گروہ کو مبعوث کرے گا (یااٴَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا مَنْ یَرْتَدَّ مِنْکُمْ عَنْ دِینِہِ فَسَوْفَ یَاٴْتِی اللهُ بِقَوْمٍ ) ۔
اس کے بعد ان لوگوں کی جو یہ عظیم کار رسالت انجام دیں گے ، یہ صفات بیان فرمائی گئی ہیں :
پہلی ) یہ کہ وہ خدا کے عاشق ہوں گے اور اس کی خشنودی کے سوا انھیں کوئی فکر دامن گیر نہ ہوگی” خدا انھیں پسند کرتا ہے اور وہ خدا سے محبت کرتے ہیں “(یُحِبُّہُمْ وَیُحِبُّونَہُ) ۔
دوسری ۔ اور تیسری) صفت ان لوگوں کی یہ ہے کہ وہ مومنین کے لئے منکسر المزاج اور مہر بان ہیں جبکہ دشمنوں اور ستم گروں کے مقابلے میں مضبوط ، سخت اور طاقت ور ہیں ( اٴَذِلَّةٍ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ اٴَعِزَّةٍ عَلَی الْکَافِرِینَ ) ۔
چوتھی ) صفت ان کی یہ ہے کہ راہِ خدا میں جہاد کرنا ان کے مسلسل پروگرام میں شامل ہے (یُجَاہِدُونَ فِی سَبِیلِ اللهِ) ۔
پانچویں) خصوصیت ان کی یہ ہے کہ وہ فرمانِ الہٰی کی انجام دفاع ِ حق کی راہ میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈرتے( وَلاَیَخَافُونَ لَوْمَةَ لاَئِمٍ ) ۔
در حقیقت وہ جسمانی طاقت کے علاوہ ایسا عزم رکھتے ہیں کہ غلط رسومات کو توڑنے اور انحراف کرنے والی اکثریت کو خاطر میں نہیں لاتے کثرت کے زعم میں دوسروں کا مذاق اڑانے والوں کی پرواہ نہیں کرتے۔
ہم ایسے بہت سے افراد کو جانتے ہیں کہ جو ممتاز صفات کے حامل ہیں لیکن معاشرے کی خلاف ، عوام کے افکار و نظر یات اور منحرف اکثریت کے سامنے بہت محتاط ہو جاتے ہیں اور ان کے سامنے بزدلی اور کم ہمتی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور ان کے مقابلے میں بہت جلد میدان سے ہٹ جاتے ہیں حالانکہ ایک مصلح اور رہبر اور اس کے افکار کی تبلیغ وترویج کے لئے میدان میں اترنے والوں کے لئے ہر چیز سے پہلے شہامت و جراٴت کی ضرورت ہے ۔ عوام او رماحول سے ڈرجانے سے اصلاح نہیں ہو سکتی اور ان سے خوفزدہ ہو نا بلند روحانی امتیاز کے منافی ہے ۔
آخرمیں فرمایا گیا ہے : ان امتیازات و خصوصیات کا حصول( انسانی کوشش کے علاوہ ) خدا کے فضل وکرم کامرہونِ منت ہے وہ جسے چاہتا ہے اور اہل پاتا ہے عطا کرتا ہے ( ذَلِکَ فَضْلُ اللهِ یُؤْتِیہِ مَنْ یَشَاءُ) ۔
وہی ذات ہے جس کا دائرہ فضل و کرم بہت وسیع ہے اور جو اس کی لیاقت او راہلیت رکھتے ہیں ، ان سے آگاہ ہے ( وَاللهُ وَاسِعٌ عَلِیمٌ ) ۔
اس سلسلے میں کہ مندرجہ بالاآیت کن یاورانِ اسلام کی طرف اشارہ کررہی ہے اور خدا تعالیٰ یہاں کن افراد کی خصوصیات بیان فرمارہا ہے روایات ِ اسلامی اور اقوال مفسرین میں اس سلسلے میں بڑی بحث کی گئی ہے ۔ تاہم شیعہ سنی طرق سے وارد ہونے والی بہت سی روایات میں ہے کہ آیت حضرت علی (علیه السلام) کے بارے میں فتح خیبر پر یا ناکثین ، قاصطین اور مارقین سے ان کی جنگ کے سلسلے میں نازل ہوئی ہے ۔ ۱
اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ لشکر اسلام کے بعض کمانڈر جب خیبر کو فتح نہ کر سکے تو اس کے بعد ایک رات پیغمبر اسلام نے مرکز فوج میں ان کی طرف رخ کرکے فرمایا:
لاعطین الرایة غداً رجلا ً، یحب اللہ ورسولہ ویحبہ اللہ ورسولہ ، کراراً،غیر فرار، لایرجع حتی یفتح اللہ علی یدہ۔
بخداکل عَلم ایسے مرد کو دوں گا جو خدا اور رسول سے محبت رکھتا ہے اور خدا اور رسول بھی اس سے محبت رکھتے ہیں وہ بڑھ بڑھ کر دشمنوں پر حملہ کرنے والا ہے اور کبھی پشت نہیں دکھاتا اور وہ اس میدان سے اس وقت تک پلٹ کر نہیں آئے گا، جب تک خدا اس کے ہاتھ سے مسلمانوں کو فتح نصیب نہیں کردےتا ۔2
ایک اور روایت میں ہے کہ جب پیغمبر اکرم نے لوگوںنے اس بارے میں سوال کیا تو آپ نے سلمان کے کندھے پر ہاتھ مار کر فرمایا:
اس سے یہ ، اس کے یار و انصار اور ہم وطن لوگ مراد ہیں ۔
اس طرح آپنے اہل ایران کے اسلام لانے اور اسلام کی پیش رفت کے لئے ان کی ثمر بخش کاوشوں اور جستجو کی پیش گوئی فرمائی ہے ۔ اس کے بعد آپ نے مزید فرمایا:
لوکان الذین معلقاً بالثریا لتنا ولہ رجال من ابناء الفارس“
اگر دین ثریا پر جا ٹھہرتا اور آسمانوں میں جاپہنچتا تو بھی فارس کے لوگ اسے دستیاب کرلیتے۔ 3
لیکن ابن عبد البر نے استیعاب جلد ۲ص ۵۷۷ میں یہ عبارت نقل کی ہے :” لو کان الدین عند الثریا لنا لہ سلیمان
ایک اور روایت میں ” دین “ کی جگہ ” علم “ کا لفظ استعمال ہوا ہے ۔
بعض اور روایات میں ہے کہ آیت حضرت مہدی علیہ السلام کے یارو انصار کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو اپنی پوری طاقت سے ان لوگوں کے مقابلے میں قیام کریں گے جو دین حق و عدالت سے مرتد ہو جائیں گے اور وہ دنیا کو ایمان و عدل سے معمور کردیں گے ۔
اس میں شک نہیں کہ یہ روایات جو اس آیت کی تفسیر کے بارے میں مروی ہیں باہم کوئی تضاد نہیں رکھتیں کیونکہ یہ قرآن کی سیرت کے مطابق ایک کلی اور جامع مفہوم بیان کرتی ہے اور اس کے اہم مصادیق میں حضرت علی علیہ السلام ، سلمان فارسی اور وہ لوگ شامل ہیں جو اس پرگرام کے مطابق چلیں گے چاہے روایات میں ان کا ذکر نہ بھی ہو۔
لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس آیت کے بارے میں بھی قومی تعصبات کے باعث جو لوگ اہلیت نہیں رکھتے تھے اور آیت میں مذکورہ صفات میں سے کوئی بھی ان میں نہ تھی انھیں بھی آیت کا مصداق ٹھہرا یا گیا اور انھیں بھی شانِ نزول کا عنوان بنا لیا گیا یہاں تک کہ ابو موسیٰ اشعری کو بھی آیت کے مصادیق میں شمار کرلیا گیا جس نے اپنی بے مثال تاریخی حماقت سے اسلام کو ہلاکت کے گڑھے تک پہنچا دیا اور علمدارِ اسلام حضرت علیہ السلام کو 4

 

 

 

 


 
۱۔ یاد رہے کہ ناکثین جنگ جمل کی آگ بھڑکانے والوں کو ، قاسطین معاویہ کی فوج کو ، اور مارقین خوارج کو کہا جاتا ہے ۔
2۔ تفسیر برہان اور نور الثقلین میں آئمہ اہلبیت علیہم السلام سے اس بارے میں کئی ایک روایات نقل کی گئی ہیں ۔ اہل سنت کے علماء میں سے ثعلبی نے ان روایات کو نقل کیا ہے (کتاب احقاق الحق ج۳ ، ص ۲۰۰ کی طرف رجوع فرمائیں ) ۔
3۔ مجمع البیان جلد ۳ ص ۲۰۸، نور الثقلین جلد ۱ ص ۶۴۲۔ ابو نعیم اصفہانی نے حلیة المتقین جلد ۶ ص ۶۴ میں حدیث کی یہ عبارت نقل کی ہے :
”لوکان العلم منوطاًً بالثریا لتنا ولہ رجال من ابناء الفارس“
4۔ تفسیر طبری جلد ششم صفحہ ۱۸۴۔ لیکن بعض روایات میں صرف ابو موسیٰ کی قوم کا نام آیا ہے جوکہ اہل یمن کی طرف اشارہ ہے ۔ جنہوں نے نہایت حساس موقع پر اسلام کی مدد کی اور ابو موسیٰ اس میں شامل نہیں ہے جبکہ حضرت سلمان کے بارے میں جو روایات ہیں ان کے مطابقوہ خود اور ان کی قوم اس آیت کی مصداق ہیں ۔

 

ایک سخت تنگ موڑ پر پہنچا دیا ۔ غیروں پہ تکیہ
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma