ظلم پر پَردہ پوشی

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 04
انسانی رشتہ چند اہم نکات

ان آیات میں حضرت آدم (علیه السلام) کے بیٹوں کا واقعہ ، ایک بھائی کا دوسرے کے ہاتھوں قتل اور قتل کے بعد کے حالات بیان کئےگئے ہیں ، پہلے فرمایا سر کش نفس نے بھائی کے قتل کے لئے اسے پختہ کردیا اور اس نے اسے قتل کردیا ( فَطَوَّعَتْ لَہُ نَفْسُہُ قَتْلَ اٴَخِیہِ فَقَتَلَہُ) ۔
”طوع“ کا معنی ہے کسی چیز کا رام اور مطیع ہونا ۔ اس جملے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہابیل کا عمل قبول ہونے کے بعد قابیل کے دل میں ایک طوفان پیدا ہو گیا ایک طرف دل میں ہر وقت حسد سے ذاتی تنفر اسے جرم سے باز رکھنے کی کوشش کرتا ۔ لیکن آخر کار سر کش نفس آہستہ آہستہ روکنے والے عوامل پر غالب آگیا اور اس نے اس کے بیدا ر وجدان کو رام کرلیا اور اسے جکڑ دیا اور بھائی کو قتل کرنے پر آمادہ کرلیا“ طوعت“ ایک چھوٹا سا لفظ ہے لیکن اس کے سارے مفہوم کی طرف بھر پور اشارہ کرتا ہے کیونکہ ہم جانتے ہیں کسی کو ایک ہی لمحے میں رام نہیں کیا جاسکتا بلکہ ایسا تدریجی طور پر کئی طرح کی کشمکش کے بعد عمل میں آتا ہے ۔
اس کے بعد فرمایا گیا ہے : اس کام کے نتیجے میں وہ زیان کاروں میں سے ہو گیا (فَاٴَصْبَحَ مِنْ الْخَاسِرِینَ ) ۔
اس سے بڑھ کراور کیا خسارہ ہو گا کہ اس نے وجدان کا عذاب ، خدا کی طرف سے سزا اور قیامت تک کے لئے اپنے نام پر ننگ و عار خرید لی ۔
” اصبح “ سے بعض نے یہ استفادہ کیا ہے کہ یہ قتل رات کے وقت ہوا حالانکہ یہ لفظ لغت ِ عرب میں رات یا دن کے لئے مخصوص نہیں ہے بلکہ کسی چیز کے واقع ہونے پر دلالت کرتا ہے ، مثلاً سورہٴ آلِ عمران آیہ ۱۰۳ میں ہے :” فاصبحتم بنعمتہ اخواناً
نعمت خدا کی وجہ سے تم میںسے ایک دوسرے کے بھائی بن گئے ۔
امام صادق علیہ السلام سے منقول بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ قابیل نے جب اپنے بھائی کو قتل کردیا تو اس کی لاش اس نے صحرا میں ڈال رکھی تھی اور اسے نہیں معلوم تھا کہ اسے کیا کرنا چاہیئے زیادہ دیر نہ گذری کہ درندے ہابیل کے جسم کی طرف آنے لگے ۔ قابیل ضمیر کے شدید دباوٴ کا شکار تھا بھائی کے جسم کو بچانے کے لئے وہ لاش کو ایک مدت تک کندھے پر لئے بھرتا رہا، کچھ پرندوں نے پھربھی اسے گھیر رکھا تھا اور وہ اس انتظار میں تھے کہ وہ کب اسے زمین پر پھینکتا ہے تاکہ وہ لاش پر جھپٹ پڑیں۔ ۱
جیسا کہ قرآن مجید کہتا ہے کہ اس موقع پر خدا تعالیٰ نے ایک کوّا بھیجا ۔ مقصد یہ تھا کہ وہ زمین کھودے اور اس میں دورے مردہ کوّء کا جسم چھپادے یا اپنے کھانے کی چیزوں کو زمین میں چھپا دے جیسا کہ کوّے کی عادت ہے تاکہ قابیل سمجھ سکے کہ وہ اپنے بھائی کی لاش کس طرح سپرد خاک کرے
( فَبَعَثَ اللهُ غُرَابًا یَبْحَثُ فِی الْاٴَرْضِ لِیُرِیَہُ کَیْفَ یُوَارِی سَوْاٴَةَ اٴَخِیہِ) ۔ ۲
البتہ اس بات میں کوئی تعجب نہیں کہ انسان کوئی چیز کسی پرندے سے سیکھے کیونکہ تاریخ اور تجربہ شاہد ہیں کہ بہت سے جانور طبعی طور پر معلومات رکھتے ہیں کہ انسان نے اپنی پوری تاریخ میں جانوروں سے بہت کچھ سیکھا ہے یہاں تک کہ میڈیل کی بعض کتب میں ہے کہ انسان اپنی بعض طبّی معلومات میں حیوانات کا مرہونن منت ہے ۔
اس کے بعد قرآن مجید مزید کہتا ہے : اس وقت قابیل اپنی غفلت اور جہالت سے پریشان ہو گیا اور چیخ اٹھا کہ وائے ہو مجھ پر ، کیا میں اس کوّے سے بھی زیادہ ناتواں اور عاجز ہوں ، مجھ سے اتنا بھی نہ ہو سکا کہ میں اس کی طرح اپنے بھائی کا جسم دفن کروں ( قَالَ یَاوَیْلَتَا اٴَعَجَزْتُ اٴَنْ اٴَکُونَ مِثْلَ ہَذَا الْغُرَابِ فَاٴُوَارِیَ سَوْاٴَةَ اٴَخِی)بہر حال وہ اپنے کئے پر نادم و پشمان ہو اجیسا کہ قرآن کہتا ہے : ( فَاٴَصْبَحَ مِنْ النَّادِمِینَ) ۔
کیا اس کی پشمانی اس بناپر تھی کہ اس کا گھٹیا اور برا عمل آخر کار اس کے ماں باپ پر احتمالی طور پر دوسرے بھائی تھے ان پر آشکار ہو جائے گا اور وہ اسے بہت سر زنش کریں گے یا کیا یہ پشمانی ا س بنا پر تھی کہ کیوں میں ایک مدت تک بھائی کی لاش کندھے پر لیے پھر تا رہا اور اسے دفن نہ کیا اور یا پھر یہ ندامت اس وجہ سے تھی کہ اصول طور پر انسان ہر برا کام انجام دے لینے کے بعد اپنے دل میں ہر طرح کی پریشانی اورندامت محسوس کرتا ہے لیکن واضح ہے کہ اس کی ندامت کی جو بھی وجہ ہو وہ اس کے گناہ سے توبہ کی دلیل نہیں ہے کیونکہ توبہ یہ ہے کہ ندامت خوف خدا کے باعث اور عمل کے برا ہونے کے احساس کی بنا پر ہو اور یہ احساس اسے اس بات پر آمادہ کرے کہ وہ آیندہ ہر گز ایسا کام نہیں کرے گا ۔ قرآن میں قابیل کی ایسی کسی توبہ کی نشاندہی نہیں کی گئی ۔ بلکہ شاید اگلی آیت میں ایسی توبہ کے نہ ہونے کی طرف اشارہ ہے ۔
پیغمبر اسلام سے ایک حدیث منقول ہے ، آپ نے فرمایا:
لاتقتل نفس ظلماً الا کان علی ابن آدم الاولیٰ کفل من دمھا لانہ کان اول من سن القتل “۔3
جس کسی انسان کا بھی خون بہا یا جاتا ہے اس کی جوابدہی کا ایک حصہ قابیل کے ذمہ ہوتا ہے کہ جس نے انسان کشی کی اس بری سنت کی دنیا میں بنیاد رکھی تھی ۔
اس حدیث سے ضمنا ً یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ ہر بری اور منحوس سنت جو دنیا میں باقی ہے اس کی سزا کا ایک حصہ اس شخص کے کندھے پر ہے جو اس کی بنیاد رکھتا ہے ۔
اس میں شک نہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹوں کا یہ واقعہ ایک حقیقی واقعہ ہے اس کے علاوہ کہ آیات قرآن اور اسلامی روایات کا ظاہری مفہوم اس کی واقعیت کو ثابت کرتا ہے کہ اس کے ” بالحق“ کی تعبیر بھی جو ان آیات میں آئی ہے اس بات پر شاہد ہے جو لوگ ان آیات میں بیان کئے گئے واقعہ کو تشبیہ، کنایہ یا علامتی(symbolic)داستان سمجھتے ہیں ، بغیر دلیل کے ایسا کرتے ہیں ۔
اس کے باوجود اس بات میں کوئی مضائقہ نہیں کہ یہ حقیقی واقعی اس جنگ کے لئے نمونہ کے طور پر بیان کیا گیا ہو جو ہمیشہ سے مردانِ پاکباز ، صالح و مقبولِ بار گاہِ خدا انسانوں اور آلودہ، منحرف، کینہ پرور، حاسد ا ور ناجائز ہٹ دھرمی کرنے والوں کے درمیان جاری رہی ہے ۔ وہ لوگ کتنے پاکیزہ اور عظیم ہیں جنہوں نے ایسے برے لوگوں کے ہاتھوں جامِ شہادت نوش کیا ۔
آخر کار یہ برے لوگ اپنے شرمناک اور برے اعمال کے انجام سے آگاہ ہو جاتے ہیں اور ان پر پر دہ ڈالنے اور انھیں دفن کرنے کے در پے ہو جاتے ہیں اس موقع پر ان کی آرزوئیں ان کی مدد کو لپکتی ہیں ۔ کوّا ان آرزوٴں کا مظہر ہے جو جلدی سے پہنتا ہے اور انھیں ان کے جرائم پر پر دہ پوشی کی دعوت دیتا ہے ۔ لیکن آخرکار خسارے، نقصان اور حسرت کے سوال کچھ نصیب نہیں ہوتا ۔

 

۳۲۔ مِنْ اٴَجْلِ ذَلِکَ کَتَبْنَا عَلَی بَنِی إِسْرَائِیلَ اٴَنَّہُ مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَیْرِ نَفْسٍ اٴَوْ فَسَادٍ فِی الْاٴَرْضِ فَکَاٴَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیعًا وَمَنْ اٴَحْیَاہَا فَکَاٴَنَّمَا اٴَحْیَا النَّاسَ جَمِیعًا وَلَقَدْ جَائَتْہُمْ رُسُلُنَا بِالْبَیِّنَاتِ ثُمَّ إِنَّ کَثِیرًا مِنْہُمْ بَعْدَ ذَلِکَ فِی الْاٴَرْضِ لَمُسْرِفُونَ۔
ترجمہ
۲۳۔ اس بنا پر ہم نے بنی اسرائیل کے لئے یہ قرار دیا کہ جو شخص کسی انسان کو بغیر اس کے کہ وہ ارتکاب قتل کرے اور روئے زمین پر فساد بھیلائے ، قتل کرد ے تو یہ اس طرح ہے گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کردیا اور جوکسی ایک انسان کو قتل سے بچا لے تو گویا اس نے تمام انسانوں کو زندگی بخشی ہے اور ہمارے رسول واضح دلائل کے ساتھ بنی اسرائیل کی طرف آئے پھر بھی ان میں سے بہت سے لوگوں نے روئے زمین پر ظلم اور تجاوز کیا ۔

 

 


 
۱ ۔ مجمع البیان، زیر بحث آیت کے ذیل میں ۔
۲” یبحث“ ” بحث“کے مادہ سے ہے جیسا کہ مجمع البیان میں ہے در اصل یہ لفظ مٹی میں سے کسی چیز کو تلاش کرنے کے معنی میں ہے بعد ازں یہ لفظ ہر طرح کی جستجو حتیٰ کہ عقلی و فکری مباحث کے لئے بھی استعمال ہونے لگا اور ” سواٴة“ ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو انسان کو پسند نہ آئے اس لئے کبھی شرمگاہ تک کے لئے بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے ضمناً توجہ رہے کہ ” لیریة“ کا فاعل ممکن ہے خدا ہو، یعنی خدا چاہتا تھا کہ ہابیل کا احترام ملحوظ رہے اور اس کے لئے قابیل کو اسے دفن کرنے کا طریقہ سکھائے اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس کا فاعل وہی کوّا ہو جس نے حکم خدا سے یہ کام انجام دیا ۔
3 تفسیر فی ظلال جلد ۲ صفحہ ۷۰۳۔ زیربحث آیت کے ذیل میں ، بحوالہ مسند احمد حنبل۔
انسانی رشتہ چند اہم نکات
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma