روئے زمین پر پہلا قتل

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 04
چند اہم نکات بنی اسرائیل اور سر زمین ِ مقدس

ان آیات میں حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹوں کا ذکر ہے ان میں سے ایک کے ہاتھوں دوسرے کے قتل کے بارے میں داستان بیان کی گئی ہے ۔ ان آیات کا گذشتہ آیات سے شاید یہ ربط ہو کہ بنی اسرائیل کے بہت سے غلط اعمال کا سبب حسد تھا ان آیات کے ذریعے خدا تعالیٰ انھیں متوجہ کر رہا ہے کہ حسد کا انجام کتنا ناگوار ہولناک ہوتا ہے یہاں تک کہ اس کہ وجہ سے ایک بھائی اپنے بھائی کے خون سے بھی ہاتھ رنگین کرلیتا ہے پہلے فرمایا: اے پیغمبر! انھیں آدم کے بیٹوں کا حقیقی قصہ سنا دیجئے (وَاتْلُ عَلَیْہِمْ نَبَاٴَ ابْنَیْ آدَمَ بِالْحَقِّ ) ۔
” بالحق“ ممکن ہے اس طرف اشارہ ہو کہ مذکورہ سر گذشت عہد قدیم ( تورات) میں بڑی خرافات کی آمیزش کے ساتھ بیان کیا گئی ہے لیکن قرآن میں اس حقیقت و واقعیت کو بیان کیا گیا ہے ۔
اس میں شک نہیں کہ یہاں ” آدم “ سے مراد ہی مشہور آدم ہیں جو موجودہ نسل انسانی کے پہلے باپ ہیں اور یہ جو بعض نے احتمال ظاہر کیا ہے کہ اس سے مراد آدم بنی اسرائیل میں سے ایک فرد تھا، بالکل بے بنیاد ہے کیونکہ یہ لفظ قرآن مجید میں بار ہا اس معنی میں استعمال ہوا ہے کہ اور اگر یہاں کو ئی معنی مراد ہوتا تو ضروری تھا کہ ا س کے لئے کوئی قرینہ ہوتا باقی رہی آیت” من اجل ذٰلک“ کہ جس کی تفسیر عنقریب آئے گی جیسا کہ ہم وضاحت کریں گی ہر گز اس معنی کے لئے قرینہ قرار نہیں پا سکتی ۔
اس کے بعد واقعہ بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے : جب ہر ایک نے تقربِ پر وردگار کے لئے ایک کام انجام دیا تو ایک کا عمل تو قبول کرلیا گیا لیکن دوسرے کا قبول نہ ہوا

(إِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ اٴَحَدِہِمَا وَلَمْ یُتَقَبَّلْ مِنْ الْآخَرِ) ۔
اسی وجہ سے جس کا عمل قبول نہ ہوا تھا اس نے دوسرے بھائی کا قتل کی دھمکی دی اور قسم کھا کر کہا کہ میں تجھے قتل کر دوں گا( قَالَ لَاٴَقْتُلَنَّک ) ۔
لیکن دوسرے بھائی نے اسے نصیحت کی اور کہا کہ اگر یہ واقعہ پیش آیا تو اس میں میرا کوئی گناہ نہیں ہے بلکہ اعتراض تو تجھ پر ہونا چاہئیے کیونکہ تیرے عمل میں تقویٰ شامل نہیں تھا اور خدا تو صرف پر ہیز گاروں کا عمل قبول کرتا ہے ( قَالَ إِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللهُ مِنْ الْمُتَّقِینَ) ۔مزید کہا کہ حتی اگر تم اپنی دھمکی کو عملی جامہ پہناوٴ اور میرے قتل کے لئے ہاتھ بڑھاوٴتو میںہر گز ایسا نہیں کروں گا اور تمہارے قتل کے لئے ہاتھ نہیں بڑھاوٴں گا ۔
( لَئِنْ بَسَطتَ إِلَیَّ یَدَکَ لِتَقْتُلَنِی مَا اٴَنَا بِبَاسِطٍ یَدِی إِلَیْکَ لِاٴَقْتُلَکَ ) ۔
کیونکہ میں تو خدا سے ڈرتا ہوں اور ایسے گناہ سے ہر گز اپنے ہاتھ آلودہ نہیں کروں گا ۔
(إِنِّی اٴَخَافُ اللهَ رَبَّ الْعَالَمِینَ ) ۔
علاوہ ازیں میں نہیں چاہتا کہ دوسرے کے گناہ کا بوجھ اپنے گردن پر لادلوں بلکہ میں تو چاہتا ہوں کہ تم ہی میرے اپنے گناہ کا بار اپنے کندھے پر اٹھا لو

 ( کیونکہ اگر واقعاً تم اپنے اس دھمکی کو عملی جامہ پہناوٴ تو میرے گذشتہ گناہوں کا بوجھ بھی تمہارے کندھوں پر آپڑے گا، اس کی وجہ یہ ہے کہ تم مجھ سے حقِ حیات چھینو گے توتوان بھی تمہی کو دینا ہو گا اور چونکہ تمہارے پاس کوئی عمل صالح نہیں ہے لہٰذا میرے گناہ تمہیں اپنے کندھوں پر اٹھا نا ہوں گے ۔
(إِنِّی اٴُرِیدُ اٴَنْ تَبُوءَ ۱ بِإِثْمِی وَإِثْمِکَ) ۔
اور مسلم ہے کہ یہ بوجھ اٹھا کر تم جہنمیوں میں سے ہو جاوٴ گے اور ستمگروں کی یہی سزا ہے ( فَتَکُونَ مِنْ اٴَصْحَابِ النَّارِ وَذَلِکَ جَزَاءُ الظَّالِمِینَ) ۔

 


۱” تبوء“ مادہ ” بواء“ سے ہے اور اس کا معنی ہے ” باز گشت“
 
چند اہم نکات بنی اسرائیل اور سر زمین ِ مقدس
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma