دائمی دشمن

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 04
چند اہم نکاتیہودیوں کی تحریف

گذشتہ آیت میں بنی اسرائیل کی عہد شکنی سے متعلق گفتگو تھی اب اس آیت میں نصاریٰ کی پیمان شکنی کا تذکرہ ہے ۔ ار شاد فرمایا گیا ہے : دعوائے نصرانیت کرنے والوں کی ایک جماعت جس سے ہم نے عہد و فا لیا تھا پیمان شکنی کی مرتکب ہوئی
انھیں جو احکام دئے گئے تھے ان کا ایک حصہ انھوں نے فراموش کردیا ( وَمِنْ الَّذِینَ قَالُوا إِنَّا نَصَارَی اٴَخَذْنَا مِیثَاقَہُمْ فَنَسُوا حَظًّا مِمَّا ذُکِّرُوا بِہِ) ۔
ہاں انھوں نے بھی خد اسے پیمان باندھا تھا کہ وہ حقیقت توحید سے منحرف نہیں ہوں گے اور احکام الہٰی کو فراموش نہیں کریں گے اور آخری پیغمبر کی نشانیاں نہیں چھپائیں گے لیکن انھوں نے بھی یہودیوں کا سا طرز عمل اختیار کرلیا ۔ فرق یہ ہے کہ قرآن یہودیوں کے بارے میں کہتا ہے کہ ان کی قلیل تعداد پاک اور حق شناس تھی لیکن نصاریٰ کے بارے میں کہتا ہے کہ ان میں سے ایک گروہ منحرف ہوگیا اس سے واضح ہوتا ہے کہ عیسائیوں کی نسبت یہودیوں کی نسبت میں سے منحرف ہونے والے زیادہ تھے۔
موجودہ اناجیل کی تاریخ کہتی ہے کہ یہ ساری انجیلیں حضرت مسیح (علیه السلام) کے کئی سال بعد بعض عیسائیوں نے لکھی تھیں یہی وجہ ہے کہ ان میں واضح تناقضات موجود ہیں ۔ یہ چیز اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ وہ انجیل کی آیات کا ایک اہم حصہ بھول چکے تھے موجودہ اناجیل میں واضح طور پر خرافات موجود ہیں مثلاً حضرت مسیح (علیه السلام) کی شراب خوری ۱
کا ذکر ہے جو کہ عقل کے بھی خلاف ہے اور خود موجودہ تورات و انجیل کی بعض آیات کے بھی خلاف ہے ۔ اسی طرح مریم مجدلیہ کا قصہ بھی ہے ۔ ۲
ضمناً توجہ رہے کہ ” نصاریٰ“ ”نصرانی“کی جمع ہے ، عیسائیوں کو اس نام سے کیوں موسوم کیا گیا ہے اس سلسلے میں مختلف احتمالات پیش کئے جاتے ہیں :
پہلا یہ کہ حضرت عیسیٰ (علیه السلام) نے بچپن ناصرہ شہر میں گزارا ۔
دوسرا یہ کہ لفظ نصران سے لیا گیا ہو ۔ یہ ایک بستی کا نام ہے جس سے نصاریٰ خاص لگاوٴ رکھتے تھے ۔
تیسرا ی ہکہ جب حضرت مسیح (علیه السلام) نے لوگوں میں سے یاروانصار طلب کیے تو انھوں نے آپ کی دعوت قبول کرلی جیسا کہ قرآن میں ہے:
کماقال عیسیٰ ابن مریم للحواریین من انصاری الیٰ اللہ قال الحواریون نحن انصار اللہ۔
جیسا کہ عیسیٰ بن مریم نے حواریوں سے کہا کہ کون اللہ کے لئے میری نصرت کرنے والا ہوگا، تو حواریوں نے کہا کہ ہم انصار ِ خدا ہیں ۔ (صف۱۴)
چونکہ ان سے بعض ایسے بھی تھے جو اپنے کہنے کے مطابق عمل نہ کرتے تھے اور صرف دعویٰ کی حد تک حضرت عیسیٰ (علیه السلام) کے یارو انصار تھے لہٰذا قرآن زیر بحث آیت میں کہتا ہے ومن الذین قالوا انا نصاریٰ (ان لوگوں میں سے جو موجود کہتے تھے کہ ہم عیسیٰ کے مدد گار ہیں لیکن وہ اس دعویٰ میں سچے نہ تھے) ۔
اس کے بعد قرآن عیسائیوں کے اعمال کے بارے میں کہتا ہے کہ ان کے اعمال کے نتیجے میں ہم قیامت تک کے لئے ان میں دشمنی ڈال دی

 ( فَاٴَغْرَیْنَا بَیْنَہُمْ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَةِ ) ۔
ان کے لئے دوسری سزا کہ جس کی طرف آیت کے آخری حصے میں اشارہ کیا گیا ہے یہ ہے کہ : عنقریب خدا انھیں ان کے اعمال کے نتائج کی خبر دے گا اور وہ عملی طور پر اسے اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے ( وَسَوْفَ یُنَبِّئُہُمْ اللهُ بِمَا کَانُوا یَصْنَعُونَ ) ۔

 


۱۔انجیل یو حنا، باب ۲، جملہ ۲ تا ۱۲۔
۲۔ انجیل لوقا، باب ۷، جملہ ۳۶ تا ۴۷۔

 

چند اہم نکاتیہودیوں کی تحریف
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma