حلال شکار

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 04
اہل کتاب کا کھانا کھانا اور ان میں شادی بیاہ کرناایک اہم سوال اور اس کا جواب

گذشتہ دو آیات میں حرام و حلال گوشت کے بارے میں احکام بیان ہوچکے ہیں یہاں ان میں سے کچھ مزید احکام تذکرہ ہے اس سلسلے میں ایک سوال کے جواب میں فرمایا گیا ہے: تم سے کھانے والی چیزوں کے بارے میں سوال کرتے ہیں (بسئلوئک ماذا احل لہم)پھر پیغمبر اکرم سے فرمایا گیاہے: پہلے تو ان سے کہو کہ ہر پاکیزہ چیز تمھارے لیے حلال ہے(قُلْ اٴُحِلَّ لَکُمُ الطَّیِّبات) یعنی اسلام نے جو کچھ حرام قرار دیا ہے وہ ناپاک ہے اور جنائث کے زمرے میں آتاہے اور قوانین الٰہی کسی ایسی چیز کو کبھی حرام قرار نہیں دیتے جو پاکیزہ ہو اور فطری طور پر نوع بشر کے فائدے اور نفع کے لیے پیدا کی گئی ہو لہٰذا حقیقی شریعت قوانین تکوین سے ہمیشہ ہم آہنگ ہوتی ہے۔
پھر شکار کے بارے میں فرمایا گیاہے : تمہارے سدھا ئے ہوئے یعنی جنھیں تم نے وہ کچھ سکھا یا ہے جس کی خدا نے تعلیم دی ہے ان شکاری جانوروں کا شکار تمھارے لیے حلال ہے ( وَ ما عَلَّمْتُمْ مِنَ الْجَوارِحِ مُکَلِّبینَ تُعَلِّمُونَہُنَّ مِمَّا عَلَّمَکُمُ اللَّہُ ) ۔1
”جوارح“ اصل میں ”جرح“ سے لیا گیا ہے جو کبھی ”کسب“ اور ”کام“ کے معنی میں آتاہے اور کبھی ”زخم“ کے معنی میں ۔ اسی لیے شکاری جانوروں کو چاہے وہ پرندے ہوں یا کوئی اور جانور”جارحہ“ کہتے ہیں ”جارحہ“ کی جمع”جوارح“ ہے۔ یعنی وہ جانور جو اپنے شکار کو زخم لگاتے ہیں یا وہ جانور جو اپنے مالک کے لیے کسب کرتے ہیں۔
بدن کے اعضا کو بھی جوارح اسی لیے کہاجاتاہے کہ انسان ان کے ذریعے کسی کام کو انجام دیتاہے اور اکتساب کرتاہے۔
اس لیے”وَ ما عَلَّمْتُمْ مِنَ الْجَوارِح“ ان تمام جانوروں کے لیے ہے جنھیں شکار کرنے کی تربیّت دی جاتی ہے۔لیکن ساتھ ”مکلبین“ بھے ہے جو ”کلب“ کے مادہ سے ہے جس کا معنی ہے”کتّا“۔ ”مکلبین“ شکاری کتوں کی تربیّت کرنے والوں کو کہتے ہےں۔ اس طرح یہ تعبیر جملے کو شکاری کتّوں سے مخصوص کردیتی ہے۔ اس لیے یہ آیت شکاری کُتّوں کے علاوہ باز و غیرہ سے کیے گئے شکار کے بارے میں نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ شیعہ فقہ میں صرف شکاری کتوں کے علاوہ باز وغیرہ سے کئے گئے شکار کے بارے میں نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ شیعہ فقہ میں صرف شکاری کتوں سے کیا جانیوالا شکار جائز ہے، اگر اہل سنت کے بعض مفسرین سب کو جائز سمجھتے ہیں اور ” مکلبین “ کا مفہوم وسیع قرار دیتے ہیں کہ جو کتوں سے شکار کرنے والوں کے لئے مخصوص نہیں ۔ لیکن جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں ، اس لفظ کا اصلی مادہ اسے شکاری کتوں کی تر بیت سے مخصوص کردیتا ہے ۔ البتہ اگر دوسرے شکاری جانور کو بے بس کردیں لیکن اسے مرنے سے پہلے آدابِ شرعی کے مطابق ذبح کرلیا جائے تو وہ حلال ہے ۔
تعلّمونہن مما علّمکم اللہ۔ میں چند نکات
۱۔ ایسے جانوروں کی تعلیم و تربیّت اور مسلسل ہو، اگر وہ اپنی تعلیم بُھول جائیں اور آوارہ کتوں کی طرح کسی جانور کو چیر پھاڑ دیں تو اس شکار کا گوشت حلال نہیں ہوگا کیونکہ”تعلمونھن“ فعل مضارع ہے اور مضارع استمرار پر دلالت کرتاہے۔
۲۔ کتے کی تعلیم و تربیت صحیح اصولوں کے مطابق ہونا چاہیے یہ بات ”مما علمکم اللہ“ کے مفہوم ہے مطابقت رکھتی ہے۔
۳۔ تمام علوم کا سرچشمہ خدا ہے چاہے وہ عالم اور چھوٹے چھوٹے امور کا علم ہو یا اہم ایسکی تعلیم کے بغیر ہم کوئی علم نہیں رکھتے۔
ضمنی طور پر یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ شکاری کتوں کی تعلیم سے مراد یہ ہے کہ ان کی تربیّت اس طرح سے ہونی چاہیے کہ وہ مالکوں کے حکم سے چل پُریں اور ان کے روکنے سے رُک جائیں۔
اس نکتے کا ذکر بھی ضروری ہے کہ جس جانور کو کُتے شکار کرتے ہیں اگر وہ زندہ ہاتھ آجائے تو اسے آداب اسلامی کے مطابق ذبح کیا جانا چاہیے، لیکن شکاری کے پہنچنے سے پہلے اس کی جان نکل جائے تو وہ حلال ہے اگرچہ اسے ذبح نہیں بھی کیا گیا ۔
اس کے بعد ایسے شکار کی حیلت کی شرائط میں سے دو کا ذکر کیا گیاہے: اس شکار کو جسے شکاری کُتے تمھارے لیے روکے رکھیں، کھالو (فَکُلُوا مِمَّا اٴَمْسَکْنَ عَلَیْکُمْ)اس سے ظاہر ہوتاہے کہ اگر شکاری کُتے اس بات کے عادی ہوں کہ اپنے شکار کا کچھ حصّہ کھا لیتے ہیں اور کچھ چھوڑ دیتے ہوں تو ایسا شکار حلال نہیں ہے اور وہ ”و ما اکل السبع“ کے زُمرے میں داخل ہوجاتاہے جس کا گذشتہ آیت میں ذکر ہے۔ حقیقت میں ایسا کُتا نہ تو تعلیم یافتہ ہے اور نہ اس سے جو کچھ بچا رکھا ہے وہ ”علیکم“ (تمہارے لیے) کا مصداق ہے۔
بعض فقہا اس شرط کے قائل نہیں ہیں وہ اس سلسلے میں چند روایات سے استناد کرتے ہیں جو کُتب احادیث میں موجود ہیں بہر حال اس پر تفصیلی بحث فقہی کُتب میں موجود ہے۔
خلاصہ یہ کہ ان کی ایسے تربیّت ہونا چاہیے کہ وہ اپنا شکار کھائیں نہیں۔
دوسری شرط یہ ہے کہ جب شکاری کُتے کو چھوڑا جائے تو خدا کا نام لیا جائے ( وَ اذْکُرُوا اسْمَ اللَّہِ عَلَیْہِ )
آخر میں ان تمام احکام کا احترام کرنے کے لیے فرمایا گیا ہے: خدا سے ڈرو کیونکہ وہ سریع الحساب ہے (وَ اتَّقُوا اللَّہَ إِنَّ اللَّہَ سَریعُ الْحِساب) ۔2
 

۵۔الْیَوْمَ اٴُحِلَّ لَکُمُ الطَّیِّباتُ وَ طَعامُ الَّذینَ اٴُوتُوا الْکِتابَ حِلٌّ لَکُمْ وَ طَعامُکُمْ حِلٌّ لَہُمْ وَ الْمُحْصَناتُ مِنَ الْمُؤْمِناتِ وَ الْمُحْصَناتُ مِنَ الَّذینَ اٴُوتُوا الْکِتابَ مِنْ قَبْلِکُمْ إِذا آتَیْتُمُوہُنَّ اٴُجُورَہُنَّ مُحْصِنینَ غَیْرَ مُسافِحینَ وَ لا مُتَّخِذی اٴَخْدانٍ وَ مَنْ یَکْفُرْ بِالْإیمانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُہُ وَ ہُوَ فِی الْآخِرَةِ مِنَ الْخاسِرینَ (۵)
ترجمہ
۵۔ آج کے دن پاکیزہ چیزیں تمھارے لیے حلال ہوگئی ہیں اور (اسی طرح) اہلِ کتاب کا کھانا تمھارے لیے حلال ہے ہیں جبکہ ان کا حق مہر ادا کر دو اور پاک دامن رہو نیز پوشیدہ طور پر اور غیر شرعی طریقے سے یاری نہ لگاؤ ، اور جو شخص اس چیز سے کفر اختیار کرے کہ جس پر ایمان لانا چاہیے، اس کے اعمال باطل اور بے اثر ہوجاتے ہی اور آخرت میں وہ زیان کاروں میں سے ہوگا ۔

 

 

 

 

 


 

 

 

 

 

1- اس جملے کے ابتدائ میں حذف و تقدیر موجود ہے”فکلوا مما مسکن علیکم“ سے معلوم ہوتاہے کہ اصل میں ”وصید ما علمتم“ہے (غور کیجیئے گا) ۔
2 -سریع الحساب (جلدی حساب لینے والا) کی تشریح تفسیر نمونہ جلد دوم صفحہ ۴۵ (اُردو ترجمہ) پر گذر چکی ہے۔

 

اہل کتاب کا کھانا کھانا اور ان میں شادی بیاہ کرناایک اہم سوال اور اس کا جواب
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma