سچے مومنوں کی نشانیاں

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 08
کافروں اور منافقوں سے جنگ منافقوں کی نشانیاں

گذشتہ آیتوں میں منافق مردوں اور عورتوں کی مشترکہ علامتیں بیان کی گئیں تھیں ۔ جن کا خلاصہ پانچ حصوں میںہوتا ہے ۔
۱۔ بری چیزوں کا حکم دینا ،
۲۔ اچھی چیزوں سے روکنا ،
۳۔ کنجوسی اور بخیلی ،
۴۔ خدا کو بھول جانا اور
۵۔ حکم خدا کی نافرمانی ۔
ان آیات میں مومن مردوں اور عورتوں کی نشانیاں بتائی گئی ہیں اور وہ بھی پانچ حصوں ہی میں ہیں او ربالکل منافقوں کی صفات کے مقابلے میں ہیں آیت یہاں سے شروع ہوتی ہے :۔
” ایماندار مرد اور عورتیں ایک دوسرے کے دوست ولی اور مدد گارہیں (وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُھُمْ اٴَوْلِیَاءُ بَعْضٍ)“۔
قابل توجہ یہ بات ہے کہ منافقین کے لئے لفظ ” اولیاء“ نہیں آیا بلکہ ” بعضھم من بعض “ ہے جو بظاہ رہر غرض و غایت کی وحدت اور صفات و کردار کی یکسانیت کی دلیل دکھائی دیتا ہے یہ اس طرف بھی اشارہ کرتا ہے کہ اگر چہ منافق ایک ہی صفت میں ہیں اور ان کے مختلف گروہ ایک ہی قسم کے منصوبوں اور پروگراموں میں مصروف ہیں پھر بھی ان میں محبت، مودت او رولایت کی روح موجود نہیں ۔ جب ان کی شخصی اغراض خطرے میں پڑجاتی ہیں تو وہ اپنے دوستوں کے ساتھ بھی بے ایمانی کرتے ہیں ۔ اسی بنا پر سورہٴ حشر کی آیت ۱۴ میں پڑھتے ہیں :۔” تحسبھم جمیعاً و قلوبھم شتیٰ “
تم انھیں متفق اور متحد سمجھتے ہو ، حالانکہ ان کے دل پراکندہ اور مختلف ہیں
خدا وند عالم اس حقیقت کو بیان کرنے کے بعد مومنین کی صفات کی جز ئیات کی تشریح کرتا ہے ۔
۱۔ پہلے فرماتا ہے : وہ لوگوں کی نیکی کی طرف بلاتے ہیں ( یَاٴْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ
۲۔لوگوں کو بد ی ، برائی اور گناہ سے روکتے ہیں (وَیَنْھَوْنَ عَنْ الْمُنکَرِ
۳۔ وہ منافقوں کے بر خلاف جنھوں نے خدا کو بھلا رکھاتھا” نماز قائم کرتے ہیں “ اور خدا کو یاد کرتے ہیں اور ا س کی عبادت اور ذکر سے دل کو روشن اور عقل کو بیدار اور خبر دار کئے ہوئے ہیں ( وَیُقِیمُونَ الصَّلَاةَ
۴۔ وہ منافقوں کے بر خلاف جو کنجوس اور بخیل لو گ تھے ، اپنے مال کا ایک حصہ راہ ِ خدا میں اور خلق خدا کی فلاح و بہبودی او رمعاشرے کی تشکیل نوکے لئے خرچ کرتے ہیں ( وَیُؤْتُونَ الزَّکَاةَ)۔
۵۔ منافق، فاسق اور سر کش ہیں اور خداوند علام کے حکم کی پیروی نہیں کرتے لیکن مومن خدا اور اس کے رسول کے حکم کی اطاعت کرتے ہیں

 ( وَیُطِیعُونَ اللهَ وَرَسُولَہہہ
اس آیت کے آخر میں خدا وند عالم نتیجے اور بدلے کے طور پرمومنوں کے پہلے امتیاز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے : خدا عنقریب ان پر اپنی رحمت نازل کرے گا ( اٴُوْلَئِکَ سَیَرْحَمُھُمْ الله
لفظ ”رحمت “ جس کا ایک مقام پر ذکر ہو اہے ایک بہت وسیع مفہوم کھتا ہے جو دین و دنیا کی ہر قسم کی خیر و برکت اور نیکی اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے ۔ یہ لفظ اصل میں منافقین کی حالت کی ضد ہے یعنی خدا نے ان پر لنعت کی ہے اور انھیں اپنی رحمت سے دور کردیا ہے ۔
بے شک مومنین سے خدا کا وعدہ ِ رحمت یقینی اور اطمینان بخش ہے کیونکہ وہ قدرت رکھتا ہے اور دانا وحکیم بھی ہے نہ وہ کسی سبب کے بغیروعدہ کرتا ہے اورنہ ہی جب وعدہ کرتا ہے تو ا س کے پورا کرنے سے عاجز ہے ( إِنَّ اللهَ عَزِیزٌ حَکِیمٌ )۔
بعد والی آیت خدا کی اس وسیع رحمت کے ایک حصہ کی جو ایماندار لوگوں کے لئے ہے ۔ تشریح کرتی ہے ۔ اس میں اس رحمت کے مادی اور روحانی دونوں پہلو وٴں کاتذکرہہے ۔ شروع میں فرماتا ہے : خد اایمان دار مردوں اور عورتوں سے ایسے بہشت کے باغوں کا وعدہ کرتا ہے جن درختوں کے نیچے نہریں جاری ہیں ( وَعَدَ اللهُ الْمُؤْمِنِینَ وَالْمُؤْمِنَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِی مِنْ تَحْتِہَا الْاٴَنْھَارُ
اس عظیم نعمت کی خصوصیاتمیں سے ایک یہ ہے کہ زوال ، فنا اور جدائی کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے اور ہمیشہ اس سے فائدہ اٹھاتے رہیں گے

 ( خَالِدِینَ فِیھَا
ان پر اللہ کا دوسرا احسان یہ ہو گا کہ خدا انھیں بہشت ِ عدن کے مرکز میں پاکیزہ مسکن اور شاندارمکان عطافرمائے گا (وَمَسَاکِنَ طَیِّبَةً فِی جَنَّاتِ عَدْنٍ
لغت میں ”عدن“ کے معنی مکان او رجگہ میں ٹھہرنے اور زندگی گذارنے کے ہیں ۔ اس لئے ” معدن “ کسی خاص مواد کی بقاء کی جگہ کے معنی میں بولا جاتا ہے اس بنا پر”عدن “ کامفہوم و مطلب خلود (ہمیشگی) کے ساتھ مشابہت رکھتا ہے لیکن کیونکہ گذشتہ جملہ میں خلود کی طرف اشارہ کیا جاچکا ہے تو اس لیئے معلوم ہوتا ہے کہ ” جنات ِ عدن “ پروردگار کی بہشت کا ایک خا ص مقام ہے ۔جو دیگر سب بہشتوں سے ممتاز ہے ۔
اسلامی حدیثوں اور مفسرین کی تفسیر میں یہ امتیاز مختلف شکلوں میں بیان ہو اہے چنانچہ پیغمبر اسلام کی ایک حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا :
عدن دار اللہ التی لم ترھا عین ولم یخطر عی قلب بشر، لا یسکنھا غیر ثلاثة النبیین و الصدیقین و الشہدآء
”عدن خدا کاوہ گھرجسے نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ اس خیال کسی دل و دماغ میں آیا ہے اور اس میں صرف تین گروہ سکونت پذیر ہو ں گے ۔ انبیاء صدیقین ( وہ جنھوں نے انبیاء کی تصدیق کی ہے اور ان کی حمایت کی ہے ) اور شہداء “۔ ۱
کتاب خصال ئل میں حضرت رسول اکرم سے اس طرح مروی ہے :۔
من سرہ ان یحیا حیاتی و یموت مماتی ویسکن جنتی التی و اعدنی اللہ ربی ، جنات عدن  فلیوال عبی بن ابی طالب علیہ السلام و ذریتہ علیھم السلام من بعد ہ۔
”جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اس زندگی مجھ جیسیاور موت بھی مجھ جیسی ہو تو اسے چاہئیے کہ و ہ علی بن ابی طالب اور ان کی اولاد سے محبت کرے“۔۲
اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ جنات عدن بہشت بریں کے ایسے باغات ہیں جن میں رسالت مآب اور ان کے خاص پیروکاروں کی ایک جماعت مقیم ہوگی ۔
یہ مضمون ایک اورحدیث میں حضرت علی علیہ السلام سے بھی منقول ہے کہ جنات عدن پیغمبر اسلام کی قیام کا مقام ہے ۔
اس کے بعد خداوند عالم ان کی روحانی نعمتوں اور جزا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے : خدا کی رضا اور خوشنودی جو ان سچے مومنوں کی نصیب ہوگی سب سے بر تر اور عظیم ہے (وَرِضْوَانٌ مِنْ اللهِ اٴَکْبَرُ)۔
کوئی اس روحانی لذت اور خوشی کے احساس کی جسے ایک انسان خدا کی طرف متوجہ ہونے سے پاتا ہے ، تعریف و توصیف نہیں کرسکتا ۔ بعض مفسرین کے قول کے مطابق اس روحانی لذت کا ایک گوشہ سب بہشتوں اور ان کی گونا گون نعمتوں اور بے پایاں آسائشوں سے برتراور بالا تر ہے ۔ البتہ ہم اس دنیا کے قفس میں اور اس کی محدود زندگی میں اس کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتے۔ چہ جائیکہ اس عظیم روحانی اور معنوی نعمت کوسمجھ سکیں ۔
البتہ اس دنیا کے روحانی او رماد ی فرق کی ایک د ھندلی سی تصویر کھینچ سکتے ہیں مثلاً جو لذت مسلسل فراق و جدائی کے بعد ایک مخلص او رمہر بان دوست کی ملاقت سے ملتی ہے یا ایک خاص روحانی خوشی جو لگاتار کئی ماہ و سال صرف کرنے کے بعد کسی پیچیدہ مسئلہ کے حل ہونے سے حاصل ہو۔ وہ کسی مادی غذا او رمادی لذتوں سے کوئی نسبت نہیں رکھتا۔
یہاں ایک بات یہ بھی واضح ہوجاتی ہے کہ وہ لوگ جو یہ اعتراض کرتے ہیں کہ قرآن مومنین او رنیک لوگوں کی جزا او رثواب بیان کرتے وقت صرف مادی نعمتوں کا ذکر کرتا ہے او رمعنوی جذبات کا اس میں کوئی ذکر اور خبر نہیں ہے وہ اشتباہ اورغلط بیانی سے کام لیتے ہیں ۔ کیونکہ مندرجہ بالا جملے میں خدا کی رضا جو خصوصیت کےساتھ لفظ ” نکرہ “ کے ساتھ بیان کی گئی ہے ، خدا وندعالم کی خوشنودی کے ایک خاص گوشے کی طرف اشارہ کرتی ہے اور یہ بہشت کی تمام مادی نعمتوں سے افضل و اعلیٰ ہے اور یہ چیز اس امر کی نشاندہی کرتی ہے کہ وہ معنوی جزا کس قدر قیمتی اور اہم ہے ۔
البتہ اس کی برتری کاسبب واضح اور روشن ہے کیونکہ حقیقت میں روح ایک گوہر کی مانند ہے او رجسم صدف کی طرح ہے ، روج حاکم ہے او رجسم محکوم ، روح کا ارتقاء اصلی اور بنیادی مقصد ہے جب کہ جسم کی تکمیل وسیلہ اور ذریعہ ہے ۔ اسی بنا پر روح کی تمام شعائیں جسم سے زیادہ وسیع ہیں اور روحانی لذتوں کا قیاس جسمانی لذتوں پر نہیں کیا جاسکتا۔ جس طرح روحانی مصیبتیں اور تکالیفیں جسمانی آلام ومصائب کے مقابلے میں بدر جہاددردناک ہیں ۔
آیت کے آخر میں تمام مادی اور روحانی نعمتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے :یہ بہت ہی بڑی کامیابی ہے ( ذَلِکَ ھُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ

 

۷۳۔ یَااٴَیّھَا النَّبِیُّ جَا ھد الْکُفَّارَ وَالْمُنَافِقِینَ وَاغْلُظْ عَلَیْہِمْ وَمَاٴْوَاہُمْ جَہَنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِیرُ ۔
ترجمہ
۷۳۔ اے پیغمبر! کافروں اور منافقوں کے ساتھ جہاد کرو، ان پر سختی کرو، ان کا ٹھکانا جہنم ہے او ران کا انجام کیسا برا ہے ۔

 


۱۔ مجمع البیان ، زیر بحث آیت کے ذیل میں ۔
۲ ۔ نور الثقلین ج ص ۲۴۱ بحوالہ کتاب خصال ۔
 
کافروں اور منافقوں سے جنگ منافقوں کی نشانیاں
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma