منافقوں کی نشانیاں

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 08
سچے مومنوں کی نشانیاں منافقین کا خطر نا ک پرگرام

ان آیتوں میں بھی اسی طرح منافقین کے چال چلن او رنشانیوں کے بارے میں بحث ہے ۔
پہلی زیر بحث آیت میں خدا وند عالم ایک امر کلی کی طرف اشارہ کرتا ہے اور وہ یہ کہ ہو سکتا ہے کہ نفاق کی روح مختلف شکلوں میں ظاہر ہو او رمختلف چہروں میں دکھائی ددے ہوسکتا ہے شروع شروع میں متوجہ نہ کرے ۔ خاص طور پرہو سکتا ہے کہ روحِ نفاق کا اظہار ایک مرد کی نسبت ایک عورت میں مختلف طرح سے ہو ۔ لیکن نفاق کے چہروں کے تغیر و تبدل سے دھو کا نہیں کھا نا چاہئیے بلکہ غور وفکر کرنے سے بخوبی یہ بات روشن ہو جاتی ہے کہ وہ سارے صفات کے ایک ہی سلسلے میںجو ان کے قدر مشترک سمجھی جاتی ہے ، شریک ہیں ۔ اس لئے قرآن کہتا ہے : منافق مرد او رمنافق عورتیں ایک ہی قماش کے ہیں ( الْمُنَافِقُونَ وَالْمُنَافِقَاتُ بَعْضھُمْ مِنْ بَعْضٍ )۔
اس کے بعد ان کی پانچ صفات کا ذکر فرمایا گیا ہے :
پہلی اور دوسری صفت یہ ہے کہ وہ لوگوں کو برائیوں پر ابھار تے ہیں اور نیکیوں سے روکتے ہیں (یَاٴْمُرُونَ بِالْمُنْکَرِ وَیَنْھَوْنَ عَنْ الْمَعْرُوفِ )۔
یعنی بالکل سچے مومنین کے الٹ جو ہمیشہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے طریقے سے معاشرے کی اصلاح اور اسے نجاست اور گناہ سے پاک کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں ۔ منافق ہمیشہ یہ کوشش کرتے ہیں کہ ہر جگہ پرفساد پھیل جائے اور معروف اور نیکی معاشرے سے خم ہو جائے تاکہ وہ اس قسم کے ماحول میں اپنے برے مقصد بہتر طریقے سے حاصل کرسکیں ۔
تیسیری صفت یہ ہے کہ وہ دینے والا ہاتھ نہیں رکھتے بلکہ اپنے ہاتھوں کو باندھے ہوئے ہیں نہ وہ راہ خد امیں خرچ کرتے ہیں اور نہ محروم اور بے کس لوگوں کی مدد کے لئے آگے بڑھتے ہیں ۔ یہاں تک کہ ان کے رشتہ داراور دوست آشنا بھی ان کی مالی مد د سے کوئی فائدہ نہیں اٹھاتے (وَیَقْبِضُونَ اٴَیْدِیَھُمْ)۔
واضح ہے کہ چونکہ وہ آخرت پر اور نفاق کے نتیجے اور جز اپر یمان نہیں رکھتے۔ اس لئے مال خرچ کرنے میں بہت ہی بخیل ہیں ۔ اگر چہ وہ اپنے برے اغراض و مقاصد تک پہنچنے کے لئے زیادہ مال خرچ کرتے ہیں یا ریا کاری اور دکھاوے کے طور پر سخاوت اور بخشش کرتے ہیں لیکن وہ خدا کے نام خۺوص ِ دل سے کبھی کوئی نیک کام نہیں کرتے ۔
چوتھی صفت یہ ہے کہ ان کے تمام کام ، گفتار اور کردار بتاتے ہیں کہ وہ خدا کو بھول چکے ہیں ، نیز ان کے طرز زندگی سے معلوم ہوتا ہے کہ ” خد انے بھی ان کو اپنی بر کات ، توفیقات، اور نعمات سے فراموش کردیا ہے “ اور ان دونوں فراموشیوں کے آثار ان کی زندگی سے آشکار ہیں ( نَسُوا اللهَ فَنَسِیھُم)۔
واضح ہے کہ” نسیان “کی نسبت خدا کی طرف واقعی اور حقیقی بھلادینے کے معنی میں نہیں ہے بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ ان کے ساتھ بھال دینے والے شخص کا سا سکوک کرتاہے ۔ یعنی انھیں اپنی رحمت اور توفیق سے دور رکھتا ہے ۔
یہ معاملہ روز مرہ کی زندگیوں میں بھی پایا جاتا ہے مثلا ً ہم کہتے ہیں کہ چونکہ تو اپنی ذمہہ داری کو بھول چکا ہے لہٰذا ہم بی مزدوری او ربدلے کے وقت تجھے بھول جائیں گے یعنی مزدوری اور بدلہ نہیں دیں گے یہی مفہوم روایاتِ اہل بیت - میں بار ہا بیان ہوا ہے ۔ ۱
پانچویں صفت یہ ہے کہ یہ منافق فاسق ہوتے ہیں اور طاعت ِخدا وندی کے دائرے سے خارج ہیں ( إِنَّ الْمُنَافِقِینَ ھُمْ الْفَاسِقُونَ )۔
جو چکھ مندرجہ بالا آیت میںمنافقین کی مشترکہ صفات کے بارے میں کہا جاچکا ہے وہ ہرزمانے میں دیکھا جاتا ہے ہمارے زمانے کے منافق اپنے خود ساختہ نئے اور جدید چہروں کے باوجود مذکورہ اصولوں کی رو سے گذشتہ صدیوں کے منافقوں کی طرح ہیں وہ برائی اور فساد کی طرف ابھارتے ہیں اور اچھے کاموں سے روکتے ہیں بخیل اور کنجوس بھی ہیں اور اپنی زندگی کے تمام پہلو وٴں میں خدا کو بھول چکے ہیں وہ قانون شکن اور فاسق بھی ہیں اور نرالی بات یہ ہے کہ ان تمام خوبیوں کے باوجودخدا پر ایمان اور دینی اصولوں اور اسلامی بنیادوں پریقین ِ محکم کا دعویٰ بھی کرتے ہیں اس کے بعد آیت میں ان کی سخت اور دردناک سزا اس مختصر سے جملے میں بیان کی گئی ہے : خدا منافق مردوں ، منافق عورتوں، تمام کافروں اور بے ایمان افراد کے لئے جہنم کی آگ کا وعدہ کرتا ہے ( وَعَدَ اللهُ الْمُنَافِقِینَ وَالْمُنَافِقَاتِ وَالْکُفَّارَ نَارَ جَھَنَّم)۔
وہ جلانے والی آگ کہ جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے( خَالِدِینَ فِیھَا)
اور یہی ایک سزاجو طرح طرح کے عذاب لئے ہوئے ہے ان کے ئے کافی ہے ( ھِیَ حَسْبُھُمْ)۔
دوسروں لفظوں میں انھیں کسی سزا کی ضرورت نہیں کیونکہ جہنم میں ہر قسم کا جسمانی اور روحانی عذاب موجود ہے ۔
اور آیت کے آخر میں یہ اضافہ کیا گیا ہے کہ ” خد انے انھیں اپنی رحمت سے دور کردیا ہے اور ہمیشہ کا عذاب ان کے نصیب میں ہے “ ( وَلَعَنَھُمْ اللهُ وَلَھُمْ عَذَابٌ مُقِیمٌ )۔
بلکہ یہ خدا سے دوری خود عظیم ترین عذاب اور دردناک ترین سزا شمار ہوتی ہے ۔
تاریخ کا ذکر اور درس عبرت اس آیت میں منافقین کی جماعت کو بیدار کرنے کےلئے ان کے چہرے کے سامنے تاریخ کا آئینہ رکھ دیا گیا ہے اور ان کی زندگی کا گذشتہ باغی منافقوں سے مقابلہ اور موازنہ کرکے موٴثر درسِ عبرت دیا گیا ہے اور فرمایا گیا ہےکہ ” تم گذشتہ منافقوں کی طرف ہو اور اسی برے راستے او ربدسر نوشت کے پیچھے پڑے ہوئے ہو( کالّذین مِنْ قَبْلِکُمْ)۔انہی لوگوں کی طرح جو قوت و طاقت میں تم جیسے زیادہ اور مال و دولت کی رو سے تم سے بہت آگے تھے ( کانوا ٓ اشدّ منکم قوة و اکثر اموالاً و اولاداً)۔
دنیا میں و ہ اپنے حصہ میں سے شہوت ِ نفسانی ، گندگی، گناہ ، فتنہ فساد اور تباہ کاریوں سے بہرہ ور ہوتے ہوئے۔ تم بھی جو اس امت کے منافق ہو گزرے ہوئے منافقین کی طرح ہی حصہ دار ہو ( فاستمعوا بخلاقھم فاستمتعتم بخلاقکم کما استمتع الذین من قبلکم بِخَلَاقِھِمْ )۔
”خلاق“ لغت میں نصیب اور حصہ کے معنی میں ہے جیسا کہ راغب مفردات میں کہتا ہے یہ ”خلق“ سے لیا گیا ہے ( یعنی اس جہت سے انسان اپنا نصیب اپنے خلق و خو کے مطابق اس دنیا میں حاصل کرتا ہے ) اس کے بعد فرما گیاہے : تم کفر و نفاق میں اور مومنین کا مذاق اڑاے میں مگن ہو جیسا کہ ان امور میں وہ لوگ ڈوبے ہوئے تھے (وَخُضْتُمْ کَالَّذِی خَاضُوا )۔ 2
آخر میں عہد پیغمبر کے منافقوں اور دنیا کے سب منافقوں کو بیدار کرنے کے لئےگزرے ہوئے منافقین کا انجام دو جملوں میں بیان کیا گیا ہے ۔
پہلا یہ کہ وہ ایسے لوگ ہیں جن کے دنیا و آخرت میں سب اعمال تباہ و بر باد ہوئے ہیں اور بر باد ہوں گے اور انھیں اس کا کوئی مثبت نتیجہ نہیں ملے گا

( اٴُوْلَئِکَ حَبِطَتْ اٴَعْمَالُھُمْ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَةِ )۔
دوسرا یہ کہ وہ اصلی اور حقیقی نقصان اٹھانے والے ہیں ( وَاٴُوْلَئِکَ ھُمْ الْخَاسِرُونَ )۔
ممکن ہے کہ وہ اپنے منافقہ عمل سے وقتی اور عارضی محدود فائدے حاصل کریں لیکن اگر ہم صحیح طور پر توجہ کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ وہ اس طریقے سے نہ دنیا میں فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور نہ آخرت میں انھیں کوئی فائدہ ہوگا۔
جیسا کہ اقوام گذشتہ کی تاریخ اس حقیقت کو واضح کررہی ہے کہ کس طرنفاق کی بد بختیان ان سے وابستہ ہو کر رہ گئیں اور انھیں زوال اور نیستی کی طرف لے گئیں اور ان کے برے انجام او ربری عاقبت نے عالم ِ آخرت میں ان کی بد بختی ظاہر اور واضح کردی ۔ جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ وہ باوجود تما م وسائل او رمال اولاد کے ہوتے ہوئے کامیابی تک نہ پہنچ سکے اور ان کے سب اعمال بے بنیاد ہونے کی وجہ سے اور نفاق کے زیر اثر نابود ہو گئےتو پھر تم جو کہ قوت اور طاقت کے لحاظ سے کمتر ہوا اس قسم کی بد قسمتی او ربد انجامی میں اور بھی بر طرح سے پھنسو گے ۔
اس کے بعد خدا وند عالم پیغمبر اسلام کی طرف بات کا رخ موڑتے ہوئے استفہام انکاری کے طور پر یوں فرماتا ہے :
کیا منافقوں کا یہ گروہ گذشتہ امتوں قوم نوح ، عاد، ثمود اور قوم ابراہیم اور اصحاب مدیَن ( قوم شعیب )اور قوم لوط کے ویران و برباد شہروں کے حال سے باخبر نہیں ہے “( اٴَلَمْ یَاٴْتِھِمْ نَبَاٴُ الَّذِینَ مِنْ قَبْلِھِمْ قَوْمِ نُوحٍ وَعَادٍ وَثَمُودَ وَقَوْمِ إِبْرَاہِیمَ وَاٴَصْحَابِ مَدْیَنَ وَالْمُؤْتَفِکَاتِ )۔3
یہ قومیں جن کا ایک عرصہ تک دنیا کے اہم حصوںپر اقتدار تھا ۔ ان میں سے ہر ایک تباہ کاری ، نافرمانی ، سر کشی ، بے انصافی، طرح طرح کے ظلم و ستم اور فساد کی وجہ سے کسی نہ کسی عذاب ِ الہٰی میں گرفتار ہوئی ۔
قوم نوح طوفان کی تباہ کن موجوں سے اور قوم ِ عاد ( قوم ہود) نیز اور وحشت ناک آندھیوں کے ذریعے، قوم ثمود ( قوم صالح ) ویران گر زلزلوں سے ، قوم ابراہیم گوناگں نعمتوں کی محرومی سے ، اصحاب مدین ( قوم شعیب) آگ کے بر سانے والے بادل سے اور قوم لوط اپنے شہروں کے زیرو زبر ہونے سے تباہ و برباد ہوئی۔ صرف ان کے بے جان جسم او ربوسیدہ ہڈیاں مٹی کے نیچے یا پانی کی موجوں میں باقی رہ گئیں ۔
یہ وہ دل دہلانے والے واقعات ہیں جن کامطالعہ اور آگاہی ہر اس انسان کو جو ذرا سا بھی احساس رکھتا ہے جھنجوڑ کر رکھ دیتے ہیں ۔
اگر چہ خد انے کبھی بھی انھیں اپنے لطف و کرم سے محروم نہیں رکھا اور ان کے نبیوں کو واضح دلیلوں کے ساتھ ان کی ہدایت کے لئے بھیجا ( اٴَتَتْہُمْ رُسُلُہُمْ بِالبَیِّنَاتِ )۔لیکن انھوں نے ان خدا رسیدہ بزرگوں کے کسی موعظہ اور نصیحت پر کان نہ دھرے اور مخلوق ِ خدا کی نصیحت و ہدایت کی راہ میں ان کی ناقابل ِ برداشت تکلیفوںکو ذرہ برابر اہمیت نہ دی۔ اس بنا پر خدانے کبھی ان پر ظلم نہیں کیا بلکہ انھوں نے خود اپنے آپ پر ظلم و جور روا رکھا ۔ ( فَمَا کَانَ اللهُ لِیَظْلِمَہُمْ وَلَکِنْ کَانُوا اٴَنفُسَہُمْ یَظْلِمُونَ )۔

 

۷۱۔ وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُھُمْ اٴَوْلِیَاءُ بَعْضٍ یَاٴْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْھَوْنَ عَنْ الْمُنکَرِ وَیُقِیمُونَ الصَّلَاةَ وَیُؤْتُونَ الزَّکَاةَ وَیُطِیعُونَ اللهَ وَرَسُولَہُ اٴُوْلَئِکَ سَیَرْحَمُھُمْ اللهُ إِنَّ اللهَ عَزِیزٌ حَکِیمٌ ۔
۷۲۔ وَعَدَ اللهُ الْمُؤْمِنِینَ وَالْمُؤْمِنَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِی مِنْ تَحْتِہَا الْاٴَنْھَارُ خَالِدِینَ فِیھَا وَمَسَاکِنَ طَیِّبَةً فِی جَنَّاتِ عَدْنٍ وَرِضْوَانٌ مِنْ اللهِ اٴَکْبَرُ ذَلِکَ ھُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ۔

ترجمہ
۷۱۔ ایماندار مرد اور عورتیں ایک دوسرے کے ولی (دوست اور مدد گار) ہیں وہ اچھے کاموں کا حکم دیتے ہیں اور برے کاموں سے روکتے ہیں ۔نماز قائم کرتے ہیں اور زکویٰةدیتے ہیں اور خدا و رسول کی اطاعت کرتے ہیں ۔ خدا عنقریب ان پر رحمت کرے گا بے شک خدا تواناوحکیم ہے۔
۷۲۔ خدا مومن مردوں اور عورتوں سے ایسے جنت کے باغوں کا وعدہ کیا ہوا ہے جن کے ( درختوںکے )نیچے نہریں جاری ہیں وہ ہمیشہ ان ہی میں رہیں گے اور عدن کی جنتوں میں ( ان کے لئے ) پاکیزہ مساکن ہیں اور خدا کی رضا ( اور خشنودی ان سب سے ) برتر و بہتر ہے اور یہی سب سے بڑی کامیابی ہے ۔

 


۱تفسیر نور الثقلین جلد ۲ ص ۲۳۹، ۲۴۰ ملاحظہ فرمائیں ۔
2۔ ”کالذی خاضوا“ در اصل ” کالذی خاضوا فیہ “ ہے یا دوسرے لفظوں میں آج کل کے منافقین کے فعل کی تشبیہ گذرے ہوئے منافقین کے فعل سے ہے جیسے کہ گذشتہ جملے میں ان کے نعمات الہٰی سے راہ شہوت و خواہشات میں فائدہ اٹھانے کو گذرے ہوے منافقوں کے طرز عمل سے تشبیہ دی گئی ہے ۔ اس بنا پر یہ ایک شخص سے تشبیہ نہیں ہے کہ ہم مجبورہو کر” الذی “ کو ” الذین “ ( یعنی مفرد کی جمع ) کے معنی میں لیں بلکہ عمل کو عمل سے تشبیہ دی گئی ہے ۔
3۔ موٴتفکات“ ”اتفاک “ کے مادہ سے انقلاب ، تبدیلی اور زیر و زبر ہ ونے کے معنی میں ہے ۔ یہ قوم لوط کے شہروں کی طرف اشارہ ہے جو زلزلہ کی وجہ سے تباہ و برباد ہو گئے تھے ۔
 
سچے مومنوں کی نشانیاں منافقین کا خطر نا ک پرگرام
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma