رحم مادر میں ، جنین کے ارتقائی مراحل

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 14
چند اہم نکات مومنین کے نمایا ں اوصاف

گذشتہ آیتوں میں سچّے مومنین کے اوصاف اور ان کی بہترین اُخروی جزاء کا ذکر اور ان کی صفوں میں شامل ہونے کے شوق کو اُجاگر کیا گیا ہے .لیکن کیونکر اور کس طریقے سے ؟ زیر بحث اور اس کے بعد آنے والی آیتوں کاایک حصِہ ایمان اور معرفت کے حصول کے بنیادی طریقوں کی طرف رہنمائی کرتا ہے ،پہلے انسان کے باطنی اور اندرونی اسرارورموز کی طرف توجہ دلائی گئی ہے .
اس مقام پر قرآن در حقیقت انسان کو عالم النفس کی سیر کرواتاہے .اور اس کے بعد میں آنے والی آیتوں میں انسان کی توجہ خارجی کائنات کے حیرت انگیز وجود کی طرف توجہ دلائی گئی ہے .اور یہ دراصل سیر آفاق ہے سب سے پہلے ارشاد ہوتا ہے ہم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا ،

(وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسانَ مِنْ سُلالَةٍ مِنْ طین )۱ بے شک یہ انسان کی خلقت کی پہلی منزل ہے .وہ انسان جو بے پناہ قابلیتوں اور صلاحیتوں کا مالک ہے اتنی رفعت کا حامل ہے کہ ، افضل مخلوقات اور افضل موجودات اس کا طُرّہ ہے .اس بے قیمت مٹی سے بنا ہے وہ مٹی جوبے اہمیت ہونے میں ضرب المثل ہے یہی تو اللہ کی قدرت کا کمال ہے کہ اس نے حقیر سے مادے سے ، رفیع شاہکار ، نبایا ، اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے .پھر ہم نے اسے پُرامن جگہ پر بطور نطفہ ٹھرایا ، (ثُمَّ جَعَلْناہُ نُطْفَةً فی قَرارٍ مَکینٍ )
در اصل پہلی آیت عمومی طور پر تمام انسانوں کی خلقت کی ابتداء کی طرف اشارہ کررہی ہے .اس میں بھی آدم شامل ہیں اور اس کی اولاد بھی اور یہ بتارہی ہے کہ سب مٹی اور گارے سے پیدا کیے گئے ہیں .دوسری آیت میں دوام اور افزائش نسل آدم کی طرف توجہ دلائی جارہی ہے .کہ رحم مادر میں نردمادہ کا نطفہ کس طرح ترکیب پاتاہے .در حقیقت یہ بحث سورہ سجدہ آیت ۷ اور میں بیان شدہ مطلب کے مشابہ ہے اور وہ یہ ہے .

( وبدء خلق الانسان من طین ثُم جعل نسلہ من سلالة من ماء مھین ) انسان کی ابتداء گارے سے ہوئی . پھر اس کی نسل ایک ٹپکنے والے حقیر پانی کے ذریعہ باقی رکھی گئی .
رحممادر کو قرار مکین پرُامن قیام گاہ کہہ کر انسانی جسم میں اس کی خاص حیثیت اور مقام کی طرف توجہ دلائی گئی ہے .اس میں کوئی شک نہیں کہ رحم ، انسانی جسم میں ایک محفوظ ترین مقام پرواقع ہے .ایک طرف ریڑھ کی ہڈہ کا مضبوط ستون ہے .دوسری طرف ہنبید ے کی مانند کمر کی مضبوط ہڈیاں .تیسری طرف سے پیٹ کے تہمہ بہتہ پردے اور چوتھے طرف بازووٴں کی حفاظت یہ سب اس پر امن قیام گاہ کے واضح مظاہر ہیں .اس کے بعد رحم مادر میں نطفے کے تعجب انگیز اور ہوش رُبا مختلف مراحل اور خلقت کی مختلف صورتیں کو انسان کی دسترس سے باہر یکے بعد دیگر ے اس پرُامن قیام گاہ میں وقوع پزیر ہوتے ہیں .کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے .پھر ہم نطفے کو جمے خون کی شکل میں لیے آئے .پھر جمے ہوئے خون کو چبائے ہوئے گوشت کی صورت میں تبدیل کردیاگیا ، پھر اس کو ہڈی کی شکل دی اور پھر ہڈیوں پر گوشت کی تہہ چڑھادی . (ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظاماً فَکَسَوْنَا الْعِظامَ لَحْماً ثُمَّ اٴَنْشَاٴْناہُ خَلْقاً آخَرَ فَتَبارَکَ اللَّہُ اٴَحْسَنُ الْخالِقینَ )
نطفے کے مرحلے سمیت مذکورہ بالا پانچ مختلف مراحل تشکیل پاتے ہیں .جن میں کا ہر ایک بجائے خود ایک حیرت انگیز عالم ہیں .جوعجائبات کا مجموعہ ہے اور آج کے ترقی یافتہ دور میں جنین شناس جس پر گہری تحقیق کررہے ہیں .بڑی بڑی کتابیںلکھی گئی ہیں .لیکن جس زمانے میں قرآن مجید نے ، انسانی جنین ، کی خلقت کے عجوبے کا انکشاف کیا تھا ، اس وقت اس سائنسی ترقی کا نام ونشان تک نہ تھا .
آیت کے آخری حصِےّ میں واقعی اہم ترین مرحلے کی طرف اشارہ کیا جارہاہے .یہ مرحلہ بلاشبہ سر بستہ اور معنی خیز ہے .پھر ہم نے اس میں ایک نئی خلقت پیدا کردی ( ثُمَّ اٴَنْشَاٴْناہُ خَلْقاً آخَر) وہ خدا جو خلق کرنے والوں میں سب سے بہترین ہے وہ بہت عظیم ہے .( فَتَبارَکَ اللَّہُ اٴَحْسَنُ الْخالِقینَ )
بےشک ، رحم مادر میں تاریکی کے پردوں کے اندر حقیر پانی کے قطرے سے اتنی عمدہ خوبصورت اورعجیب و غریب کمالات کی حامل تصویر بنانے کا بے مثال کمال لائق مد تحسین و آفرین ہے اس حقیر سے موجود میں اتنی قابلیت اور صلاحیتیں بھر دینے والا علم وحکمت کا حامل لائق ستائش و تحسین ہے .آفرین اس پر اس کی اس بے نظیر خلقت پر ،
ضمنی طور پر یہ بھی بیان ہوجائے کہ ، خالق ، مادہ خلق، سے ہے اور اس کا مطلب ماپنا اور پیمائش کرنا ہے عرب جب چمڑے کو کاٹنے کے لیے مانپتے ہیں تو اس کے لیے ، خلق ، کا استعمال کرتے ہیں خلقت میں چونکہ پیمائش اور نا پ تول کا سب سے زیادہ دخل ہے لہذا اس پر بھی .، خلق ، ، کا لفظ استعمال ہوتاہے .
احسن الخالقین ، اضافت کی یہ ترکیب ذہنوں میں ایک سوال کو جنم دیتی ہے کہ کیا اللہ کے علاوہ کوئی دوسرا خالق بھی ہے .
جب کہ انسان بہت ہی محدود پیمانہ پر ایجادات کرسکتا ہے اس پر مستزاد یہ کہ انسان کی ایجاد ات میں کئمی نقائص پائے جاتے ہیں اور چاہیے کہ مسلسل عمل کرتے ہوئے اسے پائے تکمیل تک پہنچائے مگر اللہ کی مخلوق ہر قسم کے عیوب و نقائص سے مبّرا ہے .
تیسری بات یہ ہے کہ اگر انسان یہ قا بلیت اور تخلیقی صلاحیت رکھتا ہے تو یہ بھی اللہ کی مرضی سے ہی ہے کیونکہ اس کی اجازت کے بغیر تو درخت بھی حرکت نہیں کرسکتا جیساکہ سورہ مائدہ آیت ۱۱۰ میں حضرت عسٰی علیہ اسلام کے بارے میں ارشادہورہاہے .( وَ إِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّینِ کَہَیْئَةِ الطَّیْرِ بِإِذْنی )
جب تم میری اجازت سے گیلی مٹی سے پرندے کی طرح ایک شکل بناتے تھے .
بعد کی آیت توحید اور مبداء کے بارے میں بات کرتے ہوئے بڑی خوبصورت لطافت اور سلیقے سے مسئلے کا رُخ معاد اور قیامت کی طرف موڈ دیتی ہے اور کہتی ہے کہ ان تمام عجیب وغریب خوبیوں اور صلاحیتوں کے باوصف انسان ہمیشہ زندہ نہیں رہے گا ، بلکہ ایک وقت آئے گا یہ عجیب عمارت زمین بوس ہوجائے گی اور پھر تم اس زندگی کے بعد سب کے سب مرجاوٴگے .(ثُمَّ إِنَّکُمْ بَعْدَ ذلِکَ لَمَیِّتُونَ ) لیکن اس تصور کی نفی کے لیے انسان کے مرنے سے تمام چیزیں ختم ہو جایئں گی . چند روز ہ عظمت وشوکت کس کام کی . بس یہ ایک فضول کیھل ہے ) فوراً یہ کہا جاتا ہے .پھر تم روز ِ قیامت ، اُٹھائے جاوٴگے .دوبارہ تمھیں زندگی دی جائے گی البتہ وہ زندگی وعلٰی درجے کی اور وسیع تر جہان میں ہوگی . (ثُمَّ إِنَّکُمْ یَوْمَ الْقِیامَةِ تُبْعَثُونَ )

 


۱- سلالة (بروزن ، عصارہ ) اس چیز کو کہتے ہیں .جو کسی دوسری چیز سے لی جائے اور در حقیقت اس کانچوڑ اور جوہر ہو ، (تفسیر مجمع البیان ) بعض مفسرین نے اس آیت کی طرح طرح سے توضیح کی ہے حلاکہ اس کی کوئی ضرورت نہیں اور لفظ ، خلق ، غیر اللہ کی ایجاد ، اختراع اور صنعت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے البتہ اللہ کا کسی چیز کوخلق اور مخلوق کا خلق کرنا ان میں زمین آسمان کا فرق ہے .اللہ کسی چیز کو خلق کرتے ہوئے اس کے اصل مادہ اور شکل وصورت دونوں کو خلق کرتا ہے .جبکہ انسان کسی چیز کو ایجاد کرتا ہے تو پہلے سے موجود مواد کو استعمال کرکے کوئی نئی شکل دیتا ہے مثلاً تعمیر اتی مواد ( ریت ،مٹی . پتھر ) سے عمارت اور لوہے اور دیگر دھاتوں سے کاریں بسیں یا مشینں بنا لیتا ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ اللہ کی خلقت اور پیدا کرنا ، لامتناہی وغیر محددود ہے اور وہ ہر چیزپر قدرت کا ملہ رکھتا ہے اور اس نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے .( اللہ خالق ُ کل شیُ)سورہ رعد ، ۱۶)

 

چند اہم نکات مومنین کے نمایا ں اوصاف
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma