شعائر الله کی تعظیم

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 14
سوره حج / آیه 34 - 35 سوره حج / آیه 31 - 33

تفسیر
شعائر الله کی تعظیم


گذشتہ آیت کے آخر میں توحید اور جملہ بتوں اور ہر قسم کی بت پرستی سے اجتناب کی تاکید ہورہی تھی، یہ آیت بھی اسی نکتے کے ذیل میں بیان کررہی ہے، مناسک حج اور تلبیہ خالصتاً للّٰہ ادا کرو اور کسی طرح بھی اس میں شرک کا گزر نہ ہو (حُنَفَاءَ لِلّٰہِ غَیْرَ مُشْرِکِینَ بِہِ) ۔
”حُنَفَاء“’ ’حنیف“ کی جمع ہے جس سے مراد وہ شخص ہے، جو گمراہی اور افراط وتفریط سے ہٹ کر راہ راست کی میانہ روی کی طرف میلان رکھتا ہو، بالفاظ دیگر غلط راستے سے ہٹ کر ”صراط مستقیم“ پر قدم رکھے، کیونکہ ’حنف“ (بروزن ”صدف“) جھکاوٴ اور میلان کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، ہر قسم کی گمراہی سے منھ موڑکر دوسری جانب جھکنے ہی کا نتیجہ ”صراط مستقیم“ پر گامزن ہوتا ہے ۔
اسی طرح سے یہ آیت اخلاص اور ارادہٴ قربت خدا کو حج اور دیگر عبادات میں اصل محرک کے طور پر پیش کررہی ہے، حقیقت بھی یہی ہے کہ عبادت کی رُوح اخلاص ہے اور اخلاص یہ ہے کہ کسی قسم کا شرک اور غیر قدرتی عنصر اس میں کارفرما نہ ہو، امام باقر علیہ السلام ایک حدیث مروی ہے کہ آپ(علیه السلام) سے ”حنیف“ کی تشریح کے لئے سوال کیا گیا تو آپ(علیه السلام) نے جواب میں فرمایا:
”ھی الفطرة التی فطر النّاس علیھا لاتبدیل لخلق الله، قال: فطرھم الله علی المعرفة“
”حنیف اس فطرت کا نام ہے، جس پر الله نے لوگوں کو پیدا کیا ہے، الله کی پیدا کردہ فطرت میں کبھی تغیر وتبدل نہیں ہوا کرتا، اس کے بعد فرمایا: الله تعالیٰ نے توحید کو انسانی سرشت میں قرار دیا ہے“۔(۲)

زیر بحث آیت کی جو تفسیر مندرجہ بالا روایت میں آئی ہے وہ ”خلوص“ کی حقیقی بنیاد کی طرف اشارہ ہے، فطرت توحیدی قصد قربت اور محرک کا منبع ہے ۔
اس کے بعد مشرکین، ان کے زوال، بدبختی اور تباہی کی حقیقت بیان تصویر کشی کی گئی ہے:
جو شخص الله کے ساتھ کسی کو شریک قرار دے، اس کی مثال آسمان سے اس گرنے والے کی سی ہے جس پر مردار خوار پرندے جھپٹتے ہیں (اس کے جسم کا ایک ایک جزو کسی نہ کسی مردار خوار پرندے کی چونچ میں ہوتا ہے) اور یا( اگر ان کی گرفت سے بچ نکلے تو) آندھیاں اس کے جسم کے اعضاء چاروں طرف بکھیر دیتی ہیں (وَمَنْ یُشْرِکْ بِاللهِ فَکَاٴَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاءِ فَتَخْطَفُہُ الطَّیْرُ اٴَوْ تَھْوِی بِہِ الرِّیحُ فِی مَکَانٍ سَحِیقٍ) ۔(3)
دراصل اس آیت میں آسمان کو توحید کے لئے کنائے کے طور پر استعمال کیا گیا ہے اور شرک کو آسمان سے گرنے سے تشبیہ دی گئی ہے، یہ فطری حقیقت ہے کہ آسمان پر سورج اور چاند روشنی پھیلاتے ہیں، اور ستارے چمکتے ہیں خوشابحال وہ جو اس آسمان پر اگر شمس وقمر کی طرح نمایاں نہیں ہوسکتا تو کم از کم ستاروں کی طرح تو چمکتا رہے، مگر انسان جب اس رفعت سے کرتا ہے تو انجاموں میں سے ایک اس کا مقصد بن جاتا ہے یا یہ کہ زمین پر پہنچنے سے پہلے ہی مردار خوار بڑے بڑے پرندوں کا تر نوالہ بن جاتا ہے، یعنی اطمینان بخش مرکز سے ہٹ جانے کے بعد خواہشات نفسانی کے اضطراب وگرداب میں پھنس جاتا ہے اور ہر خواہش نفسانی گویا اس کی زندگی کے ایک ایک گوشے کو اچک لیتی ہے اور اسے ختم کردیتی ہے اور اگر اس مرحلے سے صحیح سلامت نکل جائے تو تیز تند آندھیاں اور جھکڑ اسے آلیتے ہیں، زمین پر ادھر اُدھر اُسے اس طرح پٹختے ہیں کہ اُس کا جسم ٹکڑے ٹکڑے ہوکر فضاء میں منتشر ہوجاتا ہے، یہ آندھیاں اور جھکڑ در اصل شیطان کی طرف اشارہ ہے جو تاک لگائے بیٹھا ہے، یہ بات مسلّم ہے کہ جو شخص بلندی سے پستی کی طرف جاتا ہے، وہ قوت فیصلہ اور قوت ارادی سے محروم ہوجاتا ہے اور لمحہ بہ لمحہ بڑھتی ہوئی تیزی کی وجہ سے وہ نیستی وعدم کی طرف بڑھتا جاتا ہے، حتّیٰ کہ بالکل معدوم ومحو ہوجاتا ہے ۔
واقعی جو شخص آسمان توحید کے مرکز کو کھودے وہ اپنی تقدیر کی لگام تھامنے کی صلاحیّت سے عاری ہوجاتا ہے ۔ اور اس سلسلے میں جتنا آگے بڑھتا ہے اس کے تنزل اور زوال میں اضافہ ہوجاتا ہے، حتّیٰ کہ تمام انسانی جوہر سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے ۔
واقعی ”شرک“ کے لئے اس سے زیادہ واضح اور منھ بولتی مثال نہیں دی جاسکتی ۔

”سحیق“ دور دراز کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ”سحوق“ کھجور کے اس درخت کو کہتے ہیں جو بہت اونچا ہو اور اس کی شاخیں دُور دُور تک پھیلی ہوں ۔
یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ موجودہ دور میں ثابت کیا جاچکا ہے کہ جہاں کشش ثقل نہ ہو وہاں انسان کا کوئی وزن نہیں ہوتا اسی لئے خلاء باز ایسی فضا میں بے وزنی کی مشق کرتے ہیں، جہاں کشش ثقل ختم کردی جاتی ہے ۔ وہاںانسان پر جو اضطراب و بے قراری کی سی کیفیت پیدا ہوتی ہے، بے وزنی ہونے کی وجہ سے ہوتی ہے، بیشک جو شخص فراز ِ ایمان سے نشیب شرک کی طرف لڑھکتا ہے دراصل اپنے مستقر اور مسکن کو کھونے کی وجہ سے اپنے اندر ایک بے وزنی کی کیفیت میں مبتلا ہوجاتا ہے جس کے بعد شدید اضطراب اس پر طاری ہوجاتا ہے ۔
بعد والی آیت میں مناسک حج اور شعائر الله کی تعظیم کی بحث کو سمیٹتے ہوئے کہا جارہا ہے: بات یونہی ہے، جیسے بیان کردیا گیا ہے (ذٰلِکَ) ۔
جو شخص شعائر الله کی تعظیم کرے، انھیں برتر جانے اور دین مقدس اسلام کی نشانیوں اوراس کی اطاعت کی علامتوں کا احترام کرے، خود اس کے متقی ہونے کا ثبوت ہے (وَمَنْ یُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللهِ فَإِنَّھَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوبِ) ۔
”شَعَائِر“ ”شعیرة “ کی جمع ہے، جس کا معنیٰ علامت اور نشانی ہے، لہٰذا ”شَعَائِرَ اللهِ“ کا مطلب الله کی نشانیاں ہوا، جس میں دین مبین کا مجموعی پرورگرام اس کے چیدہ چیدہ مبانی واصول وارکان ہیں کہ جو پہلی ہی نظر میں نمایاں نظر آنے لگتے ہیں اسی میں ”مناسک حج“ بھی ہیں، جو انسان کو خدا تعالیٰ کی یاد دلاتے ہیں، اگرچہ مناسک حج بلاشبہ ان شعائر میں سے ایک ہیں، جن کا ذکر اس آیت میں کیا گیا ہے، علی الخصوص قربانی کا مسئلہ جو اس سورہ کی آیت ۳۶ میں پوری وضاحت کے ساتھ انہی شعائر سے ایک جزو کے طور پر پیش کیا گیا ہے ۔
لیکن یہ واضح رہے کہ اس میں تمام اسلامی شعائر کا مفہوم پوری شدّومدّ سے موجود ہے اور کسی طور پر انھیں صرف مناسک حج کی یا قربانی کے ساتھ مخصوص کرنے کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے، کیونکہ قربانی ان تمام ”شعائر“ میں سے ایک ہے جن کو شعائر الله کہا جاتا ہے اور یہاں لفظ ”من“ کو ”من تبعیضی“ کہتے ہیں، اس طرح سورہٴ بقرہ کی آیت ۱۸۵ میں صفا ومروہ کے بارے میں ہے ۔
<اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ الله
”بیشک صفا اور مروہ شعائر الله میں سے ہیں“۔
مختصر یہ کہ وہ تمام ارکان مقامات اور اشیاء جن کا تعلق دین کے کسی نہ کسی پرورگرام سے ہے اور انسان الله کی یاد دلاتی ہیں اور دین کی عظمت وحشمت کا مظہر ہیں وہ سب کی سب شعائر الله ہیں اور ان کی تعظیم وتکریم بذات خود تقویٰ وپرہیزگاری کی علاوت ہے ۔
ایک اور قابل توجہ بات یہ ہے کہ ان کی تعظیم وتکریم سے مراد یوں نہیں کہ جیسے ظاہر بین مفسرین نے قربانی کے بارے میں لکھا ہے کہ اس کی بڑائی کا مفہوم اس کا جسمانی طور پر بڑا ہونا ہے، بلکہ تعظیم کی حقیقت یہ ہے کہ ”شعائر الله“ کی حقیقت، مقام اور کیفیت کے بارے میں اپنے افکار واذہان کو اونچا کریں اور اسی مناسبت سے ان کا شایانِ شان احترام کریں، اس عمل کا دل میں پائے جانے والے تقویٰ وپرہیزگاری سے گہرا تعلق ہے اور درحقیقت، تعظیم ”قصدوارادہ“ کا جزء ہے، یوں تو منافق بھی ظاہری اعمال سے ”تعظیم“ کا مظاہرہ کرتے ہیں مگر ان کے اعمال کا سرچشمہ ”دلی تعظیم“ اور تقویٰ وپرہیزگاری نہیں ہوتا، اس لئے ان کی قطعی کوئی قدر وقیمت نہیں، حقیقی تعظیم ان افراد ہی کی طرف سے ہے جو صاحبانِ تقویٰ ہیں، ہم جانتے ہیں کہ پرہیزگاری اور احکاماتِ خداوندی کے سلسلے میں جواب دہی کا احساس باطنی امور ہیں اور ان کا مرکز انسان کا دل اور روح ہیں، جہاں سے یہ سارے جسم کی طرف ہدایت کرتے ہیں، اس بناء پر کہا جاسکتا ہے کہ ”شعائر الله“ کی تعظیم واحترام تقویٰ کی ایک علامت ہے ۔(4)
تفسیر قرطبی، ج۷، صفحہ۴۴۴۸ میں رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم سے ایک حدیث نقل کی گئی ہے کہ آپ نے اپنے سینہ الجہر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
”التقویٰ ھٰھُنا“
”تقویٰ کی حقیقت یہاں ہے“۔
بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ مسلمانوں کا ایک گروہ اس طرح کے عقیدے کا حامل ہے کہ قربانی کے ارادے سے لے جائے جانے والے اونٹ یا دوسرے جانور کو اپنے وطن سے میقات اور وہاں سے مکّہ لائے تو اثنائے سفر میں ذاتی استعمال ممنوع سمجھتے ہیں، قرآن مجید اس فضول اور لا یعنی ذہنیت کی نفی کرتا ہے اور یوں کہتا ہے: ”ایک مقررہ وقت تک (یعنی ان کے ذبح ہونے تک) قربانی کے جانوروں سے تم فائدے حاصل کرسکتے ہو (لَکُمْ فِیھَا مَنَافِعُ إِلَی اٴَجَلٍ مُسَمًّی) ۔

ومن یعظم شعائر الله فان تعظیمھا من تقوی القلوب
ایک احتمال یہ بھی ہے کہ جزاء کلی طور پر محذوف ہو، چونکہ”مُسَمًّ فانّھا من تقوی“ علت ہے اور اپنے معلول کی جانشین ہے اور پورا جملہ یوں ہے:
ومن یعظم شعائر الله فھو خیرٌ لہ فان تعظیمھا من تقوی القلوب
ایک اور روایت میں ہے کہ پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم نے مکّہ جاتے ہوئے ایک شخص کو دیکھا جو بڑی مشکل سے قدم اٹھا رہا تھا جبکہ اونٹ اس کے ساتھ چل رہا تھا، آپ نے اس سے فرمایا:
”ارکبھا؛ اس اونٹ پر سوار ہوجا“۔
اس نے عرض کیا: ”یا رسول الله انّھا ھدی؛ یا رسول الله یہ قربانی کا اونٹ ہے“۔
آپ نے قدرے غصّے سے فرمایا: ”ارکبھا ویلک؛“۔
افسوس ہے تیرے حال پر میں کہہ رہا ہوں سوار ہوجا ۔(5)
اسی طرح کی متعدد روایات اہل بیت علیہم السلام کے ذریعے سے ہم تک پہنچی ہیں، ان روایات میں سے ایک ابوبصیر امام صادق علیہ السلام نقل کرتے ہیں کہ زیرِ بحث آیت کی تفسیر کے ذیل میں آپ نے فرمایا:
”ان احتاج الیٰ ظھرھا رکبھا، من غیر ان ینعف علیھا وان کان لھا لبن حلبھا حلاباً ینھکھا“
”اگر حاجی کو قربانی کے جانور کو بطور سواری استعمال کرنے کی ضرورت پڑے تو سوار ہوجائے، مگر اس پر تشدّد نہ کرے، اگر قربانی دودھ دینے والا جانور ہو تو بیشک دودھ دھولے، مگر اس پر زیادتی نہ کرے ۔(6)
مذکورہ بالا روایات انتہائی نظریات کے درمیان ”معتدل“ طریقے کی طرف رہنمائی کررہی ہیں، ایک طرف اس طرح کے لوگ تھے کہ قربانی کے جانوروں کا سرے سے کسی قسم کا احترام ہی ملحوظ نہ رکھتے تھے اور کبھی تو وقت ومقام قربانی سے پہلے ہی ذبح کرکے کھالیتے تھے جس کی طرف سورہٴ مائدہ آیت ۲ میں یوں اشارہ کیا گیا ہے:
<لَاتُحِلُّوا شَعَائِرَ اللهِ وَلَاالشَّھْرَ الْحَرَامَ وَلَاالْھَدْیَ وَلَاالْقَلَائِدَ
”شعائر الله ماہِ حرمت اور قربانی کو من مانے طریقے سے اپنے استعمال میں نہ لاوٴ“۔
دوسری طرف بعض لوگ اس طرح کرتے کہ جس جانور کو قربانی کے لئے چنتے نہ اس کے دودھ سے فائدہ اُٹھاتے اور نہ ہی اس پر سواری کرتے اگرچہ مکّے آتے ہوئے ان کو طویل راستوں میں اس کی سخت ضرورت بھی ہوتی، مذکورہ آیت نے ان کے استعمال کو جائز قرار دیا ہے ۔
مندرجہ بالا تفسیر پر صرف یہ اعتراض کیا جاسکتا ہے کہ زیرِ بحث آیت میں قربانی کے جانور کا کوئی ذکر ہی نہیں، آپ نے ضمیر ان کی طرف کیسے لوٹادی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس آیت سے پہلی آیت میں شعائر الله کا ذکر تو واضح ہے اور مسلّمہ طور پر قربانی، شعائر الله میں سے ، جیسا کہ پہلے ہوا اور بعد میں بھی کیا جائے گا ۔ لہٰذا شعائر الله کے ضمن میں قربانی کے جانور طرف لوٹائی گئی ہے ۔(7)


ا) ”فیھا“ کی ضمیر تمام مناسک کی طرف پلٹتی ہے، اس بناء پر آیت کا مفہوم یوں ہوگا: ایک مقررہ وقت تک (ایّام حج یا دنیا کے ختم ہونے تک) مناسک حج میں تمھارا مفاد ہے ۔
حج کا !اری رُکن جس کو بجالانے کے بعد حاجی احرام کھول کر ”محل“ ہوجاتا ہے، خانہٴ کعبہ کے قریب طوافِ زیارت یا طواف نساء کا بجالاتا ہے ، اس بناء پر زیرِ بحث آیت ”لیشھد ومنافع لھم“کے مشابہ ہے، جس تفسیر گزرچکی ہے ۔
ب) ”فیھا“ کی ضمیر تمام شعائر الله اور اسلام کے نمایاں ارکانِ اعمال کی طرف پلٹتی ہے، اس صورت میں اس کا مفہوم یوں ہوگا:
شعائر الله اور تمام اسلامی احکام میں رہتی دنیا تک تمھارے لئے بہت فائدے ہیں، اس کے بعد تمھای اخروی جزاء خانہٴ کعبہ کے خالق کے ذمہ ہے ۔
لیکن جس تفسیر کو ہم نے ذکر کیا ہے، ان دونوں کے مقابلے میں زیادہ صحیح اور روایات سے زیادہ ہم آہنگ ہے ۔

 

 


۱۔ ”حنفاء“ اور غیر مشرکین دونوں حال ہیں اور گذشتہ آیت کے افعال ”فاجتنبوا“ ”اجتنبوا“ سے متعلق ہیں ۔
۲۔ تفسیر صافی بحوالہٴ توحید صدوقۺ
3۔ ”تخطفہ“ ”خطف“ (بروزن ”عطف“) کے مادہ سے ہے، اس کا معنی جھپٹ کر پکڑنا ہے ۔
4۔ عربی زبان کی گرائمر کے قواعد کی رُو سے شرطیہ جملوں میں ”شرط“ اور ”جزاء“ کے درمیان کوئی تعلق ضرور ہونا چاہیے اور دونوں کا موضوع بھی ایک ہونا ضروری ہے، مذکورہ آیت میں ”جزاء“ محذوف ہے اور دراصل یُوں ہے:
5۔ تفسیر کبیر، فخرالدین رازی، ج۲۳، ص۳۳
6۔ تفسیرنور الثقلین، ج۳، ص۴۹
7۔ مذکورہ بالا آیت کی واضح تفسیر ہے، اس کے علاوہ بعض مفسرین نے دو اور خیالات کا بھی اظہار کیا ہے
سوره حج / آیه 34 - 35 سوره حج / آیه 31 - 33
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma