خدا کے گھر سے روکنے والے

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 14
سوره حج / آیه 26 - 28 سوره حج / آیه 25

تفسیر
خدا کے گھر سے روکنے والے


گزشتہ آیتوں میں مطلق طور پر کفار کے بارے میں بات ہورہی تھی، جبکہ اس آیت کے بارے میں ہورہی تھی، جبکہ اس آیت میں ان میں سے ایک خاص گروہ کا ذکر کیا جارہا ہے، جو نافرمانیوں اور سنگین گناہوں کے مرتکب ہوتے تھے علی الخصوص مسجد حرام اور حج کے عظیم الشان اجتماعات کے سلسلے میں رکاوٹیں ڈالتے تھے، لہٰذا ارشاد ہوتا ہے، جو لوگ کافر ہو اور وہ راہ حق سے دوسرے کو روکتے ہیں
(إِنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا وَیَصُدُّونَ عَنْ سَبِیلِ اللهِ) ۔ اس طرح وہ مومنین کو توحید کے مرکز مسجد حرام سے روکتے ہیں ۔
وہ مرکز جسے ہم نے ہر ایک لئے یکساں قرار دیا ہے، چاہے وہیں کا باسی ہو یا کسی اور جگہ سے آیا ہو
(وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ الَّذِی جَعَلْنَاہُ لِلنَّاسِ سَوَاءً الْعَاکِفُ فِیہِ وَالْبَادِ) ۔ چنانچہ جو بھی اس حق سے روگرداں ہوگا اور ظلم وستم سے اپنے ہاتھ آلودہ کرے گا، ہم اسے اذیت ناک عذاب کا مزہ چکائیں گے (وَمَنْ یُرِدْ فِیہِ بِإِلْحَادٍ بِظُلْمٍ نُذِقْہُ مِنْ عَذَابٍ اٴَلِیمٍ) ۔
حقیقت یہ ہے کہ کفار کا یہ گروہ انکار حق کے علاوہ تین بڑے گناہوں کا مرکتب ہوا ہے ۔
۱۔ راہِ خدا، ایمان اور الله کی اطاعت میں رکاوٹ ڈالنا ۔2۔ زائرین کو اور عبادت کرنے والوں کوحرم خدا تک نہ پہنچنے دینا اور حرم خدا پر اپنا حق فائق قرار دینا ۔
۳۔ اس مقدس سرزمین پر ظلم والحاد اور گناہ کا بازار گرم کرنا، چنانچہ دردناک عذاب کے مستحق اس گروہ کو الله سزا دے گا ۔


چند اہم نکات
۱۔ دو مختلف صیغے


اس آیت میں مذکورہ گروہ کے بارے میں کفر کا ذکر ماضی کے صیغے کے ساتھ ہے، جبکہ راہِ حق میں رکاوٹ بننے کا ذکر مضارع کے صیغے کے ساتھ ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کا کفر قدیمی ہے، مگر لوگوں کو راہِ حق سے ہٹانے کی ان کی کوششیں مسلسل اور دائمی ہیں، دوسرے لفظوں میں ”کفر“ کا تعلق چونکہ عقائد کے ساتھ ہے اور یہ ایک ثابت شئے ہے، لہٰذا فعل ماضی کے ساتھ آیا ہے، جبکہ ”صد عن سبیل الله“ عملی کیفیت ہے، لہٰذا فعل مضارع کے ساتھ آیا ہے ۔


۲۔ ”صد عن سبیل الله“ کیا ہے؟


اس سے مراد ایمان اور اعمال صالح کی راہ میں کسی بھی قسم کی رکاوٹ ڈالنا ہے، چاہے صرف نشر واشاعت اور پروپیگنڈے کی حد تک ہو یا عملی اقدامات کی صورت میں ہو، اس میں سب شامل ہیں ۔


۳۔ اس منبع میں تمام لوگ برابر کے شریک ہیں ”سَوَاءً الْعَاکِفُ فِیہِ وَالْبَاد“


اس جملے کے مفہوم کے بارے میں مفسرین کی آراو مختلف ہیں، بعض کا خیال ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ اس مرکز توحید میں استحقاق عبادت سب کو یکساں طور پر حاصل ہے اور مناسکِ حج یا دیگر عبادات کی بجاآوری کے لحاظ سے کسی کے خانہٴ خدا کے نزدیک کسی کے معاملے میں مداخلت کا کوئی حق نہیں ہے، البتہ بعض نے اس مفہوم کی حُدود عبادات سے بڑھاکر تمام حقوق تک بیان کی ہیں، یعنی مکّہ اور اس کے گرد ونواح میں رہن سہن کا بھی سب کو یکساں طور پر حق ہے، اسی بناء پر بعض فقہاء کا فتویٰ ہے کہ مکہ میں گھروں کی خرید وفروخت اور کرایہ داری حرام ہے ۔ اور انھوں نے استدلال کے طور پر اسی آیت کو پیش کیا ہے ۔
بعض راوایات میں بھی حرمِ خدا کے زائرین کو مکّہ کے مکانات میں قیام سے روکنے سے منع کیا گیا، البتہ بعض میں ممانعت حرمت کے اعتبار سے ہے اور بعض میں کراہت کے لحاظ سے ۔
نہج البلاغہ کے خطوط نمبر ۶۷ میں جناب امیر علیہ السلام نے اپنے دور کے مکّہ کے گورنر جناب قثم بن عباس کو خط تحریر فرمایا ہے وہ یوں ہے:
”ومراھل مکة اٴن لایاٴخذوا من ساکن اجراً، فانّ الله سبحانہ یقول <سَوَاءً الْعَاکِفُ فِیہِ وَالْبَاد فالعاکف المقیم بہ، البادی الذی یحج الیہ من غیر اٴھلہ“
”اہل مکّہ کو حکم دو کہ جو لوگ شہر میں سکونت اختیار کریں، ان سے کوئی کرایہ نہ لیاجائے، کیونکہ الله فرماتا ہے کہ مقامی اور مسافر حقوق رکھتے ہیں“ اور
”عاکف“سے مراد مقامی لوگ ہیں اور ”بادی“ مختلف علاقوں سے حج کے لئے آنے والے کو کہتے ہیں ۔
امام صادق علیہ السلام سے بھی اسی طرح کی ایک روایت ہے:
”کانت مکّة لیست علیٰ شیء منھا باب، وکان اوّل من علی بابہ المصراعین، معاویة بن ابی سفیان ولیس ینبغی لاٴحدٍ اٴن یمنع الحاج شیئاً من الدور ومنازلھا“۔
”صدر اسلام میں مکّہ میں گھروں کے دروازے نہیں ہوتے تھے، پہلا شخص جس نے اپنے گھر کا دروازہ لگایا، معاویہ تھا اور مناسب نہیں کہ کوئی شخص حاجیوں کو مکّہ کے گھروں میں داخل ہونے سے روکے ۔
اس طرح کی بعض اور روایتوں سے یہ مفہوم ملتا ہے کہ خانہٴ خدا کے زائرین کا یہ حق ہے کہ مناسک حج کے اختتام تک گھروں کے صحنوں سے استفادہ کریں ۔
البتہ یہ حکم بعد والی بحث سے متعلق ہے کہ آیہٴ مجیدہ میں
”مسجد الحرام“ سے مراد، صرف حدود مسجد ہے یا مکّہ کا تمام شہر، اگر صرف مسجد حرام مراد ہو تو پھر یہ حکم مکّہ کے مکانات پر حرمت کا حکم لگانا مشکل ہے، تاہم اس میں شک نہیں کہ اہلِ مکّہ کو چاہیے کہ بیت الله کے زائرین کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں مہیّا کریں اور گھروں کے معاملے میں اپنی مولویت نہ جتائیں، نہج البلاغہ کے خط اور دیگر روایات کا بھی ظاہراً اس مفہوم کی طرف اشارہ ہے اور شیعہ وسّنی فقہاء کے نزدیک حرمت والا قول زیادہ معتبر نہیں ہے (مزید وضاحت کے لئے جواہر الاسلام، ج۲۰، ص۴۸ سے رجوع کریں) ۔
البتہ یہ مفہوم بھی مسلّم ہے کہ کسی شخص کو یہ حق نہیں کہ بیت الله کے متولی یا منتظم ہونے کا بہانہ بناکر زائرین کے لئے چھوٹی سی بھی رکاوٹ پیدا کرے یا اسلام کے اس مرکز کو اپنے پراپیگنڈے کے لئے استعمال کرے ۔


۴۔ اس آیت میں مسجد حرام سے کیا مراد ہے؟


بعض مفسّرین کا کہنا ہے کہ مسجدِ حرام سے مراد حدودِ مسجد ہی ہیں، جبکہ بعض نے اس سے مراد مکّے کا پورا شہر لیا ہے اور ثبوت کے طور پر سورہٴ بنی اسرائیل کی پہلی آیت جو پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کی معراج کے بارے میں نازل ہوئی ہے کو پیش کیا ہے ۔
تفسیر کنز العرفان، ج۱، ص۳۳۵ کے مطابق آیہٴ معراج میں یہ تصریح موجود ہے کہ ابتداء مسجد حرام سے ہوئی جبکہ تاریخ یہ کہتی ہے کہ جناب خدیجة الکبریٰ کے گھر یا شعب ابی طالب یا جناب امّ ہانی کے گھر سے ہوئی اس بناء پر مسجد حرام سے مکّہ مراد ہے ۔
لیکن ہماری نظر میں چونکہ آیت میں
”مسجد حرام“ کا لفظ صریحاً موجود ہے، لہٰذا آیت کی موجودگی کو معتبر نہیں سمجھا جاسکتا اور پاس کوئی دلیل نہیں کہ جس کی بناء پر ظاہراً آیت کا مفہوم بدلا جاسکے اس لئے یہ ماننا پڑے گا کہ معراج کہ معارج کی ابتداء خود مسجد حرام ہی سے ہوئی ہے، البتہ مذکورہ بالا چند روایات سے یہ احتمال ہوتا ہے کہ زیرِ بحث حکم مکّہ کے تمام مکانات پر نافذ ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ظاہراً یہ حکم استحبابی ہے اور کسی بھی مستحب حکم کے دائرے کو مختلف مناسبتوں کی بناء پر وسعت دینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے (غور کیجئے گا) ۔
۵۔ ظلم کے ساتھ
”الحاد“ کا کیا مفہوم ہے
لغت میں
”الحاد“ حد اعتدال سے اِدھر اُدھر ہوجانے کو کہتے ہیں، اسی لحاظ سے قبر کو ”لحد“ کہا جاتا ہے کہ وہ قبر کھودنے کی جگہ سے ایک طرف کو ہٹ کر نیچے گڑھے کی صورت میں کھودی جاتی ہے، لہٰذا لہٰذا آیت میں ”الحاد“ کا مفہوم یہ ہے کہ کفار ظلم کے ذریعہ میانہ روی سے تجاوز کرتے ہیں اور اس مقدس سرزمین پر نافرمانی کے مرتکب ہوتے ہیں، البتہ بعض مفسرین نے یہاں ظلم کو صرف ”شرک“ سے تعبیر کیا ہے ، بعض نے شرک کے ساتھ حرام کو حلال کرنے کو بھی شامل کرلیا ہے، جبکہ بعض نے ہر فعل حرام کو ”ظلم“ میں شامل کیا ہے، حتّیٰ کہ بدکلامی گالی گلوچ اور ماتحتوں کی برائی کرنے تک کو بھی ”ظلم“ کے وسیع مفہوم کے ذیل میں سمجھا ہے، ان کا کہنا ہے کہ اس مقدس ومحترم مقام پر چھوٹے سے چھوٹے گناہ کی سزا اور عذاب بھی بہت سخت ہے ۔
امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ ایک صحابی نے اس آیت کی تفسیر کے بارے میں آپ(علیه السلام) سے استفسار کیا تو آپ(علیه السلام) نے فرمایا:
”کلّ ظلمٍ یظلم الرجل نفسہ بمکة من سرقة اٴو ظلم اٴحد اً اٴو شیء من الظلم فانّی اٴراہ الحاداً ولذٰلک کان ینھیٰ اٴن یسکن الحرم“
”ہر ظلم جو مکہ میں کوئی شخص اپنے اوپر کرے، چاہے چوری ہو یا کسی سے زیادتی ہو یا تشدد ہو، میں ان سب کو
”الحاد“ سمجھتا ہوں“۔
اسی وجہ سے امام لوگوں کو مکّہ میں زیادہ دیر تک قیام سے منع فرمایا کرتے تھے ”کیونکہ اس جگہ پر گناہ کی سزا زیادہ اور سخت ہے“۔(۱)
کئی اور روایات بھی اسی مفہوم پر دلالت کرتی ہیں اور یہی مفہوم مطلق طور پر ظاہرِ آیت کے بھی ہم آہنگ ہے ۔ اسی بناء پر بعض فقہاء یہ فتویٰ دیا ہے کہ اگر کوئی شخص حرمِ خدا میں ایسا گناہ کربیٹھے جس کی حد معیّن ہے، اس پر حد کے علاوہ تعزیر بھی جاری کی جائے اور اس فتویٰ کی دلیل انھوں نے اس آیہٴ مجیدہ کے اس جُملے کو قرار دیا ہے:
”نُذِقْہُ مِنْ عَذَابٍ اٴَلِیمٍ“۔(۲)
اس گفتگو کے مطابق جن مفسرین نے ظلم سے مراد صرف ذخیرہ اندوزی یا حدود حرم میں بغیر احرا باندھے داخلے کی ممانعت لیا ہے، ان کی مراد آیہٴ مجیدہ کا واقع مصداق بیان کرنا ورنہ آیت کے وسیع تر مفہوم کو محدود کرنے کی کوئی دلیل نظر نہیں آتی ۔


 

 


۱۔ تفسیر نور الثقلین، ج۳ ، ص۲۸۴
۲۔ کنز العرفان، ج۱، ص۵۲۳
سوره حج / آیه 26 - 28 سوره حج / آیه 25
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma