تفسیر

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 07
بدر کے تربیتی درساسلام اور کفر کا پہلا تصادم۔ جنگ بدر

جنگ بدر کی کچھ کیفیت بیان ہوچکی ہے۔ اب ہم زیرِ نظر آیت کی تفسیر کی جانب لوٹتے ہیں، پہلی آیت میں جنگ بدر میں اجمالی طور پر کامیابی کے خدائی وعدے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے: وہ وقت یاد کرو جب خدا نے تم سے وعدہ کیا کہ دو گروہوں میں سے ایک (قریش کا تجارتی قافلہ یا لشکرِ قریش ) تمھارے قبضے میں دے گا (وَإِذْ یَعِدُکُمْ اللهُ إِحْدیٰ الطَّائِفَتَیْنِ اٴَنَّھَا لَکُمْ)۔ لیکن تم جنگ کی مصیبت ، اس سے تلف ہونے والے جان ومال اور اس سے پیدا ہونے والی پریشانیوں کی وجہ سے چاہتے تھے کہ قافلہ تمھارے قبضے میں آجائے نہ کہ لشکرِ قریش (وَتَوَدُّونَ اٴَنَّ غَیْرَ ذَاتِ الشَّوْکَةِ تَکُونُ لَکُمْ)۔
روایات میں آیا ہے کہ پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم نے ان سے فرمایا:
احدی الطائفتین لکم امّا العیر وامّا النفیر-
عیر“ کا معنی ہے ”لشکر“ لیکن جیسا کہ آپ آیت میں ملاحظہ کررہے ہیں کہ ”لشکر“ کے لئے ”ذات الشوکة“ اور ”قافلہ“ ”غیر ذات الشوکة“آیا ہے۔
یہ تعبیر ایک لطیف نکتے کی حامل ہے کیونکہ ”شوکة“کہ جو قدرت وشدّت کے معنی میں ہے دراصل ”شوک“ سے لیا گیا ہے جس کا معنی ہے ”کاٹنا“ بعد ازاں یہ لفظ فوجیوں کے نیزوں کی انیوں کے لئے استعمال ہونے لگا اور پھر ہر قسم کے ہتھیاروں کو ”شوکة“کہا جانے لگا۔
لہٰذا ”ذات الشوکة“مسلح فوج کے معنی میں ہے اور ”غیر ذات الشوکة“غیر مسلح قافلے کے مفہوم میں ہے۔ اب اگر اس میں کچھ مسلح بھی تھے تو مسلم ہے کہ وہ زیادہ نہ تھے۔
مفہوم یہ ہوا کہ: تم میں سے ایک گروہ آرام طلبی کے لئے یا مادّی مفاد کے لئے چاہتا تھا کہ مالِ تجارت کی طرف جایا جائے نہ کہ مسلح فوج کا سامنا کیا جائے حالانکہ اختتامِ جنگ نے ثابت کردیا کہ ان کی حقیقی مصلحت اس میں تھی کہ وہ دشمن کی فوجی طاقت کو درہم وبرہم کردیں تاکہ آئندہ کی کامیابیوں کی راہ ہموار ہوجائے لہٰذا اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے : خدا چاہتا ہے کہ اس طرح سے اپنے کلمات سے حق کو ثابت کرے اور دینِ اسلام کو تقویت دے اور کافروں کی جڑ کاٹ دے (وَیُرِیدُ اللهُ اٴَنْ یُحِقَّ الْحَقَّ بِکَلِمَاتِہِ وَیَقْطَعَ دَابِرَ الْکَافِرِینَ)۔(1) لہٰذا یہ تم مسلمانوں کے لئے بہت بڑا درسِ عبرت تھا کہ مختلف حوادث میں ہمیشہ دور اندیشی سے کام لو، مستقبل کی تعمیر کرو، کوتاہ اندیش نہ بنو اور صرف آج کی فکر میں نہ رہو اگرچہ دور اندیشی اور انجامِ کار پر نظر رکھنے میں ایک وسیع اور ہمہ گیر کامیابی ہے جبکہ دوسری کامیابی ایک سطحی اور وقتی کامیابی ہے۔
یہ صرف اس زمانے کے مسلمانوں کے لئے درس عبرت نہیں ہے بلکہ آج کے مسلمانوں کو بھی اس آسمانی تعلیم سے الہام لینا چاہیے۔ مشکلات، پریشانیوں اور طاقت فرسا مصیبتوں کی وجہ سے اصولی روگرام سے چشم پوشی کرکے غیر اصولی، معمولی اور کم وقت طلب کاموں کے پیچھے ہرگز نہیں جانا چاہیے۔
اگلی آیت میں زیادہ واضح طور پر اس مطلب سے پردہ اٹھایا گیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے: اس پروگرام کا (مسلمانوں کی میدان بدر میں فوجِ دشمن سے مڈبھیڑ کا) اصلی ہدف اور مقصد یہ تھا کہ حق یعنی توحید، اسلام، عدالت اور انسانی آزادی خرافات قیدوبند اور مظالم کے چنگل سے آزاد ہوجائے اور باطل یعنی شرک، کفر، بے ایمانی، ظلم اور فساد ختم ہوجائے اگرچہ مجرم مشرکین اور مشرک مجرمین اسے پسند نہ کریں (لِیُحِقَّ الْحَقَّ وَیُبْطِلَ الْبَاطِلَ وَلَوْ کَرِہَ الْمُجْرِمُونَ)
کیا یہ آیت گذشتہ آیت کے مفہوم کی تاکید کرتی ہے جیسا کہ پہلی نظر میں دکھائی دیتا ہے یا اس کوئی نیا مفہوم ہے اس سلسلے میں بعض مفسّرین نے مثلاً فخر الدین رازی نے ”تفسیر کبیر“ میں اور صاحب المنار نے اپنی تفسیر میں کہا ہے کہ لفظ ”حق“ گذشتہ آیت میں جنگ بدر میں مسلمانوں کی کامیابی کیطرف اشارہ ہے لیکن یہی لفظ دوسری آیت میں اسلام اور قرآن کی اس کامیابی کی طرف اشارہ ہے جو جنگ بدر میں فوجی کامیابی کے نتیجہ میں حاصل ہوئی ہے۔ اس طرح سے فوجی کامیابی ان خاص حالات میں ہدف ، مقصد اور مکتب کی کامیابی کی تمہید تھی۔
یہ احتمال بھی ہے کہ پہلیآیت خدا کے (تشریعی) ارادے کی طرف اشارہ ہو (جوپیغمبر کے فرمان کی صورت میں ظاہر ہوا تھا) اور دوسری آیت میں اس حکم اور فرمان کے نتیجے کی طرف اشارہ ہو (غور کیجئے گا)

آخرکار لشکر قریش مقامِ بدر تک آپہنچا ۔ انھوں نے اپنے غلام پانی لانے کے لئے کنویں کی طرف بھیجے، اصحابِ پیغمبر نے انھیں پکڑلیا اور ان سے حالات معلوم کرنے کے لئے انھیں خدمت پیغمبر میں لئے آئے، حضرت نے ان سے پوچھا تم کون ہو؟ انھوں نے کہا: ہم قریش کے غلام ہیں۔ فرمایا: لشکر کی تعداد کیا ہے؟ انھوںنے کہا: ہمیں اس کا پتہ نہیں۔ فرمایا: ہر روز کتنے اونٹ کھانے کے لئے نحر کرتے ہیں؟ انھوں نے کہا: نو سے دس تک۔ فرمایا: ان کی تعداد ۹ سوسے لے کر ایک ہزار تک ہے (ایک اونٹ ایک سو فوجی کی خوراک ہے)۔

 

۹- إِذْ تَسْتَغِیثُونَ رَبَّکُمْ فَاسْتَجَابَ لَکُمْ اٴَنِّی مُمِدُّکُمْ بِاٴَلْفٍ مِنَ الْمَلَائِکَةِ مُرْدِفِینَ
۱۰- وَمَا جَعَلَہُ اللهُ إِلاَّ بُشْریٰ وَلِتَطْمَئِنَّ بِہِ قُلُوبُکُمْ وَمَا النَّصْرُ إِلاَّ مِنْ عِنْدِ اللهِ إِنَّ اللهَ عَزِیزٌ حَکِیمٌ
۱۱- إِذْ یُغَشِّیکُمْ النُّعَاسَ اٴَمَنَةً مِنْہُ وَیُنَزِّلُ عَلَیْکُمْ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً لِیُطَھِّرَکُمْ بِہِ وَیُذْھِبَ عَنکُمْ رِجْزَ الشَّیْطَانِ وَلِیَرْبِطَ عَلیٰ قُلُوبِکُمْ وَیُثَبِّتَ بِہِ الْاٴَقْدَامَ
۱۲- إِذْ یُوحِی رَبُّکَ إِلَی الْمَلَائِکَةِ اٴَنِّی مَعَکُمْ فَثَبِّتُوا الَّذِینَ آمَنُوا سَاٴُلْقِی فِی قُلُوبِ الَّذِینَ کَفَرُوا الرُّعْبَ فَاضْرِبُوا فَوْقَ الْاٴَعْنَاقِ وَاضْرِبُوا مِنْھُمْ کُلَّ بَنَانٍ
۱۳- ذٰلِکَ بِاٴَنَّھُمْ شَاقُّوا اللهَ وَرَسُولَہُ وَمَنْ یُشَاقِقْ اللهَ وَرَسُولَہُ فَإِنَّ اللهَ شَدِیدُ الْعِقَابِ
۱۴- ذَلِکُمْ فَذُوقُوہُ وَاٴَنَّ لِلْکَافِرِینَ عَذَابَ النَّارِ
۹- إِذْ تَسْتَغِیثُونَ رَبَّکُمْ فَاسْتَجَابَ لَکُمْ اٴَنِّی مُمِدُّکُمْ بِاٴَلْفٍ مِنَ الْمَلَائِکَةِ مُرْدِفِینَ
ترجمہ
۹۔ وہ وقت یاد کرو (جب انتہائی پریشانی کے عالم میں میدانِ بدر میں ) اپنے پروردگا سے تم مدد چاہ رہے تھے اور اس نے تمھاری خواہش کو پورا کردیا (اور کہا) کہ میں تمھاری ایک ہزار فرشتوں سے مدد کروں گا جو ایک دوسرے کے پیچھے آرہے ہوں گے۔
۱۰۔ لیکن خدا نے یہ صرف تمھاری خوشی اور اطمینانِ قلب کے لئے کیا ورنہ بغیر خدا کی جانب کے کامیابی نہیں ہے خدا توانا اور حکیم ہے۔
۱۱۔ وہ وقت یاد کرو جب اونگھ نے جو کہ آرام اور سکون کا سبب تھی خدا کی طرف سے تمھیں گھیر لیا اور آسمان کی طرف سے تم پر پانی نازل کیا تاکہ اس سے وہ تمھیں پاک کرے اور شیطانی پلیدی تم سے دُور کرے اور تمھارے دلوں کو مضبوط کرے اور تمھیں ثابت قدم بنادے۔
۱۲۔ وہ وقت یاد کرو جب تیرے پروردگار نے فرشتوں کو وحی کی کہ میں تمھارے ساتھ ہوں، جو لوگ ایمان لائے ہیں انھیں ثابت قدم رکھو، میں جلد ہی کافروں کے دل میں خوف اور وحشت ڈال دوں گا۔ ضربیں (دشمنوں کے سروں) گردنوں کے اُوپر لگاوٴ اور اُن کے ہاتھ پاوٴں بے کار کردو۔
۱۳۔ یہ اس بناء پر ہے کہ انھوں نے خدا اور اس کے پیغمبر سے دشمنی کی ہے اور جو بھی خدا اور اس کے پیغمبر سے دشمنی کرے گا (وہ سخت سزا پائے گا کہ) خدا شدید العقاب ہے۔
۱۴۔ یہ (دنیاوی سزا) چکھو اور کافروں کے لئے تو (جہنم کی) آگ کی سزا (دوسرے جہان میں) ہوگی۔

 


1۔ ”بدر“ در اصل قبیلہ جہینیہ کے ایک شخص کا نام تھا اس مقام پ کنواں کھودا تھا اس کے بعد وہ سرزمینِ بدر اور کنواں چاہِ بدر کے نام سے مشہور ہوگیا۔
 
بدر کے تربیتی درساسلام اور کفر کا پہلا تصادم۔ جنگ بدر
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma