یہودیوں کی گوسالہ پرستی کا آغاز

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 06
گوسالہ پرستوں کے خلاف شدید ردّعملمتکبروں کا انجام

یہودیوں کی گوسالہ پرستی کا آغاز

ان آیات میں افسوسناک اور تعجب خیز واقعات میں سے ایک واقعہ کا ذکر ہوا ہے جو حضرت موسیٰ(علیه السلام) کے میقات کی طرف جانے کے بعد بنی اسرائیل میں رونما ہوا ، وہ واقعہ ان لوگوں کی گوسالہ پرستی ہے، جو ایک شخص بنام ”سامری“نے زیور وآلاتِ بنی اسرائیل کے ذریعے شروع کیا ۔
اس داستان کی اہمیت اس قدر ہے کہ قرآن نے اس کا چار سورتوں میں ذکر کیا ہے، سورہٴ بقرہ آیت۵۱،۵۴،۹۲؛ سورہٴ نساء آیت۱۵۳؛ سورہٴ اعراف زیرِ بحث آیات اور سورہٴ طٰہٰ آیت۸۸ اور اس کے بعد کی آیات۔
اتنا ضرور ہے کہ یہ حادثہ مثل دیگر اجتماعی حوادث کے بغیر کسی آمادگی اور مقدمہ کے وقوعِ پذیر نہیں ہوا بلکہ اس میں متعدد اسباب کارفرما تھے، جن میں سے بعض یہ ہیں:
بنی اسرائیل عرصہٴ دراز سے اہلِ مصر کی بت پرستی دیکھتے چلے آرہے تھے ۔
جب دریائے نیل کو عبور کیا تو انھوں نے ایک قوم کو دیکھا جو بت پرستی کرتی تھی، جیسا کہ قرآن نے بھی اس کا ذکر کیا ہے اور گذشتہ آیات میں اس کا ذکر گزرا کہ بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ(علیه السلام) سے ان کی طرح بت بنانے کی فرمائش کی جس پر حضرت موسیٰ(علیه السلام) انھیں سخت سرزنش کی ۔
حضرت موسیٰ(علیه السلام) کے میقات کا پہلے تیس راتوں کا ہونا اس کے بعد چالیس راتوں کا ہوجانا اس سے بعض منافقین کو یہ موقع ملا کہ حضرت موسیٰ(علیه السلام) کی وفات کی افواہ پھیلادیں ۔
قومِ موسیٰ(علیه السلام) میں بہت سے افراد کا جہل ونادانی سے متصف ہوا اس کے مقابلے میں سامری کی مکاری ومہارت کیونکہ اس نے بڑی ہوشیاری سے بت پرستی کے پروگرام کو عملی جامہ پہنایا، بہرحال قبول کرلے اور ”گوسالہ“ کے چاروں طرف اس کے ماننے والے ہنگامہ برپا کردیں ۔
آیت مذکورہ بالا میں پہلے قرآن اس طرح فرماتا ہے: قومِ موسیٰ نے موسیٰ کے میقات کی طرف جانے کے بعد اپنے زیورات وآلات سے ایک گوسالہ بنایا جو ایک بے جان جسد تھا جس میں سے گائے کی آواز آتی تھی، اسے انھوں نے اپنے واسطے انخاب کیا (وَاتَّخَذَ قَوْمُ مُوسیٰ مِنْ بَعْدِہِ مِنْ حُلِیِّھِمْ عِجْلًا جَسَدًا لَہُ خُوَارٌ) ۔
اگرچہ یہ عمل سامری سے سرزد ہوا تھا (جیسا کہ سورہٴ طٰہٰ کی آیات میں آیا ہے) لیکن اس کی نسبت قومِ موسیٰ(علیه السلام) کی طرف دی گئی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں سے بہت سے لوگوں نے اس کام میں سامری کی مدد کی تھی اور وہ اس کے شریکِ جرم تھے، اس کے علاوہ ان لوگوں کی بڑی تعداد اس کے فعل پر راضی تھی ۔
ظاہرِ آیت یہ ہے کہ تمام قومِ موسیٰ اس گوسالہ پرستی میں شریک تھی لیکن اگر اسی سورہ کی آیت ۱۵۹ پر نظر ڈالی جائے جس میں آیا ہے کہ:
<وَمِنْ قَوْمِ مُوسیٰ اٴُمَّةٌ یَھْدُونَ بِالْحَقِّ وَبِہِ یَعْدِلُونَ.
قومِ موسیٰ میں ایک امت تھی جو لوگوں کو حق کی ہدایت کرتی تھی اور اسی کی طرف متوجہ ہوتی تھی ۔
اس سے معلوم ہوگا کہ زیرِ بحث آیت سے مراد تمام امت موسیٰ نہیں ہے بلکہ اس کی اکثریت اتنی زیادہ تھی حضرت ہارون علیہ السلام مع اپنے ساتھیوں کے ان کے مقابلے میں ضعیف وناتواں ہوگئے تھے ۔
طلائی گوسالہ سے کس طرح آواز پیدا ہوئی؟
کلمہٴ ”خوار“ کے معنی اس مخصوص آواز کے ہیں جو گائے یا گوسالہ سے نکلتی ہے، بعض مفسّرین کا حیال ہے کہ سامری جو کہ ایک صاحبِ فن انسان تھا اس نے اپنی معلومات سے کام لے کر طلائی گوسالہ کے سینے میں کچھ مخصوص نَل (PIPE)اس طرح مخفی کردیئے تھے جن کے اندر سے دباؤ کی وجہ سے جب ہَوا نکلتی تھی تو گائے آواز آتی تھی ۔
کچھ کا خیال ہے کہ گوسالہ کا منھ اس طرح کا پیچیدہ بنایاگیا تھا کہ جب اسے ہَوا کے رُخ پر رکھا جاتا تھا تو اس کے منھ سے یہ آواز نکلتی تھی ۔
ایک دوسرا نکتہ جس کی طرف یہاں توجہ کرنا چاہیے یہ ہے کہ سامری کو چونکہ اس بات کا احساس تھا کہ قومِ موسیٰ(علیه السلام) عرصہٴ دراز سے محرومی اور مظلومی کی زندگی بسر کررہی تھی اس وجہ سے مادہ پرستی اور حُبِّ زر کا جذبہ بدرجہ اتم پایا جاتا تھا، جیسا کہ آج بھی ان کی یہی صفت ہے لہٰذا اس نے یہ چالاکی کی کہ وہ مجسمہ سونے کا بنایا کہ اس طرح ان کی توجہ کو زیادہ سے زیادہ اس طرف مبذول کراسکے ۔
اب رہا یہ سوال کہ اس محروم وفقیر کے پاس اس روز اتنی مقدار میں زرو زیور کہاں سے آگیاکہ اس سے یہ مجسمہ تیار ہوگیا؟ اس کا جواب روایات میں اس طرح ملتا ہے کہ بنی اسرائیل کی عورتوں نے ایک تہوار کے موقع پر فرعونیوں سے زیوارت مستعار لئے تھے یہ اس وقت کی بات ہے جس کے بعد ان کی غرقابی عمل میں آئی تھی، اس کے بعد وہ زیورات ان عورتوں کے پاس باقی رہ گئے تھے(۱)
اس کے بعد قرآن سرزنش کے طور پر ان سے کہتا ہے: کیا وہ یہ نہیں دیکھتے تھے کہ وہ گوسالہ ان سے باتیں نہیں کرسکتا تھا نہ ان کی رہنمائی کرسکتا تھا
(اٴَلَمْ یَرَوْا اٴَنَّہُ لَایُکَلِّمُھُمْ وَلَایَھْدِیھِمْ سَبِیلًا) ۔
مطلب یہ ہے کہ ایک حقیقی خداکو کم از کم ایسا ہونا چاہیے کہ اسے نیک وبد کی تمیز ہو اور وہ اپنے ماننے والوں کی ہدایت کرسکے، اپنی عبادت کرنے والوں سے بات کرسکے اور عبادت کے طریقے انھیں سکھا سکے ۔
اصولی طور پر عقل انسانی کس طرح انسان کو اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ ایسے بے جان معبود کی پرستش کرے جو خود اس کا ساختہ پرداختہ ہے ، حتّّیٰ کہ اگر بالفرض وہ سونا ایک زندہ بچھڑے کی شکل میں بھی تبدیل ہوجائے تب بھی وہ کسی طرح قابلِ پرستش نہیں ہوگا ، گوسالہ جو بالکل نہیں سمجھتا بلکہ نافہمی میں ضرب المثل ہے ۔
اس طرح ان لوگوں نے خود اپنے اوپر ظلم کیا لہٰذا آیت کے آخر میں فرماتا ہے:
انھوں نے گوسالہ کو اپنے معبود کے طور پر انتخاب کرلیا، اور وہ ظالم وستمگر تھے (اتَّخَذُوہُ وَکَانُوا ظَالِمِینَ) ۔
لیکن جب حضرت موسیٰ(علیه السلام) واپس آئے اور مسائل واضح ہوگئے تو بنی اسرائیل کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور وہ اپنے کئے پر پشیمان ہوئے، انھوں نے خدا سے اپنے بُرے عمل کی معافی چاہی، چنانچہ انھوں نے کہا: اگر پروردگار ہم پر رحم نہ کرے اور ہمیں نہ بخشے تو ہم یقینی طور پر گھاٹا اٹھانے والوں میں سے ہوجائیں گے (وَلَمَّا سُقِطَ فِی اٴَیْدِیھِمْ وَرَاٴَوْا اٴَنَّھُمْ قَدْ ضَلُّوا قَالُوا لَئِنْ لَمْ یَرْحَمْنَا رَبُّنَا وَیَغْفِرْ لَنَا لَنَکُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِینَ) ۔
یہ جملہ ”وَلَمَّا سُقِطَ فِی اٴَیْدِیھِمْ“ (یعنی جب حقیقت ان کے ہاتھ لگی، یا جب ان کے اعمالِ شوم کا نتیجہ ان کے ہاتھ لگا، یا جب چارہٴ کار ان کے ہاتھ سے نکل گیا) ادب عربی میں ندامت وپشیمانی سے کنایہ ہے، کیونکہ واقعات انسان کے ہاتھ لگتے میں اور وہ حقائق سے آگاہ ہوجاتا ہے، یا یہ کہ کسی کام کے ناپسندیدہ نتائج سے دوچار ہوتا ہے یا اس کے اوپر راہِ چارہ مسدود ہوجاتی ہے، تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ وہ اس وقت پشیمان ہوتا ہے، بنابریں پشیمانی اس جملے کے لوازم میں سے ہے ۔
بہرحال بنی اسرائیل اپنے کئے پر نادم ہوئے، لیکن اتنی بات پر مطلب کا خاتمہ نہیں ہُوا جیسا کہ بعد کی آیات میں آنے والا ہے ۔

 

۱۵۰ وَلَمَّا رَجَعَ مُوسیٰ إِلیٰ قَوْمِہِ غَضْبَانَ اٴَسِفًا قَالَ بِئْسَمَا خَلَفْتُمُونِی مِنْ بَعْدِی اٴَعَجِلْتُمْ اٴَمْرَ رَبِّکُمْ وَاٴَلْقَی الْاٴَلْوَاحَ وَاٴَخَذَ بِرَاٴْسِ اٴَخِیہِ یَجُرُّہُ إِلَیْہِ قَالَ ابْنَ اٴُمَّ إِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُونِی وَکَادُوا یَقْتُلُونَنِی فَلَاتُشْمِتْ بِی الْاٴَعْدَاءَ وَلَاتَجْعَلْنِی مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِینَ.
۱۵۱ قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِی وَلِاٴَخِی وَاٴَدْخِلْنَا فِی رَحْمَتِکَ وَاٴَنْتَ اٴَرْحَمُ الرَّاحِمِینَ.
ترجمہ
۱۵۰۔ جب موسیٰ اپنی قوم کی طرف غضبناک اور رنجیدہ پلٹے تو انھوں نے کہا کہ تم لوگ میرے بعد میرے بُرے جانشین نکلے (اور تم نے میرے آئین کو ضائع کردیا)کیا تم نے اپنے رب کے فرمان کے (اور مدّت میعاد کی تمدید اور فیصلہ کے) بارے میں عجلت سے کام لیا؟! اس کے بعد انھوں نے الواح کو ڈال دیا اور اپنے بھائی کے سرپکڑ لیا اور (غصّہ میں اسے) اپنی طرف کھینچا، اس نے کہا اے میرے ماں جائے! اس قوم نے مجھے کمزور کردیا اور قریب تھا کہ مجھے قتل کردیں، لہٰذا کوئی ایسا کوئی ایسا کام نہ کرنا کہ دشمن میری شماتت کریں اور مجھے ظالم گروہ میں قرار نہ دو۔
۱۵۱۔ (موسیٰ نے) کہا: پروردگارا! مجھے اور میرے بھائی کو بخش دے اور ہمیں اپنی رحمت میں داخل کر اور تُو تمام مہربانوں سے زیادہ مہربان ہے ۔
تفسیر

 


۱۔ تفسیر مجمع البیان، در ذیل آیت مذکورہ ملاحظہ ہو.
گوسالہ پرستوں کے خلاف شدید ردّعملمتکبروں کا انجام
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma