چند اہم نکات

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 06
متکبروں کا انجامالواح توریت

چند اہم نکات

۱۔ الواح کس چیز کی بنی ہوئی تھیں: اس آیت کا ظاہر یہ ہے کہ خداوندکریم نے حضرت موسیٰ(علیه السلام) پر جو الواح نازل کی تھیں ان میں توریت کی شریعت اور قوانین لکھے ہوئے تھے، ایسا نہ تھا کہ یہ لوحیں حضرت موسیٰ(علیه السلام) کے ہاتھ میں تھیں اور اس میں فرامین منعکس ہوگئے تھے، اب رہا یہ سوال کہ یہ لوحیں کیسی تھیں؟ کس چیز کی بنی ہوئی تھیں؟ قرآن نے اس بات کی کوئی وضاحت نہیں ہے، صرف کلمہ ”الواح ““سربستہ طور پر آیا ہے، جو دراصل ”لاح یلوح“ کے مادہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی ظاہر ہونے اور چمکنے کے ہیں، اس لئے اس صفحہ کے ایک طرف لکھنے سے حروف نمایاں ہوجاتے ہیں اور مطالب آشکار ہوجاتے ہیں، اس لئے اس صفحہ کو جس پر لکھا جائے ”لوح“ کہتے ہیں(۱) لیکن روایات واقوال مفسّرین میں ان الواح کی کیفیت کے بارے میں اور ان کی جنس کے بارے میں گوناگوں احتمالات ذکر کئے گئے ہیں، چونکہ ان میں سے کوئی بھی یقینی نہیں ہے اس لئے ان کے ذکر سے ہم اعراض کرتے ہیں ۔
۲۔ کلام کیسے ہوا؟: قرآن کریم کی مختلف آیات سے استفادہ ہوتا ہے کہ خداوندمتعال نے حضرت موسیٰ(علیه السلام) سے کلام کیا، خدا کا موسیٰ(علیه السلام) سے کلام کرنا اس طرح تھا کہ اس نے صوتی امواج کو فضا میں یا کسی جسم میں پیدا کردیا تھا، کبھی یہ امواجِ صوتی ”شجرہٴ وادیٴ ایمن“ سے ظاہر ہوتی تھیں اور کبھی ”کوہ طور“ سے حضرت موسیٰ(علیه السلام) کے کان میں پہنچتی تھیں، جن لوگوں نے صرف الفاظ پر نظر کی ہے اور اس پر غور نہیں کیا کہ یہ الفاظ کہاں سے نکل سکتے ہیں انھوں نے یہ خیال کیا کہ خدا کا کلام کرنا اس کے تجسم کی دلیل ہے، حالانکہ یہ خیال بالکل بے بنیاد ہے کیونکہ خدا کے کلام کرنے کے یہ معنی نہیں ہیں کہ خود اس سے کلام صادر ہوا، بلکہ اس کے یہ معنی ہیں کہ اس نے کسی جسم میں کلام پیدا کیا ۔
البتہ اس میں شک نہیں کہ حضرت موسیٰ(علیه السلام) جب بھی یہ کلام سنتے تھے تو انھیں اس بات کا یقین ہوجاتا تھا کہ یہ خدا ہی کا کلام ہے، انھیں یہ علم یا تو الہام کے ذریعے حاصل ہوگیا تھا یا عض دیگر قرائن کے ذریعے ۔
۳۔ توریت پیامِ کامل نہ تھا: چونکہ توریت کے متعلق یہ تعبیر کی گئی ہے کہ ”من کلّ شیء موعظہ“ اس لئے اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے تمام مواعظ، نصیحتیں اور مسائل اس میں نہ تھ کیونکہ فرمایا گیا ہے: ہم نے ان کے لئے ہر چیز میں نصیحت لکھی تھی، اس کی وجہ یہ ہے کہ نہ تو حضرت موسیٰ(علیه السلام) کا آئین ایک آخری آئین تھا اور نہ خود آخری نبی تھے لہٰذا اس زمانے میں جتنی لوگوں کی استعداد تھی اسی کی مناسبت سے احکام خدا نازل ہوئے تھے لیکن جب انسان تعلیماتِ انبیاء کی وجہ سے استعدادِ بشری کے آخری مرحلے پر پہنچ گئے تو اس وقت الله کا آخری فرمان جو نوع بشر کی تمام مادی ومعنوی ضروریات پر مشتمل ہے نازل ہوا ۔
یہاں سے معلوم ہوا کہ بعض روایات میں جو وارد ہوا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کا مقام حضرت موسیٰ(علیه السلام) سے بڑا تھا کیونکہ آپ تمام قرآن کے عالم تھے اور قرآن میں تمام چیزوں کا علم ہے <ونزلنا علیک الکتاب تبیاناً کل شیءجبکہ توریت میں بعض مسائل کا ذکر ہے(2)وہ اسی مطلب کے مطابق ہے ۔
۴۔ ”جو فرامین بہترین ہیں“ سے کیا مراد ہے؟: یہ مذکورہ بالا آیت میں آیا ہے کہ ”ان فرامین میں جو بہترین ہیں ان کو لے لو“ کیا اس کے یہ معنی ہیں کہ ان حکام میں خوب وبد موجود تھا اور انھیں حکم دیا گیا تھا کہ جو احکام خوب ہیں انھیں لے لیں اور بَد کو چھوڑ دیں، یا یہ کہ ان احکام میں خوب وخوب تر موجود تھا اور ان سے کہا گیا کہ جو احکام خوب تر ہیں ان کو لے لو اور خوب ہیں ان کو چھوڑ دو، ایسا نہیں ہے بلکہ کلمہٴ ”افعل التفضیل“ یہ معنی صفت مشبہ بھی آتا ہے ، زیر بحث آیت بظاہر اسی قبیل سے ہے، یعنی ’احسن“ بمعنی ”حسن“ آیا ہے یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ سب فرامین ”حسن“ اور نیک ہیں ۔
یہ احتمال بھی اس آیت میں ہے کہ”احسن“ کے معنی وہی بہتر کے ہوں اور ”افعل تفضیل“ کے معنیٰ میں ہو جس سے اس بات کی طرف اشارہ ہو کہ اس (توریت) میں کچھ امور ایسے ہیں جن کی صرف اجازت ہے (جیسے قصاص وغیرہ) اور کچھ امور وہ ہیں جن کو بہتر کہا گیا ہے (جیسے عفو اور بخشش دینا) یعنی اپنی امت سے کہدو کہ جتنا بھی ہوسکے جو امور بہتر ہیں ان کو انتخاب کریں (یعنی عفو کو قصاص پر ترجیح دیں ۔ (3)
۵۔ ”ساٴوریکم دار الفاسفقین“ (جلد ہی فاسقوں کا ٹھکانا مَیں تمھیں دکھلادوں گا) بظاہر اس سے دوزخ مراد ہے جو ان لوگوں کا ٹھکانا ہے جو خدا اور اس کے فرامین کی اطاعت سے خارج ہوگئے ہیں ۔
یہ احتمال بھی بعض مفسّرین نے ذکر کیا ہے کہ اگر ان فرامین سے اختلاف کروگے تو تمھارا بھی وہی انجام ہوگا جو قوم فرعون اور دیگر گناہگاروں کا ہوا تھا اور تمھاری سرزمین فاسقوں کے ٹھکانے میں تبدیل ہوجائے گی(4)

 

۱۴۶ سَاٴَصْرِفُ عَنْ آیَاتِی الَّذِینَ یَتَکَبَّرُونَ فِی الْاٴَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ وَإِنْ یَرَوْا کُلَّ آیَةٍ لَایُؤْمِنُوا بِھَا وَإِنْ یَرَوْا سَبِیلَ الرُّشْدِ لَایَتَّخِذُوہُ سَبِیلًا وَإِنْ یَرَوْا سَبِیلَ الغَیِّ یَتَّخِذُوہُ سَبِیلًا ذٰلِکَ بِاٴَنَّھُمْ کَذَّبُوا بِآیَاتِنَا وَکَانُوا عَنْھَا غَافِلِینَ.
۱۴۷ وَالَّذِینَ کَذَّبُوا بِآیَاتِنَا وَلِقَاءِ الْآخِرَةِ حَبِطَتْ اٴَعْمَالُھُمْ ھَلْ یُجْزَوْنَ إِلاَّ مَا کَانُوا یَعْمَلُونَ.
ترجمہ
۱۴۶۔ جو لوگ زمین میں ناحق تکبّر کرتے ہیں ان کو مَیں اپنی آیتوں سے جلد ہی پلٹ دوں گا (اس طرح کہ) وہ جس آیت کو بھی دیکھیں گے اس پر ایمان نہ لائیں گے، اور اگر ہدایت کا راستہ دیکھیں گے تو اس پر نہ چلیں گے اور اگر گمراہی کا راستہ دیکھیں گے تو اس کو اختیار کریں گے، یہ اس وجہ سے ہے کہ انھوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلا دیااور وہ ان سے غافل تھے ۔
۱۴۷۔ اور جن لوگوں نے ہماری آیت کو اور آخریت کی ملاقات کو جھٹلایا ان کے تمام اعمال ضائع ہوجائیں گے، جو کچھ انھوں نے کیا ہے کیا اس کے علاوہ کی ان کو سزا ملے گی؟
تفسیر


 ۱۔ تفسیر تبیان، ج۴، ص۵۳۹.
2۔ ان روایات کے لئے تفسیر نور الثقلین، ج۲، ص۶۸ ملاظہ ہو.
3۔ یہ احتمال بھی موجود ہے کہ ”اٴحسنھا“ کی ضمیر ”قوة“ کی طرف پلٹتی ہو اس سے مراد یہ ہو کہ وہ بہترین قوة کے ساتھ احکام پر عمل کریں ۔
4۔ تفسیر المنار، ج۹، ص۱۹۳.
متکبروں کا انجامالواح توریت
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma