تفسیر

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 04
مومنین کو تنبیہتفسیر

منافقین کی پانچ صفات
۱۔ وہ اپنے منحوس مقا صد کی تکمیل کے لئے دھو کا او رفریب دہی کی راہ اختیار کرتے ہیں یہاں تک کہ وہ چاہتے ہیں کہ خدا کو بھی دھوکا دے دیں ۔ حالانکہ جب وہ ایسا کرنا چاہ رہے ہوتے ہیں خود فریب میں مبتلا ہوتے ہیں کیو نکہ وہ ناچیز اور حقیر سرمایے کے حصول کے لالچ میں اپنا وجود اور انسانیت کا عظیم سرمایہ اپنے ہاتھ سے دے بیٹھے ہیں (إِنَّ الْمُنافِقینَ یُخادِعُونَ اللَّہَ وَ ہُوَ خادِعُہُمْ ) ۔
مندرجہ بالا تفسیر” وھو خادعھم“ کی واوٴ سے معلوم ہوتی ہے کیونکہ یہاں واوٴ حالیہ ہے ۔
بعض بزرگوں سے ایک قصّہ منقول ہے ، ایک بزرگ پیشہ وروں سے کہتے تھے : ”ڈرو، کہیں غریب مسافر تمہیں دھوکا نہ دے دیں “
کسی نے کہا: وہ انجان اور سادہ لوح ہوتے ہیں او ر ہم انھیں دھوکا دے سکتے ہیں ۔
بزرگ نے کہا: میرا مقصد بھی یہی ہے کہ اس طرح دھوکا دے کر تم ناچیز سرمایہ تو حاصل کربیٹھے ہو اور ایمان کا عظم س رمایہ گنوا بیٹھے ہو ۔
۲۔ وہ خدا سے دور ہیں ، اس سے راز و نیاز کی لذت سے محروم ہیں لہٰذا” جب وہ نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں تو سر تا پا کسالت، سستی او ربے حالی میں غرق ہوتے ہیں (وَ إِذا قامُوا إِلَی الصَّلاةِ قامُوا کُسالی) ۔
۳۔ وہ چونکہ خدا اور اس کے عظیم وعدوں پر ایمان نہیں رکھتے لہٰذا اگر کوئی عبادت یا کوئی نیک کام انجام بھی دیتے ہیں تو وہ بھی ریا کاری کے لئے نہ کہ خدا کے لئے ( یُراؤُنَ النَّاسَ ) ۔
۴۔وہ اگر کوئی ذکر بھی کرتے ہیں یا خدا کو یاد کرتے ہیں تو صمیم قلب سے نہیں او رنہ آگاہی و بیداری سے اور اگر ہوبھی تو بہت کم ( وَ لا یَذْکُرُونَ اللَّہَ إِلاَّ قَلیلاً )
۵۔ یہ لوگ سر گرداں اور بے ہدف جیتے ہیں ان کے پاس نہ زندگی کا کوئی پروگرام ہے نہ کوئی واضح راستہ ، نہ وہ مومنین میں سے ہیں او رنہ کفار میں سے (مُذَبْذَبینَ بَیْنَ ذلِکَ لا إِلی ہؤُلاء ِ وَ لا إِلی ہؤُلاء ِ ) ۔
توجہ رہے کہ ” مذبذب“ اسم مفعول ہے اس کا مادہ ” ذبذب“ ہے یہ ایک مخصوص صدا کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔
جب کوئی چیز آویزاں ہوں ہوا کی موجیں اسے حرکت دیں تو جو آواز اس ٹکراوٴ سے پیدا ہوتی ہے اسے ” ذبذب“ کہتے ہیں ، بعد ازاں یہ لفظ متحرک اشیاء سر گرداں اور بے ہدف لوگوں کے لئے بھی استعمال ہونے والی یہ لطیف ترین تعبیر ہے ۔ ضمناً یہ تعبیر اس مطلب کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے او روہ یہ ہے کہ ایسانہیں کہ منافقین کو پہچانا نہ جا سکے بلکہ ان یہ تذبذب ایک خاص آہنگسے ہم رنگ ہوتا ہے جس کی طررف توجہ کرنے سے وہ پہچانے جاتے ہیں ۔
اس تعبیر سے یہ حقیقت بھی معلوم ہوتی ہے کہ منافقین ایک معلق اور آویزاں جسم کی طرح ہیں اور ذاتی طور پر ان کے بس میں کچھ نہیں یہ تو مختلف ہوائیں چلتی ہیں جو انھیں ادھر آدھر کو ہوا کا رخ ہو ان کی حرکت بھی ادر کو ہوتی ہے ۔
آیت کے آخرمیں ان کا انجام اس طرح بیان کیا گیا ہے : وہ ایسے لوگ ہیں جن کے اعمال کے باعث اللہ نے اپنا دستِ حمایت ان سے اٹھا لیا او رانھیں بے راہ رویوں میں گمراہ چھوڑ دیا ہے اور ” جسے خدا گمراہ کردے اس کے لئے تمہیں کبھی راہ ِ نجات نہیں ملے گی “(وَ مَنْ یُضْلِلِ اللَّہُ فَلَنْ تَجِدَ لَہُ سَبیلاً ) ۔
خدا کے گمراہ کرنے سے متعلق او ریہ کہ اس سے اختیار اور ارادے کی نفی نہیں ہوتی...... تفسیر نمونہ جلد اول سورہٴ بقرہ آیت ۲۶ کے ذیل میں بحث کی جاچکی ہے ۔

 

۱۴۴۔یا اٴَیُّہَا الَّذینَ آمَنُوا لا تَتَّخِذُوا الْکافِرینَ اٴَوْلِیاء َ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنینَ اٴَ تُریدُونَ اٴَنْ تَجْعَلُوا لِلَّہِ عَلَیْکُمْ سُلْطاناً مُبیناً۔
۱۴۵۔إِنَّ الْمُنافِقینَ فِی الدَّرْکِ الْاٴَسْفَلِ مِنَ النَّارِ وَ لَنْ تَجِدَ لَہُمْ نَصیراً ۔
۱۴۶۔إِلاَّ الَّذینَ تابُوا وَ اٴَصْلَحُوا وَ اعْتَصَمُوا بِاللَّہِ وَ اٴَخْلَصُوا دینَہُمْ لِلَّہِ فَاٴُولئِکَ مَعَ الْمُؤْمِنینَ وَ سَوْفَ یُؤْتِ اللَّہُ الْمُؤْمِنینَ اٴَجْراً عَظیماً ۔
ترجمہ
۱۴۴۔اے ایمان والو! مومنین کو چھوڑ کر کفار کو اپنا ولی او رسہارا نہ بناوٴ کیا تم چاہتے ہو کہ ( ایسا کرکے ) اپنے خلاف بار گاہ الہٰی میں ایک واضح دلیل قائم کرلو ۔
۱۴۵۔ ( کیونکہ ) منافقین تو دوزخ کے سب سے نچلے در جے میں ہیں اور تمہیں ان کا ہر گز کوئی مدد گار نہیں ملے گا( لہٰذا دشمنان خدا کی دوستی سے پرہیز کرو کیونکہ یہ انفاق کی علامت ہے ) ۔
۴۶ٍ۔ مگر وہ جو تو بہ کرلیں اور اصلاح و تلافی کرلیں اور خدا( کے لطف کے دامن) سے وابستہ ہو جائیں او راپنے آپ کو خدا کے لئے خالص کرلیں وہ مومنین کے ساتھ ہو ں گے اور خدا اہل ِ ایمان کو اجر عظیم عطا کرے گا۔

 

مومنین کو تنبیہتفسیر
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma