عدالت ِاجتماعی

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 04
شان ِ نزول جوذات ایسی لا متناہی ملکیت اور بے پایاں قدرت رکھتی ہے وہ اپنے بندوں کو

گذشتہ آیات میں خصوصیت سے یتیموں او ربیویوں سے عدالت کے بارے میں احکام تھے اب زیر نظر آیت میں بلا استثناء ایک بنیادی او رکلی قانون کے ذریعے سب اہل ایمان کو اجرائے عدالت کا حکم دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ وہ عدالت قائم کریں اور عدالت سے کام لیں (۔یا اٴَیُّہَا الَّذینَ آمَنُوا کُونُوا قَوَّامینَ بِالْقِسْطِ) ۔
توجہ رہے کہ” قوامین “ ” قوام“ کی جمع ہے یہ مبالغے کا صیغہ ہے جس کا معنی ہے ” بہت قیام کرنے والا“ یعنی ہر حالت میں ، ہر کام میں ، ہر مقام پر اور ہر دور میں عدالت کے ساتھ قیام کرو تاکہ عمل تمہارے اخلاق او ر عدالت کا حصہ بن جائے اور اس سے انحراف تمہاری طبیعت ،مزاج اور روح کے خلاف ہو جائے ۔
” قیام“ شاہد یہاں اس بنا پر استعمال کیا گیا ہے کہ انسان کو چاہئیے کہ عام طور پر کام کرنے کے لئے اٹھ کھڑا ہواور کام کے پیچھے لگ جائے اس لئے کسی کام کے قیام کا مطلب یہ ہے کہ اس کام کے لئے عزم راسخ او رمضبوط ارادے سے اقدام کیاجائے ۔ اگر چہ وہ کام حکم قاضی کی مثل قیام و تحرک کا محتاج بھی نہ ہو ۔ نیز ممکن لفظ ”قیام “ کا استعمال اس لحاظ سے ہو کہ عام طور پر قائم اس چیز کو کہتے ہیں کہ جو زمین پر عمودی شکل میں ہو او رکسی طرف بھی تھوڑا سا جھکاوٴ بھی نہ رکھتی ہو یعنی تمہیں عدالت کا جراء اس طرح کرنا چاہئیے کہ تھوڑا سا انحراف بھی نہ ہو ۔
اس کے بعد تاکید کے لئے مسئلہ شہادت کے حوالے سے ارشاد ہوتا ہے : خاص طور پر شہادت اور گواہی کے معاملے میں تما مفادات اوتر تعلقات کو ایک طرف کرکے فقط خدا کے لئے گواہی دو اگر وہ وہ خود تمہاری ذات ،تمہارے ماں باپ اور اعزا و اقرباء کے نقصان میں ہو ( شُہَداء َ لِلَّہِ وَ لَوْ عَلی اٴَنْفُسِکُمْ اٴَوِ الْوالِدَیْنِ وَ الْاٴَقْرَبینَ) ۔
یہ بات تمام معاشروں میں موجود ہے اور خصوصاً زمانہ جاہلیت کا معاشرہ اس کا شکار تھا کہ عام طور پر گواہی دینے والے اپنی محبت و نفرت کے جذبات کے زیر اثر گواہی دیتے اور حق و عدالت کی ان کے ہاں کوئی اہمیت نہ ہوتی ۔ ابن عباس سے منقول ایک حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نو مسلم افراد مدینہ میں آجانے کے بعد بھی رشتہ داری کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے عزیزوں کے نقصان میں گواہی دینے سے احتراز کرتے تھے ۔ مندرجہ بالاآیت اسی ضمن میں نازل ہوئی اور اس کے ذریعے ایسے لوگوں کو تنبیہ کی گئی ۔ ۱
جیسا کہ آیت اشارہ کررہی ہے یہ کام روح ِ ایمان سے مطابقت نہیں رکھتا۔ حقیقی مومن وہی ہے جو حق اور عدالت کے سامنے کسی کا لحاظ نہ کرے یہاں تک کہ اپنے رشتہ داروں کے مفادات کی پرواہ نہ کرے ۔
اس جملے سے ضمنی طور پر معلوم ہوتا ہے کہ عدالت کو پیش نظر رکھتے ہوئے رشتہ دار ایک دوسرے کے نفع یا نقصان میں گواہی دے سکتے ہیں ( ہاں اس میں اس تہمت کا اندیشہ نہ ہو کہ طرفداری یا تعصب سے کام لیا جارہا ہے ) ۔
اس کے بعد اصولِ عدالت سے انحراف کے کچھ اور عوامل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے : نہ دولت مندوں کی دولت شہادت ِ حق سے مانع ہو اور نہ فقیر ، خدا اس کے حالات سے زیادہ آگاہ ہے ۔ پر وردگارکی حمایت کے مقابلے میں اہل ثروت و اہل اقتدار سچی گواہی دینے والے کو نقصان نہیں پہنچاسکتے اور نہ عدالت کے اجراء سے فقیرہی بھوکا رہ سکتا ہے ( إِنْ یَکُنْ غَنِیًّا اٴَوْ فَقیراً فَاللَّہُ اٴَوْلی بِہِما) ۔
دوبارہ تاکید کے طور پر حکم دیا گیا ہے : ہوا و ہوس کی پیروی نہ کرو، مبا دا اجرائے عدالت میں رکاوٹ پیدا ہوجائے ( فَلا تَتَّبِعُوا الْہَوی اٴَنْ تَعْدِلُوا ) ۔2
اس جملے سے اچھی طرح معلوم ہوتا جا تاہے کہ ظلم و ستم کا سر چشمہ ہوا پرستی ہے اور اگر کوئی معاشرہ ہوا پرست نہ ہو تو ظلم و ستم وہاں قدم ن ہیں رکھ سکتا۔
دوبارہ قیام عدالت کی اہمیت کے پیش نظر فرماتا ہے : اگر تم حق دار تک اس کا حق پہنچنے میں حائل ہو ئے تو یاحق میں تحریف کی یا حق آشکار ہو جانے کے بعد اس سے اعراض کیا تو خدا تمہارے اعمال سے آگاہ ہے (وَ إِنْ تَلْوُوا3
”تلووا“ در اصل تحریف حق اور حق میں تغیر و تبدل کی طرف اشارہ ہے ۔” تعرضوا“ حق کی مطابق حکم کرنے کے اعراض اور منہ موڑنے کے معنی میں ہے ۔ یہی بات امام باقر سے منقول ایک حدیث میں بیان کی گئی ہے ۔ (تفسیر تبیان جلد ۵ صفحہ ۳۵۶)
یہ امر قابل توجہ ہے کہ آیت میں ” خبیر “ کالفظ آیا ہے ” علیم “ کا نہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ” خبیر“ عموماً اسے کہتے ہیں جو کسی چیز کی جزئیات اور ذرہ ذرہ سے واقف ہو ۔ یہ اس طرف اشارہ ہے کہ خدا تعالیٰ حق سے تمہارے ذرا سے انحراف سے بھی واقف ہے چاہے تم اسے کسی نہانے سے کرو اور چاہے اسے حق بجانب قرار دے لو اور وہ اس کی سزا بھی دے گا ۔
زیر نظر آیت اجتماعی عدالت کے بارے میں اسلام کی گہری دلچسپی کو ظاہر کرتی ہے اور ا س کی ہر شکل و صورت کو مکمل طور پر واضح کرتی ہے اس سلسلے میں عدالت اجتماعی کے بارے میں ان چند جملو میں موجودطرح طرح کی تاکید یں اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ اسلام اس اہم انسانی مسئلے میں کس قدر حساس ہے البتہ یہ امر انتہائی افسوس ناک ہے کہ مسلمانوں کا عمل اور اسلام کے اس بلند پایہ حکم کے درمیان زمین و آسمان کا فاصلہ ہے اور مسلمانوں کی پسماندگی کا ایک عامل ان کا یہ طرز عمل بھی ہے ۔

۱۳۶۔ یا اٴَیُّہَا الَّذینَ آمَنُوا آمِنُوا بِاللَّہِ وَ رَسُولِہِ وَ الْکِتابِ الَّذی نَزَّلَ عَلی رَسُولِہِ وَ الْکِتابِ الَّذی اٴَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ وَ مَنْ یَکْفُرْ بِاللَّہِ وَ مَلائِکَتِہِ وَ کُتُبِہِ وَ رُسُلِہِ وَ الْیَوْمِ الْآخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلالاً بَعیداً۔
ترجمہ
۱۳۶۔ اے ایمان لانے والو! ( واقعی ) ایمان لے آوٴ خدا پر ، اس کے پیغمبر پر ، اس کی کتاب پر جو اس پر نازل ہوئی اور ان ( آسمانی) کتب پر جو اس سے پہلے بھیجی گئی ہیں اور جو شخص خدا، اس کے ملائکہ اس کی کتب ، اس کے رسل اور روزِ آخرت کا انکار کرے وہ بہت دور کی گمراہی میں مبتلا ہے ۔

 


۱- المنار جلد ۵ صفحہ ۴۵۵۔
2۔لفظ. تعداد ممکن ہے ” عدالت“ کے مادہ سے ہو یا ”عدول“ کے مادہ سے ہو اگر ” عدالت“ کے مادہ سے ہو تو اس کا معنی یہ ہوگا ” فلا تتبعوا الھوی لان تعدلوا“ ( ہوس پرستی کی راہ نہ اپناوٴ تاکہ تم عدالت کا جر ا کرسکو) اور اگر ” عدول “ کے مادہ سے ہوتو اس کا معنی یوں ہوگا فلا تتبعوا الھوی فی ان تعدلوا( انحراف حق کی راہ میں ہو وہوس کی پیروی نہ کرو) ۔
3۔”تلووا“ مادہ ”لی “ ( بروزن”طی“) سے ہے اس کا معنی ہے ” روکنا“ یا تاخیر ، یہاں در اصل پیچ و تاب دینے کی معنی میں آیاہے ۔
اٴَوْ تُعْرِضُوا فَإِنَّ اللَّہَ کانَ بِما تَعْمَلُونَ خَبیراً) ۔
 
شان ِ نزول جوذات ایسی لا متناہی ملکیت اور بے پایاں قدرت رکھتی ہے وہ اپنے بندوں کو
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma