خیانت کرنے والوں کی حمایت نہ کرو

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 04
تفسیر چند اہم نکات

خدا ان آیات میں پہلے تو پیغمبر اکرم کو وصیت کرتا ہے کہ اس آسمانی کتاب کو بھیجنے کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کے درمیان حق و انصاف کے اصول جاری ہوں :ہم نے یہ کتاب حق کے ساتھ تم پر نازل کی ہے تاکہ اس کے ذریعے خدا نے تجھے جو علم دیا ہے لوگوں کے درمیان فیصلے کرو ۔
(إِنَّا اٴَنْزَلْنا إِلَیْکَ الْکِتابَ بِالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِما اٴَراکَ اللَّہُ )
اس کے بعد کہتاہے کہ کبھی بھی خیانت کر نے والوں کی حمایت نہ کرو( وَ لا تَکُنْ لِلْخائِنینَ خَصیماً) ۔
اگر چہ بظاہر روئے شخن پیغمبر اکرم کی طرف ہے لیکن اس میں شک و شبہ نہیں کہ یہ ایک عمومی حکم ہے جو تمام قاضیوں اور فیصلہ کرنے والوں کے لئے ہے اس بنا پر اس قسم کے خطاب کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ ممکن ہے کہ اس قسم کا معاملہ پیغمبر اکرم کے ساتھ پیش آیا ہے کیونکہ اس مذکورہ حکم کا تعلق تمام افراد سے ہے ۔
بعد والی آیت میں پیغمبر اکرم کو بار گاہ ِ خدا وندی سے طلب مغفرت کے لئے کہا گیا ہے(وَ اسْتَغْفِرِ اللَّہَ) کیونکہ خدا بخشنے والا اور مہر بان ہے ( إِنَّ اللَّہَ کانَ غَفُوراً رَحیماً ) ۔
یہ کہ یہاں استغفار کس لئے ہے اس میں کئی احتمال ہیں :
پہلا یہ کہ استغفار اس ترک اولیٰ کی بنا پر ہے جو فیصلہ میںجلدی کرنے کی وجہ سے آیات کی شانِ نزول کے بارے میں آیا ہے یعنی اگر چہ وہی اعتراف کی نوعیت اور طرفین کی گواہی تمہارے فیصلہ کرنے کے لئے کافی تھی لیکن بہتریہ تھا کہ پھر بھی اس معاملے میں مزیدتحقیق کی جاتی ۔
دوسرا یہ کہ پیغمبر اکرم نے اسی شانِ نزول کے متعلق اسلام کے قضائی قوانین میں مطابق فیصلہ کیا اور چونکہ خیانت کرنے والوں کی سند اور ثبوت ظاہری طور پر زیادہ مستحکم تھے لہٰذا انھیں حق بجانب قرار دیا گیا پھر حق کے سامنے آجانے اور حق داروں کو حق مل جانے کے بعد حکم دیتا ہے کہ خدا سے مغفرت طلب کرو نہ کہ اس بنا پر کہ کوئی گناہ سر زد ہوا ہے بلکہ اس وجہ سے کہ بعض لوگوں کی سازش کی وجہ سے ایک مسلمان کا حق سلب ہو رہا تھا

( یعنی استغفارحکم واقعی ہے نہ کہ حکم ظاہری)
یہ احتمال بھی بیان ہوا ہے کہ یہاں استغفار کا حکم طرفین دعویٰ کو دیا گیا ہے جنہوں نے دعویٰ پیش کیا اور پھر اس سلسلے میں کئی غلط گواہیاں دیں ۔ پیغمبر اکرم سے ایک حدیث میں منقول ہوا ہے آپ نے فرمای:
انما انا بشر و انکم تختصمون الیٰ و لعل بعضکم یکون الحن بحجة من بعض فاقضی بخومااسمع فمن قضیت لہ من حق اخیہ مشیئا فلا یاخذہ فانما اقطع لہ و قطعة من النار۔
میں تمہاری طرح ایک بشر ہوں( ظاہری امور میں فیصلے کرنے پر مامور ہوں ) شاید تم میں سے بعض وہی دلیل بیان کرتے وقت بعض دوسروں سے زیادہ قوی ہوں اور میں بھی اسی دلیل کی بنا پر فیصلہ کروں گا با وجود اس کے جان لو کہ میرا فیصلہ جو طرفین کے دلائل کے سامنے آنے پر صادر ہوتا ہے وہ واقعی حق کو نہیں بدل سکتا لہٰذا اگر میں کسی کے حق میں (ظاہر کے مطابق) فیصلہ کردوں اور دوسرے کا حق اسے دے دوں تو میں جہنم کی آگ کا ایک ٹکڑا اسے دے رہاہوں اسے چاہئیے کہ وہ اس سے بچے او رنہ لے ۔ ۱
معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبراکرم کا فریضہ یہ ہے کہ وہ ظاہر کے مطابق اور دعویٰ کرنے والے طرفین کے دلائل کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ کریں ۔ البتہ اس قسم کے فیصلوں سے عام طور پر حق دار کو حق مل جاتا ہے لیکن پھر بھی ممکن ہے کہ بعض اوقات ظاہراًدلیل اور گواہوں کی گواہی واقع کے مطابق نہ ہوتو یہاں خیال کرنا چاہئیے کہ فیصلہ کرنے والے کا حکم واقع کو نہیں بدل سکتا اور اس سے حق ، باطل اورباطل حق نہیں ہوسکتا۔

 

۱۰۷۔وَ لا تُجادِلْ عَنِ الَّذینَ یَخْتانُونَ اٴَنْفُسَہُمْ إِنَّ اللَّہَ لا یُحِبُّ مَنْ کانَ خَوَّاناً اٴَثیماً ۔
۱۰۸۔یَسْتَخْفُونَ مِنَ النَّاسِ وَ لا یَسْتَخْفُونَ مِنَ اللَّہِ وَ ہُوَ مَعَہُمْ إِذْ یُبَیِّتُونَ ما لا یَرْضی مِنَ الْقَوْلِ وَ کانَ اللَّہُ بِما یَعْمَلُونَ مُحیطاً
۱۰۹۔ہا اٴَنْتُمْ ہؤُلاء ِ جادَلْتُمْ عَنْہُمْ فِی الْحَیاةِ الدُّنْیا فَمَنْ یُجادِلُ اللَّہَ عَنْہُمْ یَوْمَ الْقِیامَةِ اٴَمْ مَنْ یَکُونُ عَلَیْہِمْ وَکیلاً ۔
ترجمہ
۱۰۷۔ اور جنہوں نے اپنے آپ سے خیانت کی ہے ان کا دفاع نہ کرو، کیونکہ خدا خیانت کرنے والے گنہ گاروں کو دوست نہیں رکھتا۔
۱۰۸۔ وہ اپنے برے کاموں کو لوگوں سے چھپا تے ہیں لیکن خدا سے نہیں چھپا تے اور رات کی مجالس میں ایسی باتیں کرتے تھے جن سے خدا راضٰ نہ تھا ان کے ساتھ تھا اور وہ جو عمل کرتے ہیں خدا اس پر محیط ہے ۔
۱۰۹۔جی ہاں تم تو وہی ہو جنہوں نے اس جہان کی زندگی میں ان کو بچا یا لیکن کون ہے جو خدا کے سامنے قیامت کے دن ان کا دفاع کرے گا یا کون ہے جو ان کا وکیل اور حامی ہوگا۔

 


۱- المنار ،ج۵ ص ۳۹۴منقول از صحیح بخاری و صحیح مسلم ۔
اس حدیث ۲
۲- پہلی احتمال اور شان نزول والی روایات اور اس روایت کا ظہور قواعد مذہب کے خلاف ہے کیونکہ آنحضرت منصوص قرآن ترک اولیٰ سے بھی معصوم تھے
(مترجم )
 
تفسیر چند اہم نکات
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma