شان ِنزول

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 04
طرفین سے ساز باز رکھنے والوں کی سزاتفسیر

مختلف روایات سے جو آیت کی شانِ نزول کے بارے میں آئی ہیں اور مفسرین نے ہر قسم کی تفاسیر میں انھیں نقل کیا ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ قبائل عرب میں دو قبیلے ” بنی حمزہ“ اور ” اشجع “ نام کے تھے ان میںسے پہلے قبیلے نے مسلمانوں کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا عہد کیا تھا اور قبیلہ اشجع نے بھی بنی حمزہ سے ایسا معاہدہ کر رکھا تھا ۔ بعض مسلمان بنی حمزہ کی طاقت اور عہد شکنی سے خوفزدہ تھے لہٰذا انھوں نے پیغمبر اکرم کو تجویز پیش کی کہ اس سے پہلے کہ وہ حملہ آور ہوں مسلمان ان پر حملہ کردیں ۔ پیغمبر اکرم نے فرمایا:
” کلا فانھم ابر العرب بالوالدین ولو صلھم للرحم اوفاھم بالعھد “
نہیں کبھی یہ کام نہ کریں کیونکہ وہ تمام قبائل عرب میں اپنے ماں باپ کے ساتھ بہتر سلوک کر نے والے ہیں اپنے عزیز و اقارب پر سب سے زیادہ مہر بان ہیں اور بہترایفائے عہد کر نے والے ہیں ۔
کچھ عرصہ بعد مسلمانوں کو اطلاع ملی کی اشجع قبیلہ کے سات سو افردا مسعود بن وجیلہ کی سرکرد گی میں مدینہ کے قریب پہنچ چکے ہیں پیغمبر اکرم نے اپنے نمائندے ان کے پاس بھیجے کہ وہ کس مقصد کے لئے آئے ہیں انھوں نے جواب دیا کہ ہم محمدصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کرنے کرنے کے لئے آئے ہیں جب پیغمبر اکرم کو یہ معلوم ہوا تو حکم دیا کہ بہت سی مقدار میں کھجوریں تحفہ کے طوران کے پاس لے جاوٴ اس کے بعد حضور نے ان سے ملا قات کی تو انھوں نے کہا کہ ایک طرف ہم آپ کے دشمنوں سے مقابلے کی سکت نہیں رکھتے کیونکہ ہماری تعداد کم ہے اور دوسری طرف نہ آپ سے مقابلے کی ہم طاقت رکھتے ہیں نہ آپ سے ہم لڑنا چاہتے ہیں ۔
کیونکہ ہماری سکونت آپ کے قریب نہیں ہے لہٰذا ہم اس لئے آئے ہیں کہ آپ سے جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کریں ۔ اس موقع پر درج بالاآیات نازل ہوئیں جن میں اس ضمن میں مسلمانوں کو ضروری احکام جاری کئے گئے ۔ چند ایک روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت کا ایک حصہ قبیلہ ” بنی مدلج “ کے باےر میں نازل ہوا ہے وہ لوگ پیغمبر اکرم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انھوں نے کہا کہ ہم نہ تو آپ کے ہم نواہیں اور نہ ہی آپ کے مخالف کوئی قدم اٹھائیں گے ۔
پیغمبر اکرم نے ان سے جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کرلیا ۔
تفسیر صلح کی پیش کش کا استقبال ان منافقین کے لئے جو دشمنان اسلام کے ساتھ ملے ہوئے ہیں اس سخت حکم کے بعد زیر نظر آیت میں حکم دیتا ہے کہ اس قانون سے دو گروہ مستثنیٰ ہیں :
۱۔ جو تمہارے کسی ہم پیمان کے ساتھ مربوط ہیں اور انھوں نے اس سے معاہدہ کررکھا ہے
(إِلاَّ الَّذینَ یَصِلُونَ إِلی قَوْمٍ بَیْنَکُمْ وَ بَیْنَہُمْ میثاقٌ) ۔
۲۔ وہ اپنی مخصوص حالت کی وجہ سے ایسے حالات سے دو چار ہیں کہ نہ تو وہ تمہارے ساتھ مقابلے کی طاقت رکھتے ہیں نہ تمہارا ساتھ دے سکتے ہیں اور نہ ہی اپنے قبیلہ سے ٹکرانے کی حوصلہ رکھتے ہیں ( اٴَوْ جاؤُکُمْ حَصِرَتْ صُدُورُہُمْ اٴَنْ یُقاتِلُوکُمْ اٴَوْ یُقاتِلُوا قَوْمَہُمْ ) ۔
ظاہر ہے کہ پہلے گروہ کو معاہدہ کے احترام کی وجہ سے اس قانون سے مستثنیٰ ہو نا چاہئیے اور دوسرا گروہ بھی اگر چہ مقدور نہیں ہے اسے چاہئیے کہ حق کی تلاش کے بعد اپنا رشتہ جوڑ لے ۔ لیکن چونکہ وہ غیر جانبدار رہنے کا اعلام کرتا ہے لہٰذا اس پر اعتراض کرنا عدل او رمردانگی کے اصولوں کے خلاف ہے اس کے بعد اس بنا پر کہ مسلمان اپنی شاندار کامیابیوں پر مغرور نہ ہو جائیں اور انھیں اپنی لشکری قوت او رمہارت کا مرہونِ منت سمجھیں اس غیر جانبدار گروہ کے مقابلہ میں ان کے انسانی جذبات کو تحریک دیتے ہوئے فرماتا ہے : اگر خدا چاہے تو ان ( کمزور) لوگوں کو تم پر مسلط کرسکتا ہے تاکہ وہ تم سے بر سر پیکار ہوں ۔ وَ لَوْ شاء َ اللَّہُ لَسَلَّطَہُمْ عَلَیْکُمْ فَلَقاتَلُوکُمْ ) ۔
لہٰذا ہمیشہ کامیابیوں پر اپنے خدا کو نہ بھولو او رکسی جہت بھی اپنی طاقت پر غور نہ کرو ۔ نیز کمزور لوگوں کو معاف کرنے کو اپنے نقصان میں نہ سمجھو ۔ آیت کے آخر میں دوبارہ آخری گروہ کے لئے تاکید زیادہ واضح انداز میں کرتے ہوئے کہتا ہے : اگر وہ تم سے جنگ نہ کریں اور صلح و مصالحت کی پیش کش کریں تو خدا تمہیں ان سے جنگ کرنے کی اجازت نہیں دیتا ۔ تمہارا فرض ہے کہ جو ہاتھ صلح کے لئے تمہاری طرف بڑھے اسے مضبوطی سے تھا م لو (فَإِنِ اعْتَزَلُوکُمْ فَلَمْ یُقاتِلُوکُمْ وَ اٴَلْقَوْا إِلَیْکُمُ السَّلَمَ فَما جَعَلَ اللَّہُ لَکُمْ عَلَیْہِمْ سَبیلاً) ۔
قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ قرآن اس آیت میں اور چند دوسری آیات میں صلح کی پیش کش کو ” القاء سلام “ ”صلح پھینکا“قرار دیتا ہے ۔ ممکن ہے یہ اس معنی کی طرف اشارہ ہو کہ طرفین نزاع، صلح سے پہلے عموماً ایک دوسرے سے علیحدہ ہوتے کاتے ہیں یہاں تک صلح کی پیش کش کو بھی بڑے محتاط ہ وکر دیکھتے ہیں گویا ایک دوسرے سے فاصلہ پرہتے ہوئے اس پیش کش کو ایک دوسرے کی طرف پھینکتے ہیں ۔


۹۱۔سَتَجِدُونَ آخَرینَ یُریدُونَ اٴَنْ یَاٴْمَنُوکُمْ وَ یَاٴْمَنُوا قَوْمَہُمْ کُلَّما رُدُّوا إِلَی الْفِتْنَةِ اٴُرْکِسُوا فیہا فَإِنْ لَمْ یَعْتَزِلُوکُمْ وَ یُلْقُوا إِلَیْکُمُ السَّلَمَ وَ یَکُفُّوا اٴَیْدِیَہُمْ فَخُذُوہُمْ وَ اقْتُلُوہُمْ حَیْثُ ثَقِفْتُمُوہُمْ وَ اٴُولئِکُمْ جَعَلْنا لَکُمْ عَلَیْہِمْ سُلْطاناً مُبینا۔
ترجمہ
۹۱۔ بہت جلد تم ایسے لوگوں سے ملوگے جو چاہتے ہیں کہ تمہاری طرف سے بھی امان میں ہوں اور اپنی قوم کی طرف سے بھی مامون ہوں (یہ مشرک ہیں لہٰذا تمہارے سامنے ایمان کا دعوی ٰ کرتے ہیں ) لیکن جس وقت وہ فتنہ ( اور بت پرستی) کی طرف پلٹ جاتے ہیں تو وہ سر کے بل اس میں ڈوب جاتے ہیں اگر وہ تم سے الجھنے سے کنارہ کش نہ ہوئے اور انھوں نے صلح کی پیش کش نہ کی اور تم سے دستبردار نہ ہوئے تو انھیں جہاں کہیں پاوٴ قید کرلو( یا) انھیں قتل کردو اور یہ وہ لوگ ہیں کہ جن پر ہم نے تمہارا واضح تسلط قرار دیا ہے ۔

شانِ نزول

در ج بالا آیت کے لئے مختلف شانِ نزول منقول ہو ئے ہیں زیادہ مشہور ان میں سے یہ ہے کہ اہل مکہ میں سے کچھ لوگ پیغمبر اکرم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دھو کے بازی اور چالبازی کے طور پر اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کیا ۔ لیکن جب بھی وہ قریش اور ان کے بتوں کے سامنے جاتے تو ان کے بتوں کی عبادت اور پرستش شروع کردیتے ۔ اس طرح وہ چاہتے تھے کہ وہ اسلام اور قریش دونوں سے محفوظ رہیں ، دونوں طرف سے فائدہ اٹھائیں اور کسی سے انھیں نقصان نہ پہنچے اصطلاح کے مطابق دونوں گروہوں سے دو طرفہ تعلقات استوار رکھیں ۔ اس پر زیر نظر آیت نازل ہوئی جس میں اس گروہ کے خلاف سخت کار روائی کا حکم دیا گیا۔

 

طرفین سے ساز باز رکھنے والوں کی سزاتفسیر
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma