کلام خدا میں ” عسی ٰ“ اور ” لعل “ کے معنی

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 04
اچھے یا برے کام کی تحریک دلانے کا نتیجہ ہر شخص اپنے فرائض کا جوابدہ ہے

لفظ ” عسیٰ “ عربی لغت میں شائد کے معنی میں ردد کا مفہوم بھی دیتا ہے اور ” لعل“ پر امید ہونے ، انتظار اور ایسے امر کی توقع کے معنی میں آتا ہے آئندہ جنکے وجود کا یقین نہ ہو بلکہ احتمال ہو ۔ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس قسم کے الفاظ انسانوں کی گفتگو میں آنا تو فطری اور عین طبعی ہے کیونکہ انسان تمام مسائل سے آگاہ نہیں ہے ۔ اس کے علاوہ اس کی صلاحیت و قدرت بھی محدود ہے اور وہ جو کچھ کرے اس کے انجام کو اپنی مرضی کے تابع نہیں کرسکتا۔ لیکن وہ خدا جو ماضی ، حال اور مستقبل سے مکمل طو رپر باخبر ہے اور جو کرنا چاہے اس کا اختیار رکھتا ہے اس کے لئے ”جہالت “ی ا” بے اختیار“ ہونے کے الفاظ استعمال کرنے کا تصور بھی نہیں ہو سکتا اس لئے بہت سے علماء یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اس قسم کے الفاظ جو اس کے کلام میں استعمال ہوں وہ اپنے اصل معنی میں استعمال نہیں ہوتے بلکہ ان کے کچھ اور معنی نکلتے ہیں مثلاً” عسی ٰ“ وعدہ کے معنی اور ” لعل “ طلب کے معنی میں ہے ۔
لیکن یہ حقیقت ہے کہ یہ الفاظ کلام خدا میں بھی اپنے وہی اصلی معانی رکھتے ہیں اور ان کا لازمہ جہالت اور عدم اختیار نہیں ہے بلکہ یہ الفاظ ایسے مواقع پر استعمال ہوتے ہیں کہ جہاں مقصد تک پہنچنے کے لئے کئی ایک مقامات کی ضرورت ہوتی ہے تو جس وقت ان میں سے ایک یا کئی مقدمات حاصل ہو جائیں تو پھر بھی اس مقصد کے موجود ہونے کا قطعی اور یقینی حکم نہیں لگا یا جا سکتا بلکہ چاہیئے کہ اسے احتمالی حکم کے طور پر بیان کیا جائے ۔
مثلاً قرآن کہتا ہے :۔
واذا قرء القراٰن فاستمعو ا لہ و انصتوا لعلکم ترحمون
جب قرآن پڑھا جائے تو کا دھرکے سنو اور خاموش رہو ، امید ہے کہ خدا کی رحمت تمہارے شامل حال ہو ۔ (اعراف،۲۰۴)
واضح ہے کہ صرف قرآن کی آیات کو کان دھر نے کے سننے سے خدا کی رحمت انسان کے شامل حال نہیں ہوتی بلکہ یہ تو ایک مقدمہ ہے اس کے علاوہ بھی دیگر لوازم ہیں جن میں ان آیات کا فہم و ادراک اور اس کے بعد ان احکام پر عمل در آمد جو ان آیات میں موجود ہیں بھی شامل ہیں ۔ لہٰذا اس قسم کے مواقع پر ایک مقدمہ کے موجود ہونے سے نتیجہ کے حصول کا قطعی اور یقینی حکم نہیں لگا یا جا سکتا بلکہ اس ے ایک احتمالی حکم کے طور پر بیان کرنا ہو گا دوسرے لفظوں میں کلامِ خدا میں اس قسم کی تعبیرات تو بیدار کرنے اور سننے والے کو اس طرف متوجہ کرنے کے لئے ہیں اس کا م کے علاوہ کچھ اور شرائط و مقدمات بھی مقصد تک پہنچنے کے لئے ضروری ہیں مثلاً اسی مثال میں خدا کی رحمت کا شعور حاصل کرنے کے لئے قرآن کو غور سے سننے کے ساتھ اس پر عمل کرنا بھی ضروری ہے ۔
زیر بحث آیت پر بھی یہ گفتگو مکمل طور پر صادق آتی ہے کیونکہ کفار کی طاقت صرف مومنین کو دعوت جہاد دینے اور انھیں شوق جہاد دینے سے ختم نہیں ہوسکتی بلکہ اس کے ساتھ جہاد کے باقی لائحہ عمل پر عملدر آمد بھی ضروری ہے تاکہ اصل مقصد حاصل ہو سکے اس بنا پر ضروری نہیں ہے کہ الفاظ جب خدا کے کلام میں آئیں تو ان کے حقیقی معنی سے صرف نظر کر لیا جائے ۔ 1


۸۵۔ مَنْ یَشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةً یَکُنْ لَہُ نَصِیبٌ مِنْہَا وَمَنْ یَشْفَعْ شَفَاعَةً سَیِّئَةً یَکُنْ لَہُ کِفْلٌ مِنْہَاوَکَانَ اللهُ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ مُقِیتًا
ترجمہ
۸۵۔جو شخص نیک کام کی تحریک دے اس میں اس کا حصہ ہوگا اور جو برے کام کے لئے ابھارے گا تو اس میں سے ( بھی ) اسے حصہ ملے گا۔ اور خدا ہر چیز کا حساب کرتا اور اسے محفوظ رکھتا ہے ۔
تفسیر
 


1-راغب نے کتاب مفردات میں اس قسم کے الفاظ( عسیٰ وغیرہ ) کی تفسیر میں ایک دوسرا احتمال بھی بیان کیا ہے اور وہ یہ کہ ان سے مخاطب اور سننے والے کو امید دلانا مقصود ہے ۔ نہ کہ کہنے والے کی امید بیان کرنا اور واضح تر الفاظ میں جب خدا کہتا ہے ” عسی و لعل “ تو اس کا معنی یہ نہیں ہے کہ میں امید رکھتا ہوں بلکہ اس کا معنی یہ ہے کہ تم امید رکھو ۔

 

اچھے یا برے کام کی تحریک دلانے کا نتیجہ ہر شخص اپنے فرائض کا جوابدہ ہے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma