افواہیں پھیلانا

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 04
شان ِ نزول چند اہم نکات

اس آیت میں منافقین اور ضعیف الایمان لوگوں کے ایک اور منفی عمل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : وہ ایسے لوگ ہیں کہ جب انھیں مسلمانوں کی فتح یا شکست کے متعلق خبریں پہنچتی ہیں تو وہ تحقیق کے بغیر انھیں لوگوں میں پھیلاتے ہیں جب کہ بیشتر یہ خبریں بے بنیاد ہوتی ہیں اور دشمنوں کی جانب سے خاص مقاصد کے لئے گھڑی جاتی ہیں ، ان کا شہرت پانا مسلمانوں کے لئے ضرر رساں ہوتا ہے
(وَإِذَا جَائَہُمْ اٴَمْرٌ مِنَ الْاٴَمْنِ اٴَوْ الْخَوْفِ اٴَذَاعُوا بِہِ)
حالانکہ ان کی ذمہ داری ہے کہ اس قسم کی خبریں سب سے پہلے اپنے رہبروں اور پیشواوٴں کے سامنے رکھیں اور ان کی وسیع اطلاعات اور گہری فکر سے استفارہ کریں اور بلا وجہ نہ تو مسلمانوں کو اچھے نتائج کے غرور میں مبتلا کریں جو خیالی کامیابیوں سے پیدا ہوتے ہیں اور نہ شکست کی جھوٹی خبروں سے ان کی ہمتوں کو پست کریں ۔
( وَلَوْ رَدُّوہُ إِلَی الرَّسُولِ وَإِلَی اٴُوْلِی الْاٴَمْرِ مِنْہُمْ لَعَلِمَہُ الَّذِینَ یَسْتَنْبِطُونَہُ مِنْہُمْ )
” یستنبطونہ“
اصل میں نبط ( بر وزن فقط) کے مادے سے ہے اس سے مرادوہ پہلا پانی ہے جو کنویں سے نکالتے اور زمین کی تہہ سے حاصل کرتے ہیں اسی بناپر ہر حقیقت کے مختلف دلائل وشواہد سے استفادہ کرنے اور موجود مدارک سے استخراج کرنے کو ” استنباط“ کہا جاتا ہے چاہے یہ کام فقہی مسائل میں ہو یا فلسفانہ ، سیاسی اور علمی مسائل میں جو تشخیص کی قدرت رکھتے ہوں ، اور مختلف مسائل پر کافی دسترس رکھتے ہوں اور جو حقائق کو بے بنیاد افواہوں سے اور صحٰح مطالب کو غلط امر سے الگ کرکے لوگوں تک پہچائیں ، اس طرح کے لوگوں میں پہلا درجہ پیغمبراکرم اور آپ کے جانشین ائمہ اہل بیت(علیه السلام) کا ہے اور دوسرے درجہ میں ایسے علماء ہیں جو ان مسائل میں صاحبِ نظر ہیں ۔ جیسا کہ تفسیر نور الثقلین میں اس آیت کے ضمن میں امام باقر علیہ السلام سے منقول ہے آپ(علیه السلام) نے فرمایا:
” ھم الائمہ“ یعنی اس آیت سے مراد آئمہ اہلِ بیت ہیں ۔
اور اس مضمون کی دوسری روایات بھی نقل ہوئی ہیں ممکن ہے اس طرح کی روایات پر لوگ اعتراض کریں کہ رسول اللہ تو آیت کے نزول کے وقت موجود تھے لیکن آئمہ اہل بیت (علیه السلام) کو منصبِ امامت نہیں ملا تھا اس اعتراض کا جواب واضح ہے کیونکہ یہ آیت پیغمبر اکرم کے زمانے کے ساتھ تو مخصوص نہیں ہے بلکہ یہ آیت تو ایک مکمل قانون ، تمام ادوار اور زمانوں کے لئے ہے جو دشمنوں اور نادان مسلمانو کی طرف سے مسلمانوں کے درمیان غلط خبروں کی اشاعت کے لئے بیان کیا گیا ہے ۔

غلط خبریں اور افواہیں پھیلانے کے نقصانات

مختلف معاشروں کو جو بڑے مسائل در پیش ہوتے ہیں اور جو معاشروں سے اجتماعی فکر ، افہام و تفہیم اور ہم آہنگی کو ختم کر دیتے ہیں ان کا سبب جھوٹی خبریں گھڑنا اور ان کی نشر و اشاعت ہے اس طرح سے کہ بعض اوقات ایک منافق ایک غلط خبر گھڑ لیتا ہے وہ چند افراد تک پہنچاتا ہے اور وہ بلا تحقیق اس کی نشر و اشاعت کرنے لگتے ہیں اور شاید کچھ اس میں اپنی طرف سے اضافے بھی کرتے ہیں اس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ وہ کافی حد تک لوگوں کی فکری توانائی ضائع کر دیتے ہیں اور لوگوں کو اس طرف مشغول کرکے انھیں اضطراب اور پریشانی میں مبتلا کردیتے ہیں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اس طرح کی خبریں لوگوں کے اعتماد کو متزلزل کردیتی ہیں اور معاشرے کو اہم فرائض کی انجام دہی سے سست روا اور متردد کردیتی ہیں ۔ اگر چہ وہ گروہ اور معاشرے جن میں جبر ہے اور ان کے گلے گھونٹ دیئے گئے ہیں ان میں بی جھوٹی خبریں گھڑنا اور ان کی نشر و اشاعت کرنا ایک قسم کے مقابل؛ے یا انتقام جوئی کے زمرے میں آتا ہے لیکن صحیح معاشروں میں غلط خبروں کی نشر و اشاعت بہت زیادہ نقصان دہ ہے ۔ اگر اس قسم کی خبریں قابل، مشیتاور مفید افراد کے متعلق ہوں تو وہ انھیں خدمات اور کار نامے انجام دینے کے معاملے میں دلِ سرد اور سست کردیتی ہیں اور بعض اوقات ان کی برس ہا برس کی حیثیت کو بر باد کردیتی ہیں ۔ ولوگوں کو ان کے وجود کے فوائد سے محروم کردیتی ہیں ۔ اسی بنا پر اسلام صراحت کے ساتھ جھوٹی خبریں گھڑنے کے عمل سے جنگ کرتا ہے اور جعل سازی، جھوٹ اور تہمت گوئی اور اس کی نشر و اشاعت بھی ممنوع قرار دیتا ہے ۔ درج بالا آیت اس کا ایک نمونہ ہے ۔
اس کے بعد آیت کے آخر میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اگر فضل و رحمت تمہارے شامل حال نہ ہوتی اور پر وردگار کے مقرر شدہ رہنماوٴں کے ذریعے تم اس قسم کی جھوٹی خبروں اور ان کے برے نتائج سے چھٹکارہ حاصل نہ کرتے تو تم میں سے بہت سے لوگ شیطانی راستوں پر چل پڑتے اور قلیل افراد ایسے رہ جاتے جو شیطان کی پیروی سے اجتناب کرتے (وَلَوْلاَفَضْلُ اللهِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُہُ لاَتَّبَعْتُمْ الشَّیْطَانَ إِلاَّ قَلِیلً) ۔
یعنی پیغمبر اور صاحب نظر و اہل بصیرت علماء ہی جو غلط مشتہر ہونے والی خبروںکے وسوسو ں سے بچ سکتے ہیں لیکن معاشرے کی اکثریت اگر صحیح رہبری سے محروم رہ جائے تو من گھڑت خبروںاور ان کے ضرررساں اثرات سے نہیں بچ سکتی۔۱


۸۴۔ فَقَاتِلْ فِی سَبِیلِ اللهِ لاَتُکَلَّفُ إِلاَّ نَفْسَکَ وَحَرِّضْ الْمُؤْمِنِینَ عَسَی اللهُ اٴَنْ یَکُفَّ بَاٴْسَ الَّذِینَ کَفَرُوا وَاللهُ اٴَشَدُّ بَاٴْسًا وَاٴَشَدُّ تَنکِیلًا ۔
ترجمہ
۸۴۔راہ خدا میں جنگ کرو ۔ تم صرف اپنی ذمہ داری کے جواب وہ ہو او رمومنین کو ( اس کام کا )شوق دلاوٴ۔امید ہے کہ خدا کافروں کی قوت کو روک دے

( چاہے تم اکیلے ہی میدان میں چلے جاوٴ) خدا کی قدرت بہت زیادہ ہے اور اس کی سزا دردناک ہے ۔

 


۱- جو کچھ ہم نے کہا اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ ” الاقلیلاً“ ” اتبعھم “ کی ضمیر سے ” مستثنیٰ ہے اور آیت میں کسی قسم کی تقدیم و تاخیر نہیں ہے

 

 (غور کیجئے گا) ۔

 

شان ِ نزول چند اہم نکات
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma