وہ لوگ جو ہماری آیتوں کا انکار کرتے ہیں

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 03
ہم کافروں کو آگ میں ڈالیں گے جبت و طاغوت

گذشتہ دو آیتوں کی تفسیر میں لکھا جاچکا ہے کہ یہودیوں نے مکہ کے بت پرستوں کی ہمدردی حاصل کرنے کے لئے یہ گواہی دی کہ قریش کی بت پرستی مسلمانوں کی خدا پرستی سے بہتر ہے ۔ یہاں تک کہ انہوں نے خو د بتوں کے آگے ماتھا رگڑکر اس آیت میں اس نکتہ کی یاد دہانی کرائی گئی ہے کہ دو دلیلوں کی وجہ سے ان کا فیصلہ کو ئی حیثیت اور قیمت نہیں رکھتا۔
۱۔ وہ معاشرے میں ایسی حیثیت، مرتبہ اور قدر و قیمت نہیں رکھتے کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کرسکیں ۔ اس نے کبھی حکومت یا انصاف کی خدمت انہیں نہیں سونپی کہ وہ اس کام کی طرف قدم بڑھا سکیں ( ام لھم نصیب من الملک)۔ اس کے علاوہ کوئی مادی ،روحانی ، معنوی او رباطنی طورپر لوگوں پرحکومت کرنے کی لیاقت و قابلیت نہیں رکھتے۔ کیونکہ ان میں دوسروں پر بھروسہ کرنے کی روح ہی نہیں ۔ اگر انہیں یہ حیثیت مل بھی جائے تو وہ کسی شخص کو کوئی حق دینے کے لئے تیار نہ ہوں گے بلکہ تمام اختیارات اور خصائص اپنے ساتھ مخصو ص کرلیں گے ۔ (فاذا ً لایوٴتون الناس نقیراً)۱
اس بات کو مد نظر کو رکھتے ہوئے کہ یہودیوں کا جذبہ انصاف ایسا ہے کہ وہ ہمیشہ یا تو اپنے حق میں فیصلہ دیتے ہیں یا پھر ان کے حق میں جو ان کی راہ پر گامزن ہوں ، اس لئے مسلمان کبھی اس قسم کی باتوں سے پریشان نہ ہوں ۔
۲۔ اس قسم کے غلط فیصلے پیغمبر اکرم (ص) کے خاندان سے حسد کی بناپر ہیں ۔ اس وجہ سے ان کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے ۔ وہ کفران نعمت اور ظلم و ستم کی وجہ سے مقام نبوت وحکومت اپنے ہاتھ سے کھوبیٹھے ہیں ۔ اس لئے وہ نہیں چاہتے کہ یہ الہٰی منصب کسی کے سپرد کیا جائے ۔ اس لئے وہ پیغمبر اسلام اور ان کے خاندان سے جنہیں اس نعمت الہٰی سے نوازا گیا ہے حسد کرتے ہیں اور اس قسم کے بے بنیاد فیصلوں سے اپنی حسد کی آگ پر پانی چھڑکتے ہیں (ام یحسدون الناس علی مااٰتٰھم اللہ من فضلہ)۔ اس کے بعد فرماتا ہے کہ پیغمبر اسلام اور خاندان بنی ہاشم کو یہ منصب ملنے پر کیوں تعجب کرتے ہیں ، پریشان ہوتے ہیں اور حسد کرتے ہیں جبکہ خدا وند عالم نے آلِ ابراہیم کو آسمانی کتاب ، حکمت و دانش اور وسیع حکومت

(حضرت موسیٰ (ع) ، سلیمان(ع) اور داوٴد (ع) کو ) دی ۔ لیکن افسوس کہ تم ناخلف لوگوں نے وہ قیمتی معنوی او رمادی سر مائے شرارت اور قساوت و بےو بے رحمی کے ہاتھوں ضائع کردئیے ( فَقَدْ آتَیْنا آلَ إِبْراہیمَ الْکِتابَ وَ الْحِکْمَةَ وَ آتَیْناہُمْ مُلْکاً عَظیماً )۔
جو کچھ ہم تحریر کر چکے ہیں اس سے واضح ہوگیا ہے کہ ” ام یحسدون الناس“ میں ” ناس“ سے مراد پیغمبر اکرم (ص) اور ان کا خاندا ن ہے ۔ کیونکہ ناس کے معنی ہیں ” لوگوں کی ایک جماعت “ اور اس کا اطلاق صرف ایک شخص ( پیغمبر اسلام ) پر جب تک کوئی قرینہ موجود نہ ہو جائز نہیں ہے ۔ کیونکہ لفظ ” ناس“ اس جمع ہے او رجمع کی ضمیر جو اس آیت میں اس لفظ کی طرف پلٹ رہی ہے وہ بھی اس معنی کی تائید کرتی ہے ۔ علاوہ ازیں لفظ آلِ ابراہیم ( ابراہیم (ع) کا خاندان) دوسرا قرینہ ہے کہ ” ناس “ سے مراد حضرت رسول اکرم اور آپ کے اہل بیت (ع) ہیں ۔ کیو نکہ مقابلہ سے ہی نتیجہ نکلتا ہے کہ اگر ہم نے خاندان بنی ہاشم کو اس قسم کی عظمت و بر تری دی ہے تو یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کیونکہ ہم حضرت ابراہیم (ع) کئے خاندان کو اس کی لیاقت کی بناپر معنوی او رمادی مرتبہ اور حیثیت بخش چکے ہیں ۔ بہت سی روایتیں جو اہل سنت اور شیعہ کتب میں آئی ہیں ان میں یہ وضاحت موجود ہے کہ ” ناس“ سے مراد خاندانِ پیغمبر ہے ۔
حضرت محمد باقر علیہ السلام کے خاندان میں رسول ، انبیاء اور پیشوا بنائے ہیں ( اس کے بعد خدا وند عالم یہودیوں کو خطاب کرتے ہوئے فرماتا ہے ) تم اس کا تو اعتراف کرتے ہو لیکن آلِ محمد کے بارے میں انکارکرتے ہو2
دوسری حدیث میں ہے کہ اس آیت کے بارے میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا:
نحن المحسودون
ہم ہیں کہ جن پر دشمنوں نے حسدکیا3
تفسیر در منثور نے ابن منذر سے اور طبرانی نے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ وہ اس آیت کے بارے میں کہتے تھے : اس آیت میں ” ناس“ سے مراد ہم ہیں نہ کہ اور لوگ۔
اس کے بعد قرآن اگلی آیت میں فرماتا ہے کہ اس زمانے کے لوگوں کا ایک گروہ اس آسمانی کتاب پر ایمان لایا جو حضرت ابراہیم (ع)پر نازل ہوئی تھی او رکچھ لوگ صرف یہ کہ وہ ایمان نہیں لائے بلکہ وہ اس کی تبلیغ اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن گئے ۔ ان کے لئے جہنم کی آگ کا بھڑکتا ہو ا شعلہ کافی ہے ( ۔فَمِنْہُمْ مَنْ آمَنَ بِہِ وَ مِنْہُمْ مَنْ صَدَّ عَنْہُ وَ کَفی بِجَہَنَّمَ سَعیراً )۔
اسی طرح اس کتاب آسمانی سے جو پیغمبر اسلام پر نازل ہو ئی جو لوگ کفر کرتے ہیں وہ بھی اسی عذاب میں گرفتار ہوں گے ۔

حاسد انہ جرائم

حسد جسے فارسی زبان میں رشک کہتے ہیں اس کے معنی دوسروں کی نعمت کا زوال ہے ، چاہے وہ نعمت حسد کر نے والے کو ملے نہ ملے ۔ اس بناپر حاسد کی آرزو اور خواہش کا مرکز ویران ہونا ہی ہے نہ یہ کہ وہ سر مایہ یا نعمت اسے مل جائے ۔
۱۔ حاسد اپنی تمام یا زیادہ تر بد نی و فکری طاقتوں کو جنہیں اجتماعی اور معاشرتی مقاصداور اغراض میں صرف ہونا چاہے جو کچھ موجود ہے اسے نابود اور ویران کرنے کے لئے خرچ کردیتا ہے ۔ اس طرح اپنے وجود اور معاشرے کو تباہ و بر باد کرتا ہے ۔
۲۔ حسد دنیا کے بہت سے فسا دات کی جڑ ہے ۔ اگر قتل چوری ، ظلم وستم اور زیادتیوں اصلی اسباب و جوہات کا مطالعہ اور تحقیق کی جائے تو معلوم ہو گا کہ ان کے ایک بڑے حصے کی علت او ربنیاد حسد ہے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اسے آگ کی چنگاری سے تشبیہ دی گئی ہے جو حسد کرنے والے کے وجود یا اس معاشرے کو جس میں وہ زندگی گزار رہاہے خطرے میں ڈال دے ۔ ایک عالم کا قول ہے کہ حسداور بد خواہی سب سے زیادہ خطر ناک چیز ہے اسے سعادت اور نیک بختی کا بد ترین دشمن سمجھنا چاہئیے اور اسے دور کرنے کی کوشش کرنا چاہئیے ۔ ایسے درس اور ادارے کی بنیاد حاسد اور متعصب لوگ رکھتے ہیں و ہ پس ماندہ ہیں ۔ جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں کہ حاسد کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ دوسروں کو پیچھے دھکیل دے اور یہ چیز روح ترقی و کمال کے خلاف ہے ۔
۳۔ ان سب باتوں کے علاوہ حسد جسم انسانی پر مضر اثرات ڈالتا ہے ۔ عام طور پر حسد کرنے والے رنجیدہ دل اور اعصاب اور دوسرے مختلف اعضائے رئیسہ کے لحاظ سے زیادہ تر دکھ درد اور بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں ۔ کیونکہ آج یہ حقیقت تسلیم شدہ ہے کہ جسمانی بیماریوں کے اکثر نفسیاتی اسباب و عوامل ہوتے ہیں اور دور حاضر کی ڈاکٹری میں تفصیلی مباحث روحِ جسمانی کی بیماریوں کے عنوان سے نظر آتی ہیں جو اس قسم کی بیماریوں کے ساتھ مخصوص ہیں ۔
یہ امر قابل توجہ ہے کہ رہبران اسلام سے مروی روایات میں یہی بات بیان کی گئی ہے ۔ ایک روایت میں حضرت علی(ع) فرماتے ہیں :
صحة الجسد من قلة الحسد
تندرستی حسد کی کمی کی وجہ سے ہے ۔
ایک دوسرے مقام پر فرماتے ہیں :
العجب لغفلة الحساد عن سلامة الاجساد۔
تعجب ہے کہ حسد کرنے والے اپنے جسم کی سلامتی سے بالکل غافل ہیں ۔
یہاں تک کہ بعض احادیث میں ہے کہ حسد محسود کو نقصان پہنچانے سے پہلے حاسد کو نقصان پہنچاتا ہے اور آہستہ آہستہ اسے مار ڈالتا ہے ۔
۴۔ حسد باطنی اور روحانی طور پر وسعت قلب ونظر کی کمی ، نادانی ، ایمان کی کمزوری ، کوتاہ فکری اور نقص کی نشانی ہے ۔ کیونکہ حاسد در اصل اپنے آپ کو محسود کے مرتبہ تک پہنچنے سے عاجز پاتا ہے ۔ اس لئے وہ محسود کو پیچھے دھکیلنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا تا ہے ۔ اس کے علاوہ وہ عملی طور پر خدا وند عالم کی حکمت پر جو ان نعمتوں کا اصل سر چشمہ ہے ، اعتراض کرتا ہے اور خدا وند عالم کی طرف سے نعمتیں پانے والوں پر انگلیاں اٹھا تا ہے ۔ اسی لئے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :
الحسد اصلہ من عمی القلب و الجحود لفضل اللہ تعالیٰ وھما جنا حان للکفر و بالجسد وقع ابن اٰدم فی حسرة الابد و ھلک مھلکا لاینجومنہ ابداً۔
حسد اور بد خواہی دل کی تاریکی اورا ندھا پن ہے اور اس کا سر چشمہ خدا کی نعمتوں کا انکار ہے اور یہ دونوں (دل کا اندھا پن اور خدا کی بخشش پر اعتراض)کفر کے دو پر ہیں ۔ حسد کے سبب سے آدم ہمیشہ کی حسرت میں ڈوب گیا اور ایسی ہلاکت میں گراہے جس سے ہر گز رہائی حاصل نہیں کرسکتا ۔ 4
خدا وند عالم قرآن مجید میں فرماتا ہے :
سب سے پہلا قتل جو روئے زمین پر ہوا اس کا سبب حسد تھا ۔ 5
حضرت امیر المومومنین علی (ع) سے نہج البلاغہ میں منقول ہے :
ان الحسد یاٴکل الایمان کما تاٴکل النار الحطب
حسد ایمان کو آہستہ آہستہ اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ دھیرے دھیرے لکڑیوں کو کھا جاتی ہے ۔ 6
کیونکہ حسد کرنے والے کی خدا کی حکمت اور عدالت سے بد گمانی آہستہ آہستہ بڑھتی چلی جاتی ہے اور یہی بد گمانی ہے جو اسے ایمان کی وادی سے نکال کر جہنم کے گڑھے میں ڈال دیتی ہے ۔ حسد کے بہت سے روحانی ، مادی ، انفرادی اور اجتماعی نقصانات ہیں ۔ ہم نے جو کچھ لکھا ہے یہ در اصل ان کی ایک فہرست ہے ۔ 

 

۵۶۔إِنَّ الَّذینَ کَفَرُوا بِآیاتِنا سَوْفَ نُصْلیہِمْ ناراً کُلَّما نَضِجَتْ جُلُودُہُمْ بَدَّلْناہُمْ جُلُوداً غَیْرَہا لِیَذُوقُوا الْعَذاب
َ إِنَّ اللَّہَ کانَ عَزیزاً حَکیماً ۔
۵۷۔وَ الَّذینَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ سَنُدْخِلُہُمْ جَنَّاتٍ تَجْری مِنْ تَحْتِہَا الْاٴَنْہارُ خالِدینَ فیہا اٴَبَداً لَہُمْ فیہا اٴَزْواجٌ مُطَہَّرَةٌ وَ نُدْخِلُہُمْ ظِلاًّ ظَلیلاً ۔
ترجمہ
۵۶۔ وہ لوگ جو ہماری آیتوں کا انکار کرتے ہیں عنقریب ہم انہیں آگ میں ڈال دیں گے ۔ جب ان کی جلد جل جائے گی ہم انہیں دوسری جلد دیں گے تاکہ وہ سزا کا مزہ چکھتے رہیں ۔ خدا توانا قادر اور حکیم ہے ( وہ گناہوں کے مطابق سزا دے گا)
۵۷۔ اور وہ لوگ جو ایمان لے آئے ہیں اور انہوں نے نیک عمل کئے وہ عنقریب باغاتِ بہشت میں داخل ہوں گے ، جب کے درختوں کے نیچے نہریں جاری ہیں اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔ ان کے لئے پاکیزہ بیویاں ہوں گی اور انہیں ایسے گھنے سایوں میں لے جائیں گے جو منقطع نہ ہوں گے۔

 


۱- نقیر مادہ نقر ( بر وزن فقر) سے ہے اس کا مطلب ہے کسی چیزکو اس قدر کوٹنا کہ آخر کار اس میں گڑھا اور سوراخ ہو جائے اور منقار ( چونچ) کو بھی اسی لئے منقار کہتے ہیں ۔ بعض کہتے ہیں کہ نقیر بہت چھوٹا سا گود ا ہوتا ہے جو کھجور کی پشت پر دکھائی دیتا ہے اور زیادہ تر بہت ہی چھوٹی چیزوں کے لئے کنایہ ہے ۔
2- تفسیر برہان جلد اول صفحہ ۳۷۶ اور تفسیر روح المعانی میں بھی اسی مضمون کی ایک حدیث منقول ہے ، ( روح المعانی جلد پنجم صفحہ ۵۲)۔
3- تفسیر برہان جلد اول صفحہ ۳۷۶ اور تفسیر روح المعانی میں بھی اسی مضمون کی ایک حدیث منقول ہے ، ( روح المعانی جلد پنجم صفحہ ۵۲)۔
4- مستدرک الوسائل جلد ۲ صفحہ ۳۲۷۔
5- مائدہ۔ ۲۷۔
6- نہج البلاغہ خطبہ ۸۶۔
 
ہم کافروں کو آگ میں ڈالیں گے جبت و طاغوت
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma