ہٹ دھرم افراد کی سر نوشت

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 03
امید سے معمور آیت یہودیوں کے کردار کا ایک اوررخ

یا اٴَیُّہَا الَّذینَ اٴُوتُوا الْکِتابَ آمِنُوا بِما نَزَّلْنا مُصَدِّقاً لِما مَعَکُمْ
اس بحث بعد جو گذشتہ آیات میں اہل کتاب کے بارے میں تھی یہاں انہی کی طرف روئے سخن کرتے ہوئے فرماتا ہے : اے وہ لوگوجنہیں آسمانی کتاب دی جاچکی ہے ، قرآن کی آیتوں پر ایمان لے آوٴ جو ان کی نشانیوں سے ہم آہنگ ہیں جو اس کے بارے میں تمہاری کتابوں میں موجود ہیں اور مسلم ہے کہ ان نشانیوں کی موجودگی میں تم دوسرے لوگوں کی نسبت اس بات کا زیادہ حق رکھتے ہوکہ اس پاک دین کے ماننے والے بن جاوٴ۔
اس کے بعد انہیں دھمکی دیتا ہے کہ اس سے پہلے کہ تم دو سزاوٴں میں سے کسی ایک میں گرفتار ہو جاوٴ حق کے سامنے سر تسلیم خم کر دو۔ پہلی سزا یہ کہ تمہارے چہروں کو کلی طور پر نیست و نابود کر دیا جائے اور ان تمام اعضاء کو جن کے ذریعے تم حقائق کو دیکھتے، سنتے اور سمجھتے ہو مٹا دیں اور اس کے بعد تمہارے چہروں کو پیٹھ کی طرف پھیر دیں (من قبل ان نطمس وجوھاً فنردھا علی ادبارھا)۔۱
شاید یاد دلانے کی ضرورت نہیں ہے کہ اس جملہ سے مراد عقل و ہوش ، آنکھ اور کان کا حقائق و واقعاتِ زندگی کو نہ سمجھے اور صراط مستقیم سے رو گردانی کے لحاظ سے بیکار ہو جانا ہے ۔ جیسا کہ ایک حدیث میں حضرت امام محمد باقر (ع) سے منقول ہے کہ آپ نے فرماتا :
اس سے مرادان کے چہروں کا راہ راست و ہدایت سے محو کرنا ہے اور ان کو پشت کی طرف پھیر نے سے مراد گمراہی ہے ۔ ۲
اس کی وضاحت یوں ہے کہ اہل کتاب خصوصاً یہودیوں نے ان تمام واضح نشانیوں کے با وجود حق کے سامنے سر نہ جھکا یا اور جان بوجھ کر ضد اور دشمنی کے ئے آمادہ ہو گئے اور مختلف مقامات پر دانستہ طور پر خلاف بیانی اور مخالفت کی تکرار کی اور آہستہ آہستہ یہ ان کی طبیعت ثانیہ بن گئی، گویا ان کے افکار کلی طور پر مسخ اور ان کی آنکھیں اور کان اندھے بہرے ہو گئے ۔
اس قسم کے لوگ زندگی کی راہ میں ترقی کرنے کی بجائے پچھلے پاوٴں پلٹ جاتے ہیں اور جو جان بوجھ کر حق کا انکار کرتے ہیں ان سزا یہی ہے ۔
حقیقت میں یہ سورہ بقری کی آیت ۶ کے مشابہ ہے ۔ اس بناء پر ” طمس “ اور پشت کی طرف لوٹنے سے مراد فکری ، روحانی اور معنوی طور پر پشت کی طرف پلٹنا ہے ۔
باقی رہا دوسری سزا جس کی انہیں دھمکی دی گئی ہے وہ یہ ہے کہ انہیں اصحاب ِ سبت ۳
کی طرح اپنی رحمت سے دور کردے گا (او نلعنھم کما لعنا اصحاب السبت)۔
یہاں ایک سوال سامنے آتا ہے کہ ان دونوں دھمکیوں میں کیا فرق ہے لفظ ” او“ کے ساتھ جس کے معنی ” یا “ ہیںیعنی ان میں سے ہر ایک یا پھر یہ دوسرے پر عطف ہے ۔
بعض مفسرین کا نظریہ ہے کہ پہلی دھمکی معنوی پہلو رکھتی ہے اور دوسری دھمکی ظاہری اور مسخ جسمانی کا پہلو رکھتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ خدا اس آیت میں فرماتا ہے : جس طرح ہم نے اصحاب سبت کو اپنی رحمت سے دور کیا تھا ان کو اپنی رحمت دور کردیں گے ۔ ہم جانتے ہیں ( جیسا کہ انشاء اللہ تعالیٰ سورہٴ اعراف میں آئے گا) کہ اصحاب سبت ظاہری طور پر مسخ ہوئے تھے ۔
بعض دوسرے لو گوں کا نظریہ ہے کہ یہ لغت اور خدا کی رحمت سے دوری بھی اس فرق کے ساتھ معنوی رکھتی ہے کہ پہلی دھمکی انحراف ، گمراہی اور پشت کی طرف پلٹنے کی طرف اشارہ ہے جب کہ دوسری دھمکی کے معنی ہلاکت اور نیست و نابود ہو نا ہیں کیونکہ لعنت کے ایک معنی ہلاکت بھی ہیں ۔
خلاصہ یہ کہ اہل کتاب اصرار اور مخالفتِ حق پر ڈٹے رہنے کی وجہ سے شکست کھائیں گے یا نیست و نابود ہو جائیںگے ۔
ایک سوال بھی سامنے آتا ہے اور وہ یہ ہے کہ کیا ان کے بارے میں یہ دھمکی عمل میں لائی گئی کہ نہیں اس میں کو ئی شک نہیں پہلی دھمکی ان میں سے بہت سوںکے بارے میں اور دوسری بعض کے بارے میں عمل میں آچکی ہے ، اسلامی جنگوں میں ان کی بہت بڑی جماعت تباہ و بر باد ہو گئی اور ان کی طاقت ختم ہو گئی۔ دنیا کی تاریخ بتا تی ہے کہ وہ اس کے بعد بھی مختلف ملکوں میں بہت سخت تنگی اور مشکلات سے دوچار ہو ئے اور ان کے بہت سے لوگ مارے گئے اور وہ اس وقت بھی بہت ہی برے اور خطر ناک حالات میں زندگی گزار رہے ہیں ۔
آیت کے آخر میں ان دھمکیوں کی تاکید کے طور پر فرماتا ہے : فرمانِ خدا ہر حال میں روبہ عمل ہو گا اور اسے کوئی طاقت بھی نہ روک سکے گی ۔
( وکان امر اللہ مفعولا)۔

 

۴۸۔إِنَّ اللَّہَ لا یَغْفِرُ اٴَنْ یُشْرَکَ بِہِ وَ یَغْفِرُ ما دُونَ ذلِکَ لِمَنْ یَشاء ُ وَ مَنْ یُشْرِکْ بِاللَّہِ فَقَدِ افْتَری إِثْماً عَظیماً ۔
ترجمہ
۴۸۔ خدا کبھی مشرک کو نہیں بخشے گا اور اس سے نیچے جو کچھ ہے وہ جسے چاہے (( بشرطیکہ وہ اہلیت رکھتا ہو) بخش دے گا اور جو کسی کو اللہ کا شریک بنائے وہ عظیم گناہ کا مرتکب ہوا ہے ۔

 


۱”طمس“کے اصل معنی ہیں کسی چیز کے آثار کو مٹا دیں مثلاً اگر کسی عمارت کو ویران کردیں اور اس کی جگہ بالکل صاف کردیں اور سابقہ عمارت کے آثار کو ختم کردیں ۔ لیکن کنایہ کے طور پر ا س چیز کو بھی کہا جاتا ہے جس کا اثر اور خاصیت ختم ہو جائے۔
۲۲مجمع البیان جلد ۳ صفحہ ۵۵ آیہٴ مذکورہ کے ذیل میں ۔
۳ اصحاب سبت ۔ کے بارے میں تفصیل سورہٴ اعراف آیت ۱۶۲ تا ۱۶۶ کے ذیل میں آئے گی ۔ یہ یہودیوں کا ایک گروہ تھا کہ ہفتہ کے روز کام کاج نہ کرے لیکن ان لوگوں نے اپنے پیغمبر کے فرمان کی مخالفت کی اور ماہی گیری کرتے رہے اور طغیان و سر کشی میں آخری حد تک جا پہنچے اور آخر کار درد ناک انجام سے دو چار ہو ئے ۔

 

امید سے معمور آیت یہودیوں کے کردار کا ایک اوررخ
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma