گناہان کبیرہ و صغیرہ

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 03
ایک اشکال اور اس کی وضاحت معاشرے کی سلامتی کا دارو مدار اقتصادی سلامتی پر ہے

إِنْ تَجْتَنِبُوا کَبائِرَ ما تُنْہَوْنَ عَنْہُ نُکَفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّئاتِکُمْ۔
یہ آیت صراحت کے ساتھ اعلان کرتی ہے کہ اگر تم گناہان کبیرہ کو جن کی ممانعت کی جاچکی ہے چھوڑ دو ، تو ہم تمہارے ” سیئات“ کی پردہ پوشی کریں گے اور تمہیں بخش دیں گے اور تمہیں جنت عطا کریں گے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ گناہ دو قسم کے ہیں ۔
ان میں سے ایک کانام قرآن نے کبیرہ اور دوسری قسم کا ” سیئة“ اور سورہٴ نجم کی آیت ۳۲ میں سیئة کی بجائے ” لمم“۱
فرمایاہے اور سورہٴ کہف کی آیت ۴۹ میں کبیرہ کے مقابلے میں صغیرہ کا ذکر کیا ہے ۔ جہاں ارشاد ہوتا ہے :
لا یغاد صغیرة ولا کبیرة الا احصاھا
یہ اعمالنامہ کسی چھوٹے بڑے گناہ کو نہ بھولے گا اور اسے ضرور شمار کرے گا ۔
اس سے واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ گناہ کی جانی پہچانی دو قسمیں ہیں کہ جن کو کبھی کبیرہ اور صغیرہ سے اور کبھی کبیرہ اور سیئة سے اور کبھی کبیرہ اور لمم سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔
اب دیکھنا ہے کہ گناہ صغیرہ و کبیرہ کے تعین کے لئے کیا ضابطہ اور میزان ہے ۔
بعض کہتے ہیں کہ یہ دونوں نسبتی امور ہیں یعنی جب دو گناہوں کا ایک دوسرے مقابلہ کیا جائے تو جس کی اہمیت زیادہ ہے وہ کبیرہ ہے اور جس کی کم حیثیت ہے وہ صغیرہ ہے ، اس لئے ہر گناہ اپنے سے زیادہ بڑے گناہ کی نسبت سے گناہ ِ صغیرہ ہوگااور اپنے سے چھوٹےگناہ کی بسنت کبیرہ ہو گا ۔ ۲
لیکن ظاہر ہے کہ یہ معنی کسی طرح بھی زیر نظر آیت کے مطابق نہیں کیونکہ آیت نے دو گروہوں کو ایک دوسرے سے جدا کردیا ہے او رانہیں ایک دوسرے کے مد مقابل قرار دیا ہے اور ایک سے پر ہیز کو دوسرے کی بخشش کا ذریعہ قرار دیا ہے ( غور فرمائیے گا)۔
لیکن اگر کبیرہ کے لغوی معنی کو دیکھیں تو ہر وہ گناہ کبیرہ ہوگا جو اسلام کی نظر میں بڑا اور زیادہ اہم ہے اور ا س کی اہمیت کی نشانی یہ ہوسکتی ہے کہ قرآن مجید نے صرف اس کی ممانعت پر قناعت نہ کی ہو بلکہ اس کے ساتھ ساتھ عذاب جہنم کی دھمکی بھی ہو سکتی ہو مثلاً قتل زنا، سود خوری وغیرہ ۔ا سی لئے روایات ِ اہل بیت(ع) میں ہے :
الکبائر التی اوحب اللہ عزو جل علیھا النار
گناہان کبیرہ وہ ہیں جن پر خدا وند عالم نے آگ کی سزا مقرر فرمائی ہے ۔ ( نور الثقلین ، جلد ۱، صفحہ ۴۷۳)۔
اس حدیث کا مضمون حضرت امام باقر (ع) حضرت امام جعفر صادق (ع) اور امام علی بن موسیٰ رضا (ع) سے منقول ہے گناہان کبیرہ کو سمجھنے اور مذکورہ ضابطے کی روشنی میں انہیں پہنچاننے کے بعد کام آسان ہوجاتا ہے ۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ کچھ روایات میں کبائر کی تعداد سات اور بعض میں بیس او ربعض میں ستر ہے جو کچھ ہم کہہ چکے ہیں وہ اس کے منافی نہیں ہے ۔ کیونکہ اصل میں ان روایاتمیں سے بعض پہلے درجہ کے گناہان کبیرہ کی طرف بعض دوسرے درجہ کے کبائر کی طرف اور بعض سب گناہانِ کبیرہ کی طرف اشارہ کرتی ہیں ۔


۱- لمم ( بر وزن قسم ) چھوٹے اورکم اہمیت والے کام کو کہتے ہیں ۔
۲- طبرسی مرحوم نے مجمع البیان میںاس عقیدے کی نسبت شیعہ علماء کی طرف دی ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے کیونکہ ہمارے بہت سے علماء دوسرا نظریہ رکھتے ہیں جس کی ہم تشریح کریں گے ۔
ایک اشکال اور اس کی وضاحت معاشرے کی سلامتی کا دارو مدار اقتصادی سلامتی پر ہے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma