حدیثِ منزلت کے متعلق کچھ سوال اور ان کے جواب

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 06
دیدارِ پروردگار کی خواہشحدیث منزلت کے مفہوم کی وسعت

بعض متعصّبین نے حدیث مذکور پر کچھ ایسے واہی اعتراض کئے ہیں جو واقعاً اس لائق نہیں کہ انھیں کتابوں میں لکھا جائے، بس اس طرح کے اعتراضوں کو سُن کر صرف یہ افسوس کرنا چاہیے کہ بعض لوگ کتنی جلدی یکطرفہ رائے قائم کرلیتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی قوتِ فیصلہ ختم ہوجاتی ہے اور وہ روشن حقائق کو نہیں دیکھ لیکن وہ اعتراضات جو تحریر کئے جانے اور گفتگو کئے جانے کے لائق ہیں ان میں سے بعض کو ہم اس جگہ حوالہٴ قلم کرتے ہیں ۔
پہلا اعتراض:یہ حدیث صرف ایک محدود اور خاص حکم بیان کرتی ہے کیونکہ یہ غزوہٴ تبوک کے موقع پر وارد ہوئی ہے، وہ بھی اس وقت جبکہ حضرت علی علیہ السلام عورتوں اور بچوں کے درمیان مدینہ میں راقی رہنے پر کبیدہٴ خاطر تھے اس موقع پر حضرت رسول الله نے حضرت علی(علیه السلام) کا دل رکھنے کے لئے یہ جملہ فرمایا تھا جس کا مقصد یہ تھا کہ تمھاری حکومت وسرداری صرف ان عورتوں اور بچوں تک محدود ہے!!
اس اشکال کا جواب گذشتہ بحثوں سے بخوبی واضح ہوجاتا ہے کیونکہ اس معترض کا یہ خیال بالکل غلط ہے کہ یہ حدیث صرف جنگِ تبوک کے موقع پر صادر ہوئی ہے، بلکہ یہ ثابت ہے کہ رسول الله نے حضرت علی(علیه السلام) کے متعلق یہ جملہ متعدد مواقع پر بطور ایک قانون کلی کے ارشاد فرمایا تھا جس میں سے سات مواقع کو کتب علمائے اہل سنت سے ہم اپنی گذشتہ بحثوں میں نقل کرآئے ہیں ۔
اس کے علاوہ حضرت علی(علیه السلام) کا مدینہ میں رہنا صرف بچوںاور عورتوں کی حفاظت کے لئے نہ تھا، کیونکہ اگر یہی مقصد ہوتا اسے تو دوسرے بہت سے افراد پورا کرسکتے تھے، اس لئے حضرت علی(علیه السلام) جیسے شجاع اور بہادر کی کیا ضرورت تھی وہ بھی ایسے موقع پر جبکہ رسول الله کو ایک زبردست معرکہ درپیش تھا (شاہِ روم شرقی سے جنگ کا معرکہ) ظاہر ہے کہ علی(علیه السلام) کو اپنی جگہ پر مقرر کرنے سے غرض یہ تھی کہ وہ دشمن جو مدینہ کے اطراف میں تھے اور وہ منافقین جو خود مدینہ کے اندر موجود تھے آنحضرت کو طولانی غَیبت سے فائدہ اٹھاکر مدینہ پر قابض نہ ہوجائیںجو شخص اس اہم مرکز کی حفاظت کرسکتا تھا وہ صرف حضرت علی علیہ السلام کی ذات والا صفات تھی ۔
دوسرا اعتراض: یہ بات سب کو معلوم ہے اور تاریخ کی مشہور کتابوں میں بھی لکھی ہے کہ حضرت ہارون(علیه السلام) حضرت موسیٰ(علیه السلام) کی زندگی میں وفات پاگئے تھے لہٰذا علی(علیه السلام) کی ہارون سے تشبیہ اس بات کو ثابت نہیں کرتی کہ علی(علیه السلام) پیغمبر کے بعد ان کے جانشین اور خلیفہ تھے ۔
شاید یہ اعتراض ان تمام اعتراضوں میں زیادہ اہم ہے جو اس حدیث پر کئے جاتے ہیں لیکن اس حدیث کا آخری ٹکڑا ”الّا اٴنہ لا نبی بعدی“ (میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا) اس اعتراض کا روشن جواب ہے کیونکہ پیغمبر کے اس فرمان ”انت منّی بمنزلة ھارون من موسیٰ“ کا تعلق اگر صرف آنحضرت کی حیات سے ہوتا اور آپ کے بعد اس کی کوئی نظر نہ ہوتو ”الّا اٴنہ لا نبی بعدی“ کہنے کی کوئی ضرورت نہ تھی کیونکہ اگر بات صرف رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی حیات کی ہو تو آپ کے بعد کی کوئی بات کہنا بالکل نامناسب ہے (اصطلاحاً اسے یوں کہنا چاہیے کہ اس طرح کا استثناء منقطع ہوجائے گا جو خلاف ظاہر ہے)
بنابریں اس طرح کے استثناء کا اس حدیث میں ہونا اس بات کی دلیل کھلی دلیل ہے کہ پیغمبر کے فرمان کا تعلق آپ کی وفات کے بعد کے زمانہ سے بھی ہے،الّا یہ کہ کسی کو شبہ نہ ہو اور کچھ لوگ علی(علیه السلام) کو بعد از نبی، نبی نہ ماننے لگیں اس لئے حضرت نے فرمادیا کہ تم ان تمام مرتبوں کے مالک ہو سوائے اس کے کہ تم میرے بعد نبی نہ ہوگے، بنابریں کلامِ پیغمبر یہ مفہوم ہوگا کہ یا علی! تم ہارون کے تمام مدارج ومناصب کے مالک ہو، نہ صرف میری زندگی میں بلکہ میری وفات کے بعد بھی تمھارے یہ درجے اورمنصب باقی رہیں گے (سوائے مقامِ نبوت)
اس طرح یہ واضح ہوگیا کہ حضرت علی(علیه السلام) کی حضرت ہارون(علیه السلام) سے تشبیہ بہ لحاظ مقامات ہے نہ بہ لحاظ مدتِ مقامات، اس کی دلیل یہ ہے حضرت ہارون(علیه السلام) بھی اگر بعد حضرت موسیٰ زندہ رہتے رہ جاتے تو مسلمہ طور سے حضرت موسیٰ(علیه السلام) کے جانشین بھی ہوتے اور نبوت پر باقی رہتے ۔
لہٰذا اگر قرآن کے ان نصوص کو دیکھا جائے جن میں حضرت ہارون(علیه السلام) کے لئے حضرت موسیٰ(علیه السلام) کی وزارت ومعاونت کے درجہ کو ثابت کیا ہے، ان کو حضرت موسیٰ(علیه السلام) کے کار رہبری میں شریک بھی قرار دیا ہے، اس کے علاوہ وہ ایک پیغمبر بھی تھے، تو معلوم ہوگا کہ یہ تمام مناصب سوائے پیغمبری کے حضرت علی علیہ السلام کے لئے ثابت ہیں حتّیٰ کہ وفات پیغمبر کے بعد بھی جس کی تائید ”الّا اٴنہ لا نبی بعدی“ کے جملے سے ہوتی ہے ۔
تیسرا اعتراض: ایک اور اشکال اس حدیث پر وارد کیا جاتا ہے کہ اس حدیث کے ذریعہ استدلال کا لازمہ یہ ہے کہ حضرت علی(علیه السلام) کے لئے منصبِ ولایت ورہبری امت رسول الله کی حیات کے زمانہ میں بھی مانا جائے جبکہ دو امام اور دو ہبر ایک زمانے میں ممکن نہیں ہیں!
لیکن اگر ایک نکتہ پر توجہ کی جائے تو اس اعتراض کا جواب بھی مل جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حضرت ہارون(علیه السلام) بھی حضرت موسیٰ(علیه السلام) کے زمانہ میں بنی اسرائیل کی رہبری کے منصب کے مالک تھے، لیکن ایک مستقل اور علیحدہ رہبر نہ تھے بلکہ آپ ایک ایسے رہبر تھے جو حضرت موسیٰ(علیه السلام) کے زیر نظر اپنے فرائض انجام دیتے تھے، اسی طرح حضرت علی(علیه السلام) بھی پیغمبر کی زندگی میں امتِ مسلمہ کی رہبری میں ان کے معاون تھے، لہٰذا آپ کی حیثیت ایک مستقل رہبر کی ہوجائے گی ۔
بہرحال ”حدیثِ منزلت“ جو از روئے سند اسلام کی مضبوط ترین دلالت کے لحاظ سے بھی اہلِ انصاف کی نظر میں حضرت علی علیہ السلام کی تمام امت پر فضیلت، اسی طرح آپ کی خلافت بلافصل ثابت کرنے کے لئے کافی ووافی ہے ۔
لیکن عجیب بات یہ ہے کہ بعض لوگوں نے نہ صرف حدیث کی دلالت کو خلافت پر قبول نہیں کیا ہے بلکہ یہ کہا ہے کہ اس حدیث سے حضرت علیہ(علیه السلام) کی کمترین فضیلت بھی ظاہر نہیں ہوتی ہے یہ بات واقعاً حیرت ناک ہے ۔

 

۱۴۳ وَلَمَّا جَاءَ مُوسیٰ لِمِیقَاتِنَا وَکَلَّمَہُ رَبُّہُ قَالَ رَبِّ اٴَرِنِی اٴَنظُرْ إِلَیْکَ قَالَ لَنْ تَرَانِی وَلَکِنْ انظُرْ إِلَی الْجَبَلِ فَإِنْ اسْتَقَرَّ مَکَانَہُ فَسَوْفَ تَرَانِی فَلَمَّا تَجَلَّی رَبُّہُ لِلْجَبَلِ جَعَلَہُ دَکًّا وَخَرَّ مُوسیٰ صَعِقًا فَلَمَّا اٴَفَاقَ قَالَ سُبْحَانَکَ تُبْتُ إِلَیْکَ وَاٴَنَا اٴَوَّلُ الْمُؤْمِنِینَ-
ترجمہ
اور جس وقت موسیٰ ہماری میعادگاہ میں آئے اور ان کے پروردگار نے ان سے بات کی، انھوں نے عرض کی کہ اے پرودگار! تو اپنے کو مجھے دکھلادے تاکہ مَیں تجھے دیکھو لوں (پروردگار نے) کہا تم مجھے ہرگز نہ دیکھ پاؤ گے لیکن (ذرا) پہاڑ کی طرف دیکھو اگر وہ اپنی جگہ پر ٹھہرا رہا تو مجھے دیکھ سکوگے لیکن جب پروردگار نے پہاڑ پر (اپنا) جلوہ کیا تو اسے (گراکر) زمین کے برابر کردیا اور موسیٰ بیہوش ہوکر گرگئے، جب وہ ہوش میں آئے تو انھو ںنے عرض کی: خدایا! تو اس بات سے منزّہ ہے (کہ تجھے کوئی دیکھ سکے) مَیں تیری جانب واپس آتا ہوں مَیں مومنوں میں سے پہلا ہوں ۔

دیدارِ پروردگار کی خواہشحدیث منزلت کے مفہوم کی وسعت
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma