آگاہی اور استقامت

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 06
فرعون اور اس کے اطرافیوں لغو تحدیدیں

ممکن ہے کسی شخص کو اس بات پر تعجب ہو کہ ان جادوگروں کی اتنی جلدی کایا پلٹ کیسے گئی، کہاں تو وہ موسیٰ (علیه السلام) کے مقابلے کی ٹھان کر آئے تھے اور کہاں یہ کہ وہ فوراً مومنین کی صف میں آگئے، پھرمومن بھی ایسے کہ انھیں ہر قسم کی قربانی اور فداکاری سے بھی کوئی باک نہ تھا، کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ اتنے کم عرصے میں کسی انسان کے ذہن میں اتنا زبردست انقلاب آجائے کہ وہ صف مخالف سے بالکل کٹ کر صف موالف میں مل جائے اور اتنی سختی سے اپنے نئے عقیدہ پر ڈت جائے کہ اپنے مقام اور زندگی سب کو نظر انداز کردے اور مردانہ وار بڑی خندہ پیشانی کے ساتھ شربت شہادت کے آخری گھونٹ کوبھی پی جائے ۔
لیکن اگر ہم اس نکتے کو سمجھ لیں کہ وہ جادوگر جو علم سحر میں ید طویل رکھتے تھے وہ اپنے علم کی وجہ سے حضرت مو سیٰ (علیه السلام) کی عظمت سے اچھی طرح آگاہ ہوگئے اور انھوں نے پوری آگاہی کے ساتھ اس میدان میں اپنا قدم رکھا، ان کی یہ واقفیت وآگاہی ان کے اس عشق سوزاں کا سرچشمہ بن گئی جس نے ان کے سارے وجود کا احاطہ کرلیا ایک ایسا عشق جس کی کوئی حد ونہایت نہیں ہے اور جو انسان کی تمام خواہشوں سے مافوق ہے ۔
انھیں اچھی طرح پتہ تھا کہ انھوں نے کس راستے پر اپنا قدم رکھا ہے، وہ کس واسطے جنگ کررہے ہیں، کس سے جنگ کررہے ہیں اور اس جنگ کے نتیجہ میں کیسا روشن مستقبل ان کے انتظار میںہے؟!۔
یہی وجہ ہے کہ ہم نے دیکھا کہ انھوں نے بڑی صراحت وشجاعت کے ساتھ (جیسا کہ سورہ ”طہ“ کی آیت ۷۲ میں آیا ہے) یہ کہا:
قسم ہے اس ذات کی جس نے ہمیں پیدا کیا ہم تجھے ان روشن دلائل پر ہرگز ترجیح نہیں دیں گے جو ہمارے رب کی طرف ہمارے پاس آئے ہیں، تیرا جو دل چاہے کرلے لیکن یہ جان لے کہ تیری قدرت کا دائرہ صرف اسی دنیا تک محدود ہے ۔
آخر کار، جیسا کہ تواریخ اور روایات میں، ان لوگوں نے اس راہ میں اس قدر پامردی واستقامت کا مظاہرہ کیا کہ فرعون نے اپنی دھمکی کو پورا کردکھایا اور ان کے مثلہ شدہ بدنوں کو دریائے نیل کے کنارے کجھور کے درختوں کی شاخوں آویزاں کردیا، جس کی وجہ سے ان کا پر افتخار نام ہمیشہ کے لئے دنیا کے حیرت پسندوں کی فہرست میں ثبت ہوگیا اور بقول مفسر بزرگوار علامہ طبرسی:
”کانوا اول النھار کفاراً سحرة واٰخر النھار شھداء بررة“
وہ صبح کے وقت کافر وجادوگر تھے اور عصر کے وقت شہیدو نیکوکار ہوگئے ۔
لیکن توجہ رہے کہ اس طرح کا انقلاب واستقامت بجز الٰہی تائید کے ممکن نہیں ہے، یہ بات مسلم ہے کہ جو لوگ سچے دل سے خدا کی راہ میں قدم اٹھاتے ہیں خدا کی مدد بھی ان کی تلاش میں آتی ہے ۔

۱۲۷ وَقَالَ الْمَلَاٴُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ اٴَتَذَرُ مُوسیٰ وَقَوْمَہُ لِیُفْسِدُوا فِی الْاٴَرْضِ وَیَذَرَکَ وَآلِھَتَکَ قَالَ سَنُقَتِّلُ اٴَبْنَائَھُمْ وَنَسْتَحْیِ نِسَائَھُمْ وَإِنَّا فَوْقَھُمْ قَاھِرُونَ۔
۱۲۸ قَالَ مُوسیٰ لِقَوْمِہِ اسْتَعِینُوا بِاللهِ وَاصْبِرُوا إِنَّ الْاٴَرْضَ لِلّٰہِ یُورِثُھَا مَنْ یَشَاءُ مِنْ عِبَادِہِ وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِین۔
۱۲۹ قَالُوا اٴُوذِینَا مِنْ قَبْلِ اٴَنْ تَاٴْتِیَنَا وَمِنْ بَعْدِ مَا جِئْتَنَا قَالَ عَسیٰ رَبُّکُمْ اٴَنْ یُھْلِکَ عَدُوَّکُمْ وَیَسْتَخْلِفَکُمْ فِی الْاٴَرْضِ فَیَنظُرَ کَیْفَ تَعْمَلُونَ ۔
ترجمہ
۱۲۷۔قومِ فرعون کے سرداروںنے اس سے کہا: آیا موسیٰ اور ان کی قوم کو آزاد چھوڑ دے گا کہ وہ زمین میں فساد کرتے پھریں اور تجھے اور تیرے خداؤں کو ترک کردیں ،(فرعون نے ) کہاعنقریب میں ان کے لڑکوں کو قتل کردوں گا اور عورتوں کو زندہ چھوڑ دوں گا ( تاکہ وہ ہماری خدامت کریں) اور ہم پورے طور سے ان پر مسلط ہیں ۔
۱۲۸۔موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ خدا سے مدد چاہو اور صبر اختیار کرو کہ زمین خدا ہی کی ہے ، اپنے بندوں میں وہ جسے چاہتا ہے اس کا وارث بناتا ہے اور نیک انجام پرہیزگاروں کے لئے ہے ۔
۱۲۹۔انھوں نے کہا کہ (اے موسیٰ )تمھارے آنے سے قبل بھی ہم نے بہت اذیتیں دیکھیں اور اب تمھارے آنے کے بعد بھی ہم دکھ جھیل رہے ہیں (آخر ان مصائب کا کب خاتمہ ہوگا ؟ )موسیٰ نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ تمھارا پروردگار تمھارے دشمن کو ہلاک کردے گا اور تمھیں زمین اس کا جانشین بنادے گا تاکہ وہ دیکھے کہ تم کس طرح کا عمل کرتے ہو ۔

 

 

فرعون اور اس کے اطرافیوں لغو تحدیدیں
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma