مقابلہ شروع ہوتا ہے

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 06
آخر کار حق نے کیسے فتح پائیحضرت موسیٰ (علیه السلام) کی زندگی کے پانچ ادوار

ان آیات اس سے پہلے رد عمل کو بیان کیا گیا ہے جوحضرت موسیٰ (علیه السلام) کی دعوت اور ان کی معجزنمائی کے نتیجے میں فرعون اور اس کی حکومت کے افراد مرتب ہوا ۔
آیت میں پہلے اصحاب فرعون کی طرف سے یہ نقل ہوا کہ انھوں نے جیسے ہی موسیٰ سے خارق عادت امور کا مشاہدہ کیا تو فوراً ہی ان کی طرف جادو کی نسبت دے دی اور کہا: یہ ایک جاننے والا پرانا جادو گر ہے ( قَالَ الْمَلَاٴُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ إِنَّ ھٰذَا لَسَاحِرٌ عَلِیمٌ ) ۔
لیکن سورہٴ شعراء کی آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بات فرعون نے کہی تھی جیسا کہ قرآن کہتا ہے:
<قَالَ لِلْمَلَاٴ حَولَہُ اِنَّ ھٰذَا لَسَاحِرٌ عَلِیمٌ
فرعون نے اپنے اصحاب سے کہا کہ یہ ایک جاننے والا جادو گر ہے (شعراء ۳۴) ۔
حقیقت میں یہ دونوں آیتیں آپس میں کوئی اختلاف نہیں رکھتیں، ہوسکتا ہے کہ یہ بات پہلے فرعون نے کہی ہو کیوں کہ اس حادثے کے بعد طبیعی طور سب کی آنکھیں اس کی طرف لگی ہوئی تھیں کہ دیکھیں اس پر موسیٰ کی اس ضرب کاری کا کیا اثر ہوتا ہے، پھر جب فرعون نے اپنی بات کہہ دی کہ یہ ایک تجربہ کار جادوگر معلوم ہوتا ہے تو اس کے اصحاب جن کو چاپلوسی کی عادت تھی اور ان کا مقصد بجز اپنے سردار کی رضامندی کے اور کچھ نہ تھا بیک زبان بول اٹھے:”بالکل درست فرمایا یہ ایک بہت ماہر جادوگر معلوم ہوتا ہے“ یہ حالت صرف فرعون کے ساتھیوں ہی کی نہیں تھی بالکل دنیا میں ہر ظالم سردار کے ارد گرد ایسے افراد جمع ہوجایا کرتے ہیں اور وہاں وہی کچھ ہوتا ہے جو فرعون کے دربار میں ہوا ۔
اس کے بعد انھوں نے یہ بھی کہا کہ : ”اس شخص کا مقصد یہ معلوم ہوتا ہے کہ تمھیں تمھارے وطن سے نکال باہر کرے“(یُرِیدُ اٴَنْ یُخْرِجَکُمْ مِنْ اٴَرْضِکُم) ۔
یعنی اس کی غرض سوائے استعمار، استثمار، حکومت طلبی اور دوسروں کی زمین غصب کرنے اور کچھ نہیں ہے اور یہ خارق عادت باتیں اور دعوائے نبوت سب کچھ اسی غرض سے ہے ۔
اس کے بعد انھوں نے کہا کہ ان باتوں کے جان لینے کے بعد ”تم لوگ بھی اپنی اپنی رائے کا اظہار کرو کہ اس شخص کے بارے میں کیا رویہ اختیار کیا جائے

 

“( فَمَاذَا تَاٴْمُرُونَ ) ۔
یعنی وہ لوگ حضرت موسیٰ (علیه السلام) کے بارے مشورہ کرنے بیٹھے اور انھوں نے اس معاملے میں تبادلہ خیالات کیا کیوں کہ ”امر“ کا مادہ ہمیشہ حکم دینے کے لئے نہیں آتابلکہ مشورہ کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔
یہاں پر پھر یہ توجہ کرنا چاہئے کہ بالکل یہی جملہ سورہٴ شعراء میں فرعون کی زبان سے بھی نقل ہوا ہے اور اس نے اس موقع پر اپنے اطرافیوں سے کہا کہ بتاؤ تم لوگ موسیٰ کے بارے کیا رائے دیتے ہو؟ ہم نے بیان کیا کہ ان دونوں میں اختلاف نہیں ہے ۔
یہ احتمال بھی بعض مفسرین نے ذکر کیا ہے کہ یہ جملہ ”فماذا تاٴمرون“ اطرافیان فرعون نے فرعون سے کہا، اس میں صیغہٴ جمع تعظیم کے لئے ہے، لیکن پہلا احتمال زیادہ قرین قیاس ہے ۔
بہر حال سب کی رائے یہ قرار پائی کہ انھوں نے فرعون سے” کہا اس کے اور اس کے بھائی (ہارون)کے بارے جلد بازی سے کام نہ لو اور جو کچھ بھی فیصلہ کرنا ہو وہ بعد کے لئے اٹھا رکھو لیکن جادوگروں کو اکٹھا کرنے والے افراد کو تمام شہروں میں روانہ کردو“( قَالُوا اٴَرْجِہِ وَاٴَخَاہُ وَاٴَرْسِلْ فِی الْمَدَائِنِ حَاشِرِین(َ ۔
”تاکہ یہ لوگ تمام ماہروتجربہ کار جادوگروں کو تیرے پاس آنے کی دعوت دیںاور ان کو لے کر تیرے پاس آئیں“(یَاٴْتُوکَ بِکُلِّ سَاحِرٍ عَلِیم) ۔
یہاں پر ایک سوال یہ اٹھتا ہے کہ آیا فرعون کی جماعت یہ خیال کرتی تھی کہ شاید حضرت موسیٰ کا دعوائے نبوت ایک سچا دعویٰ ہو اور اس طرح وہ انھیں آزمانا چاہتے تھے یا اس کے برعکس انھیں اپنے دعوے میں جھوٹا خیال کرتے تھے اور ہر شخص کی کوشش کو اپنی فکر وہمت کے مطابق سیاسی رنگ دیتے تھے لہٰذا ان لوگوں نے حضرت موسی (علیه السلام) کو قتل کرنے کی ٹھان لی لیکن اگر ان کو بعجلت قتل کردیا جاتا تو اس سے خوشگوار نتائج برآمد نہ ہوتے کیوں کہ ان کے دونوں معجزوں کی وجہ لوگوں کے دل ان کی طرف مائل ہوگئے تھے پس اگر وہ فوراً قتل کردئے جاتے تو نبوت کے ساتھ ساتھ مظلومیت بھی شامل ہوجاتی اور اس طرح اور زیادہ لوگ ان کے گرویدہ ہوجاتے، لہٰذا پہلے انھوں نے یہ ارادہ کیا کہ پہلے ان کے معجزانہ عمل کو خارق عادت ساحرانہ عمل سے خنثیٰ کردیں اور اس طرح انھیں بے آبرو کرنے کے بعد قتل کردیں تاکہ موسیٰ (علیه السلام) و ہارون (علیه السلام) کی داستان ہمیشہ کے لئے ختم ہوجائے، دوسرا احتمال قرائن سے زیادہ نزدیک تر ہے ۔
 

 

۱۱۳وجَاءَ السَّحَرَةُ فِرْعَوْنَ قَالُوا إِنَّ لَنَا لَاٴَجْرًا إِنْ کُنَّا نَحْنُ الْغَالِبِینَ ۔
۱۱۴ قَالَ نَعَمْ وَإِنَّکُمْ لَمِنَ الْمُقَرَّبِینَ ۔
۱۱۵ قَالُوا یَامُوسیٰ إِمَّا اٴَنْ تُلْقِیَ وَإِمَّا اٴَنْ نَکُونَ نَحْنُ الْمُلْقِینَ ۔
۱۱۶قَالَ اٴَلْقُوا فَلَمَّا اٴَلْقَوْا سَحَرُوا اٴَعْیُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْھَبُوھُمْ وَجَائُوا بِسِحْرٍ عَظِیمٍ ۔
۱۱۷ وَاٴَوْحَیْنَا إِلیٰ مُوسیٰ اٴَنْ اٴَلْقِ عَصَاکَ فَإِذَا ھِیَ تَلْقَفُ مَا یَاٴْفِکُونَ ۔
۱۱۸ فَوَقَعَ الْحَقُّ وَبَطَلَ مَا کَانُوا یَعْمَلُون۔
۱۱۹ فَغُلِبُوا ھُنَالِکَ وَانقَلَبُوا صَاغِرِینَ۔
۱۲۰ وَاٴُلْقِیَ السَّحَرَةُ سَاجِدِینَ ۔
۱۲۱ قَالُوا آمَنَّا بِرَبِّ الْعَالَمِینَ ۔
۱۲۲ رَبِّ مُوسیٰ وَھَارُونَ ۔
ترجمہ
۱۱۳۔جادوگر فرعون کے آئے اور انھوں نے کہا: اگر ہم غالب ہوگئے تو ہمیں کوئی اہم معاوضہ ملے گا ؟۔
۱۱۴۔(فرعون نے) کہا: ہاں (ضرور ملے گا اور )تم لوگ(میرے )مقرّب ہوجاؤ گے ۔
۱۱۵۔(جادوگروں نے )کہا: اے موسیٰ یا تو تم (پہلے اپنا عصا) ڈالو، یا ہم (اپنا جادو )ڈالیں ۔
۱۱۶۔(موسیٰ نے ) کہا تم (پہلے) ڈالو، اور جب انھوں نے (اپنے جادوؤں کو) ڈالا تو لوگوں کی نظر بندی کردی، اور لوگوں کو ڈرادیا اور انھوں نے ایک عظیم جادو پیش کیا ۔
۱۱۷۔(اس وقت) ہم نے موسیٰ کی طرف وحی کی کہ (ذرا) اپنے عصا کو سامنے ڈال دو(جونہی موسیٰ نے عصا ڈالاتو ) وہ فوراً( ایک بڑے اژدھے کی شکل میں ہوگیا اور) ان کے جھوٹے وسیلوں کو نگلنے لگا ۔
۱۱۸۔اس موقع پر آشکار ہوگیا اور جو کچھ انھوں نے ( کھیل) بنایاتھا نابود ہوگیا ۔
۱۱۹۰۔وہ اس موقع پر مغلوب ہوگئے اورذلیل وخوار ہوگئے ۔
۱۲۰۔اور جادوگر سب کے سب سجدہ میں گر گئے ۔
۱۲۱۔اور انھوں نے کہا کہ ہم جہانوں کے پروردگار پر ایمان لاتے ہیں ۔
۱۲۲۔جو موسیٰ وہارون کا پروردگار ہے ۔
تفسیر

آخر کار حق نے کیسے فتح پائیحضرت موسیٰ (علیه السلام) کی زندگی کے پانچ ادوار
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma