ایک سوال اور اس کا جواب

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 06
ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیاں دے کر ایمان سے بے بہرہ قومیں کیوں خوش حال ہیں؟

مذکورہ بالا آیت کے آخر میں ایک جملہ ہے جس میں ارشاد ہوتا ہے: جو شخص گھاٹے میں ہے اس کے سوا کوئی بھی اپنے کو خدا کی (انتقامی)تدبیر اور سزا سے امان میں نہیں سمجھتا، یہاں پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ جملہ پیغمبروں، پیشواؤں اور صالحین کے لئے بھی ہے یا نہیں؟
بعض کا خیال ہے کہ لوگ اس حکم سے خارج ہیں اور مذکورہ بالا آیت صرف گنہگارون کے لئے ہے لیکن اس آیت کا ظاہر یہ ہے کہ یہ حکم عمومی ہے جو سب کو اپنے دائرہ میں لئے ہوئے ہے کیوں کہ تمام پیغمبر اور ائمہ معصومین صلوات اللہ علیہم اجمعین ہمیشہ اپنے اعمال کے ناظر ونگراں رہے کہ مباد ا ان سے کوئی لغزش صادر ہوجائے کیوں کہ ہم معلوم ہے کہ ان کے معصوم ہونے کہ یہ معنی نہیں ہیں کہ کبھی ان سے کوئی مخالفت نہیں ہوسکتی(۱) بلکہ وہ اپنے ایمان اور ارادہ کی قوت سے اور اپنے اختیار اور الٰہی مدد کے ذریعے خطاؤں اور لغزشوں سے محفوظ ہیں، جب کہ وہ ترک اولیٰ سے ڈرا کرتے تھے اور اس سے ڈرا کرتے تھے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ اپنی اس ذمہ داری کو ادا نہ کرسکیںجو خدا نے ان کے دوش پر رکھی ہے یہی وجہ ہے کہ سورہٴ انعام کی آیت ۱۵ میں ہے:
<قُلْ إِنِّی اٴَخَافُ إِنْ عَصَیْتُ رَبِّی عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیمٍ
کہو میں اس سے ڈرتا ہوں کہ اگر میں نے اللہ کی نافرمانی کی تو میں روز عظیم کے عذاب میں گرفتار ہوجاؤں گا ۔
جو روایتیں آیہ مذکورہ کی تفسیر میں وارد ہوئی ہیں وہ بھی اس بات کی تاکید کرتی ہیں جو ہم نے بیان کی ہے، صفوان جمال کہتے ہیںکہ ایک روز میں امام جعفر صادق علیہ السلام کے پیچھے نماز پڑھ رہا تھا، میں نے سنا کہ آپ (علیه السلام) کہہ رہے تھے:
”اللّٰھمَّ لاتوٴمنی مکرک ۔ثم جھر۔ فقال: <فَلَایَاٴْمَنُ مَکْرَ اللهِ إِلاَّ الْقَوْمُ الْخَاسِرُونَ“۔
خدایا! مجھے اپنی تدبیر سے مطمئن نہ کر ،پھر اس کے بعد آپ (علیه السلام) نے بلند آوازسے اس آیت کی تلاوت فرمائی ”فَلَایَاٴْمَنُ مَکْرَ اللهِ إِلاَّ الْقَوْمُ الْخَاسِرُونَ“
نیز نہج ا لبلاغہ میں ہے کہ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا:
لاتاٴمنن علی خیر ھذا الامة عذاب اللہ لقول اللہ سبحانہ <فَلَایَاٴْمَنُ مَکْرَ اللهِ إِلاَّ الْقَوْمُ الْخَاسِرُونَ۔
یعنی حتی کہ اس امت کے نیک لوگوں پر بھی الٰہی سزا سے مطمئن ومامون نہ ہونا کیوں کہ خداوند کریم فرماتا ہے: ”فَلَایَاٴْمَنُ مَکْرَ اللهِ إِلاَّ الْقَوْمُ الْخَاسِرُونَ“(2)
در حقیقت خدا کی سزا سے مطمئن ومامون نہ ہونے کے معنی یہ ہیں کہ یہ شخص اپنی ذمہ داریوں کے ادا نہ کرنے یا ان میں کوتاہی واقع ہونے سے ڈرتا ہے، یہ خوف اور اس کے ساتھ ہی اس کی رحمت کی امید دونوں ساتھ ساتھ اور برابر سے مومن میں دل میں پائی جانا چاہئیں، انہی دونوں کے توزان کی وجہ سے ہر قسم کی مثبت جدوجہد جاری رہتی ہے اور یہ وہی چیز ہے جسے روایات میں ” خوف رجاء“ کہا گیا اور یہ کہا گیا ہے کہ باایمان افرا د ہمیشہ ان دو کے درمیان رہتے ہیں، اس کے بر خلاف زیاں کار مجرم اس طرح کیفر الٰہی کو بھلا بیٹھتے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو نہایت مطمئن اور امن وامان میں سمجھتے ہیں ۔
اس کے بعد والی آیت میں ایک مرتبہ پھر اقوم موجودہ کو بیدار کرنے اور پچھلی قوموں کے واقعات سے عبرت حاصل کرنے کے لئے قرآن فرماتا ہے: آیا وہ لوگ جو گذشتہ قوموں کی زمینوں کے وارث بنے ہیں اور ان کے ٹھکانوں پر آباد ہوئے ہیں، پچھلی قوموں کے واقعات سے بیدار نہ ہوں گے؟ اگر ہم چاہیں تو ان کو بھی ان گناہوں کی وجہ سے ہلاک کردیں اور جو حال ہم پچھلی قوموں کا کیا ان کا بھی وہی حال کردیں ( اٴَوَلَمْ یَھْدِ لِلَّذِینَ یَرِثُونَ الْاٴَرْضَ مِنْ بَعْدِ اٴَھْلِھَا اٴَنْ لَوْ نَشَاءُ اٴَصَبْنَاھُمْ بِذُنُوبِھِمْ ) ۔
”اور یہ بھی ہم کر سکتے ہیں کہ ان کو زندہ باقی رکھیں اور گناہوں کے اندر غوطہ ور ہونے کی وجہ سے “ ان سے ہم ادراک وشعور اور حق وباطل کی تمیز سلب کرلیں جس کے نتیجہ میں امن حقائق کو سننے کی صلاحیت باقی نہیں رہے گی، وہ کسی نصیحت کو نہ سن سکیں گے، اپنے زندگی میں حیران وپریشان رہیں گے (وَنَطْبَعُ عَلیٰ قُلُوبِھِمْ فَھُمْ لَایَسْمَعُون) ۔
خدا ان لوگوں سے کس طرح ان کے ادراک و شعور اور سوجھ بوجھ کو سلب کرلیتا ہے، تفسیر نمونہ کی جلد اول سورہٴ بقرہ کی آیت ۷ کے ذیل ہم اس کو تفصیل سے لکھ چکے ہیں ۔

 

 

 

۱۰۱تِلْکَ الْقُریٰ نَقُصُّ عَلَیْکَ مِنْ اٴَنْبَائِھَا وَلَقَدْ جَائَتْھُمْ رُسُلُھُمْ بِالْبَیِّنَاتِ فَمَا کَانُوا لِیُؤْمِنُوا بِمَا کَذَّبُوا مِنْ قَبْلُ کَذٰلِکَ یَطْبَعُ اللهُ عَلیٰ قُلُوبِ الْکَافِرِینَ ۔
۱۰۲ وَمَا وَجَدْنَا لِاٴَکْثَرِھِمْ مِنْ عَھْدٍ وَإِنْ وَجَدْنَا اٴَکْثَرَھُمْ لَفَاسِقِینَ ۔
ترجمہ
۱۰۱۔یہ وہ آبادیاں ہیں جن کے واقعات ہم تم سے بیان کرتے ہیں وہ ( اس قدر ہٹ دھرم تھے کہ ) جب ان کے پاس رسول بیانت لے کر آئے تو وہ چونکہ سابقا( حق کی )تکذیب کر چکے تھے اس لئے ( ان پر) ایمان نہ لائے، اللہ اسی طرح کافروں کے دلوں پر مہر لگاتا ہے ۔
۱۰۲۔ہم نے ان میں سے اکثر کو اپنے عہد پر باقی نہ پایا، اور ہم نے ان میں سے اکثر کو فاسق پایا ۔

 

 

 

 
۱۔ عصمت کے یہی معنی ہیں کہ ان سے کوئی غلطی ایسی نہیں ہوسکتی جو موجب دخول جہنم ہو، البتہ ان سے ترک اولیٰ ہوسکتا ہے اسی کے لحاظ سے وہ ڈرتے رہتے تھے، اب رہے اہل بیت طاہرین صلوات اللہ علیہم اجمعین تو اُن سے ترک اولیٰ بھی محال ہے، ان کا توبہ استغفار ترقی درجات اور تعلیم کے لئے تھا جیسا کہ مولف محترم کئے مقامات پر وضاحت کرچکے ہیں (مترجم) ۔
2۔کلمات قصارجملہ ۳۷۷۔
 
ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیاں دے کر ایمان سے بے بہرہ قومیں کیوں خوش حال ہیں؟
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma