تفسیر

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 06
اگر بار بار کی تنبیہ کار گر نہ ہو حضرت ”شعیب(علیه السلام)“ کے منطقی اس

حضرت شعیب (علیه السلام) کے مخالفین نے ان کے تابعین کے بہکانے کے لئے جو کوششیں کیں پہلی آیت میں ان کو بیان کیا گیا ہے، فرماتا ہے: قوم شعیب (علیه السلام) کے متکبر اور خود خواہ افراد ،جنھوں نے کفر اختیار کیا تھا، نے ان لوگوں سے کہا جن کے متعلق ان کا خیال تھا کہ وہ شعیب کی تبلیغ سے متاثر ہوگئے ہیں کہ تم نے اگر شعیب کی پیروی کی تو تم یقینا گھاٹے میں رہوگے (وَقَالَ الْمَلَاٴُ الَّذِینَ کَفَرُوا مِنْ قَوْمِہِ لَئِنْ اتَّبَعْتُمْ شُعَیْبًا إِنَّکُمْ إِذًا لَخَاسِرُونَ ) ۔
گھاٹے سے ان کی مراد وہی دنیاوی اور مادی گھاٹا تھاجو مومنو کو حضرت شعیب (علیه السلام) کی دعوت قبول کرنے کی وجہ سے ملنے والاتھاکیوں وہ ہرگز بت پرستی کی طرف پلٹنے والے نہ تھے، لہٰذا ان کو زبرستی شہر اور آبادی سے نکال دیاجانا تھا، اس طرح ان کی املاک گھر بار سب چھٹ جاتے ۔
نیزیہ احتمال بھی پیش کیا گیا ہے کہ خسارہ(گھاٹے) سے ان کا مقصد مادی گھاٹے کے علاوہ معنوی گھاٹا بھی ہو ، کیوں کہ ان کا اعتقاد تھا کہ ان کا آئین بت پرستی ہی باعث نجات ہے نا کہ شعیب کا آئین۔
جب ان کا معاملہ یہاں تک پہنچا تو اپنی گمراہی کے علاوہ، دوسروں کو گمراہ کرنے کی بھی کوشش کرنے لگے، اس طرح ان کے ایمان لانے کی کوئی امید باقی نہ رہ گئی، لہٰذا برائی کو جڑ سے اکھاڑ پھنکنے کا قانون الٰہی حرکت میں آیا اور عذاب الٰہی ان تک آپہنچا ” ایک زبردست اور وحشتناک زلزلہ نے ان کو آلیا، جس کے نتیجے میں صبح کے وقت ان کے بے جان جسم ان کے گھروں میں پڑے کے پڑے رہ گئے“(فَاٴَخَذَتْھُمْ الرَّجْفَةُ فَاٴَصْبَحُوا فِی دَارِھِمْ جَاثِمِینَ ) ۔
اسی سورہ کی آیت ۷۸ میں” جاثمین“کی تفسیر گزچکی ہے نیز یہ بھی بیان ہوچکا ہے کہ ان کی نابودی کے مختلف اسباب وعلل جو بیان کئے گئے ہیں ان میں آپس میں کوئی تضاد نہیں ہے، حضرت شعیب (علیه السلام) کی قوم کے بارے میں اس آیت میں ہے کہ ”زلزلہ“ سے ہلاک ہوئی، ہود ۹۴ میں ہے کہ ”صیحہ آسمانی “ (آسمانی آواز) سے ہلاک ہوئی، شعراء ۱۸۹ میں ہے کہ :ایک ہلاکت آفرین ابر کے سائبان کے ذریعہ ہلاک ہوئی، حالانکہ سب کی بازگشت ایک ہی چیز کی طرف ہے، اور وہ یہ کہ ایک وحشتناک صاعقہ (بجلی) ایک تاریک ابر سے ان کی آبادی پر آگری، جس کے نتیجے میں (جیسا کہ اس موقع پر عام طور سے ہوا کرتا ہے زمین میں زبردست زلزلہ آگیا جس کی وجہ ان کی ساری زندگی تباہ وبرباد ہوگئی ۔
اس کے بعد اس وحشتناک زلزلہ کی تباہ کاریوں کو بعد والی آیت میں اس طرح بیان فرمایاگیا ہے: جن لوگوں نے شعیب (علیه السلام) کو جھٹلایا اس طرح نیست ونابود ہوگئے گویا کبھی ان گھروں زندگی بسر نہیں کرتے تھے ( الَّذِینَ کَذَّبُوا شُعَیْبًا کَاٴَنْ لَمْ یَغْنَوْا فِیھَا) ۔(۱)
آخر آیت میں فرمایا گیا ہے: جن لوگوں نے شعیب کو جھٹلایا وہ گھاٹا اٹھانے والے تھے، مومن نہ تھے ( الَّذِینَ کَذَّبُوا شُعَیْبًا کَانُوا ھُمَ الْخَاسِرِینَ) ۔
گویا دوجملے حضرت شعیب (علیه السلام) کے مخالفوں کے اعتراض کا جواب ہے کیوں کہ انھوں نے یہ کہا تھا حضرت شعیب (علیه السلام) کے ماننے والے اگر اپنے پہلے دین پر نہ لوٹے تو وہ ان کو اپنے شہر سے باہر نکال دیں گے، قرآن کہتا ہے کہ اللہ نے ان کو اس طرح نابود کردیا جیسے وہ وہاں پر آباد ہی نہ تھ، نکالنے کا سوال تو بعد میں پیدا ہوتا ہے ۔
نیز یہ کہ جو انھوں نے کہا تھا کہ حضرت شعیب (علیه السلام) کے ماننے والے گھاٹا اٹھائیں گے اس کے جواب میں قرآن نے کہا کہ اب دیکھو کون زیاں کارہے تم یا تابعین شعیب (علیه السلام)!۔
اس کے بعد آخری آیت میں حضرت ” شیعب(علیه السلام)“ کی آخری بات ہمارے سامنے آتی ہے کہ ”انھوں نے گنہگار قوم سے منہ پھیر لیا اور کہا کہ میں نے اپنے پروردگار کی رسالت پہنچادی اور کافی نصیحت بھی اور کسی قسم کی خیر خواہی سے دریغ نہیں کیا“ ( فَتَوَلَّی عَنْھُمْ وَقَالَ یَاقَوْمِ لَقَدْ اٴَبْلَغْتُکُمْ رِسَالَاتِ رَبِّی وَنَصَحْتُ لَکُمْ) ۔
جب حالات یہ ہوں تو اس کا فر قوم کے انجام بد پر مجھے کوئی افسوس نہیں کیوں کہ ان کی ہدایت کے لئے میں نے اپنی آخری کوشش بھی کرلی لیکن انھوں نے کسی طرح حق کے سامنے سرتسلیم خم نہ کیا، لہٰذا ان کا یہ انجام تو ہونا ہی تھا ( فَکَیْفَ آسیٰ عَلیٰ قَوْمٍ کَافِرِین) ۔
یہ جملہ حضرت ”شعیب(علیه السلام)“ نے ان لوگوں کی ہلاکت کے بعد کہا تھا یا اس سے قبل؟ دونوں امکانات ہوسکتے ہیں، ممکن ہے کہ انھوں نے یہ جملہ ان کی نابودی سے پہلے کہا ہو، لیکن جس وقت قرآن اس واقعے کو بیان کیا تو اس کا ذکر آخر میں کیا گیا ۔
لیکن اگر آخر جملے پر نظر کی جائے جس میں کہا گیا ہے: اس کافر قوم کے دردناک انجام پر کوئی جائے تاٴسف نہیں ہے، تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ کلام نزول عذاب کے بعد کا ہے اور جیسا کہ اسی سورہ کی آیت ۷۹ میں اشارہ کیا گیا ہے، اس طرح کی باتیں مردوں سے اکثر کی جاتی ہیں (اس کے شواہد بھی اسی جگہ بیان کئے گئے ہیں ملاحظہ ہو) ۔

 

 

 

۹۴ وَمَا اٴَرْسَلْنَا فِی قَرْیَةٍ مِنْ نَبِیٍّ إِلاَّ اٴَخَذْنَا اٴَھْلَھَا بِالْبَاٴْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ لَعَلَّھُمْ یَضَّرَّعُونَ ۔
۹۵ ثُمَّ بَدَّلْنَا مَکَانَ السَّیِّئَةِ الْحَسَنَةَ حَتَّی عَفَوا وَقَالُوا قَدْ مَسَّ آبَائَنَا الضَّرَّاءُ وَالسَّرَّاءُ فَاٴَخَذْنَاھُمْ بَغْتَةً وَھُمْ لَایَشْعُرُونَ ۔
ترجمہ
۹۴۔ ہم نے کسی شہر اور آبادی میں کوئی نبی نہیں بھیجا، الّا یہ کہ اس کے رہنے والوں کو سختیوں اور تکلیفوں میں مبتلا کیا تاکہ وہ (ہوش میں آئیں اور خدا کی طرف) پلٹیں ۔
۹۵۔ اس کے بعد(جس وقت کسی تنبیہ نے ان پر کوئی اثر نہ کیا تو ) ہم نے نیکی (اور نعمت کی فراوانی ) کوبجائے بدی (اور تکلیف واذیت) کے قرار دیا، اس طرح کہ ان میں ہر طرح کی (نعمت میں ) زیادتی ہوگئی (اور نعمتوں میں اس قدر اضافہ ہوگیا کہ وہ مغرور ہوگئے اور) کہنے لگے ہمارے آباوٴ اجداد کو تکلیفیں اور راحتیں پہنچی تھی، پس ہم نے ان کو یکا یک پکڑ کیاایسی حالت میں کہ ان کو اس کا (پہلے سے ) احساس نہ ہو ۔
 

 

 
۱۔ ”یغنوا“ مادہ ”غنی“ سے ہے جس کے معنی کسی جگہ اقامت پذیر ہونے کے ہیں، اور جیسا کہ علامہ طبرسی نے مجمع البیان میں فرمایا ہے کہ بعید نہیں کہ یہ ”غنی“ کے مفہوم اصلی یعنی ”بے نیازی“ سے ماخوذ ہو کیوں کہ جس کے پاس رہنے کو اپنا مکان ہوتا ہے وہ دوسرے مکانات سے بے نیاز ہوجاتا ہے ۔
 
اگر بار بار کی تنبیہ کار گر نہ ہو حضرت ”شعیب(علیه السلام)“ کے منطقی اس
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma