”خلق“ و ”امر“ سے کیا مراد ہے؟

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 06
قبولیت دعا کی شرائطالله نے دنیا کو ایک لحظہ میں کیوں پیدا نہ کیا ؟

”خلق“ و ”امر“ سے کیا مراد ہے؟ اس بارے میں مفسرین کے درمیان کافی بحث ہوئی ہے لیکن اس آیت میں جو قرائن ہیں نیز دیگر آیات کے قرائن اگر نظر کی جائے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ”خلق“ سے مراد آفرینش اوّل ہے اور ”امر“ سے مراد وہ قوانین ونظام ہے جو عالم ہستی پر حکومت کرتا ہے اور جس کی وجہ سے سارا نظام جہانِ چل رہا ہے ۔
یہ تعبیر درحقیقت ان لوگوں کا جواب ہے جو یہ خیال کرتے ہیں کہ خدا نے اس جہان کو پیدا کرنے کے بعد اپنے حال پر چھوڑدیا اور خود کنارے بیٹھ گیا اور اب وہ کچھ نہیں کررہا ہے، دوسرے لفظوں میں وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ عالمِ ہستی اپنی ایجاد میں تو خدا کا محتاج ہے لیکن اپنی بقا میں اسے خدا کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔
یہ آیت کہتی ہے: جس وقت کائنات اپنی آفرینش میں اس کی محتاج ہے اسی طرح تدبیر، دوام حیات اور اس کے چلانے میں بھی اس کی ذات سے وابستہ ہے، ایگ ایک لحظہ کے لئے لطفِ خدا اس کا ساتھ چھوڑدے تو پورا نظامِ عالمِ تباہ وبرباد ہوجائے ۔
بعض فلاسفہ کا یہ خیال ہے کہ عالم ”خلق“ سے عالم ”مادہ“ اور عالم ”امر“ سے عالمِ ارواح مقصود ہے کیونکہ عالم خلق تدریجی پہلو رکھتا ہے اور یہ جہان مادّہ کی خصوصیت ہے اور عالم امر فوری ودفعةً پہلو رکھتا ہے اور یہ ماوراء مادّہ کی خصوصیت ہے جیسا کہ قرآن میں ہے:
<إِنَّمَا اٴَمْرُہُ إِذَا اٴَرَادَ شَیْئًا اٴَنْ یَقُولَ لَہُ کُنْ فَیَکُونُ
جب خدا کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اس کو حکم دیتا ہے کہ تُو ہوجا! تب وہ ہوجاتی ہے (یٰسین/۸۲)
لیکن اگر لفظ ”امر“ کے قرآن میں مواردِ استعمال پر نظر کی جائے یہاں تک کہ اگر جملہٴ ”والشمس والقمر والنجوم مسخرات باٴمرہ“ پر نظر کی جائے جو زیر بحث آیت آیت میں ہے، تو اس سے سے معلوم ہوتا ہے کہ ”امر“ کے معنی ہر طرح کے فرمانِ الٰہی کے ہیں، چاہے وہ مادّی دنیا سے متعلق ہو یا ماورائے مادّہ سے (غور کریں)
آیت کے آخر میں ارشاد فرمایا گیا ہے: برکت کرنے والا ہے وہ خدا جوسارے جہانوں کا پالنے والا ہے (تَبَارَکَ اللهُ رَبُّ الْعَالَمِینَ)
در حقیقت یہ جملہ ارض وسماء، ماہ وخورشید اور ستاروں کی خلقت اور ان کی تدبیر کے ذکر کے بعد مقام مقدّسِ الٰہی کی ایک طرح کی ستائش ہے، جو بندوں کو تعلیم دینے کی غرض سے کی گئی ہے ۔
”تَبَارَکَ “ برکت کے مصدر سے ہے، اس کی بھی اصل ”برک ’“(بروزن درک)ہے، جس کے معنی اونٹ کے سینہ کے ہیں اور چونکہ اونٹ جب یہ چاہتا ہے کہ کسی جگہ جم کر بیٹھے، اپنا سینہ زمین سے چسپاں کردیتا ہے، اس بناپر اس لفظ کے معنی میں ”ثابت رہنا “ شامل ہوگیا، پھر اس کے بعد جو نعمت بھی پائیدار اور ثابت رہنے والی ہوئی اسے برکت کہا جانے لگا، بعد ازاں ہر اس موجود کو جو عمر طولانی رکھتی ہو یا اس کے آثار مستمر ومسلسل ہوں ”موجود مبارک“ یا ”پُربرکت“ کہا گیا، اس کے علاوہ ہمیں یہ بھی ملتا ہے کہ تالاب کو بھی ”برکة“ کہتے ہیں یہ بھی اسی وجہ سے ہے کہ اس میں پانی دیر تک ٹھہرا رہتا ہے ۔
یہاں سے معلوم ہوا کہ ایک ”پُربرکت“ سرمایہ وہ ہے جو جلدی زمال پذیر نہ ہو، اسی طرح ایک ”مبارک“ موجود وہ ہے جس کے فیض کے آثار ایک طولانی مدّت تک برقرار رہیں، لہٰذا یہ بات بدیہی ہے کہ اس مفہوم کا بہترین مصداق خداوندعالم کی ذات بابرکت ہے، وہ ایک وجود مبارک ازلی وابدی ہے جو تمام برکتوں اور نیکیوں کا سرچشمہ ہے جس خیر وبرکت ہمیشہ جاری وساری رہنے والی ہے <تَبَارَکَ اللهُ رَبُّ الْعَالَمِینَ (سورہٴ انعام کی آیت۹۲ کے ذیل میں بھی ہم اسی موضوع پر گفتگو کر آئے ہیں ملاحظہ ہو) ۔

 

۵۵ ادْعُوا رَبَّکُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْیَةً إِنَّہُ لَایُحِبُّ الْمُعْتَدِینَ-
۵۶ وَلَاتُفْسِدُوا فِی الْاٴَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِھَا وَادْعُوہُ خَوْفًا وَطَمَعًا إِنَّ رَحْمَةَ اللهِ قَرِیبٌ مِنَ الْمُحْسِنِینَ-
ترجمہ
۵۵۔ اپنے پروردگار کو گڑگڑا کر اور تنہائی میں پکارو اور (زیادتی سے ہاتھ اٹھالو کیونکہ) وہ زیادتی کرنے والوں کو دوستی نہیں رکھتا ۔
۵۶۔ اور زمین میں فساد نہ کرو جبکہ اس کی اصلاح ہوچکی ہے، اور خدا کو خوف وامید کی حالت میں پکارو (خوف ذمہ داریوں کا؛ امید اس کی رحمت کی) کیونکہ الله کی رحمت نیکوکاروں سے نزدیک ہے ۔

قبولیت دعا کی شرائطالله نے دنیا کو ایک لحظہ میں کیوں پیدا نہ کیا ؟
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma