اصحاب اعراف کون لوگ ہیں؟

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 06
جنت کی نعمتیں دو زخیوں پر حرام ہیںاعراف، جنت کی طرف ایک اہم گزرگاہ

اردو

جیسا کہ ہم نے سابقاً کہا کہ ”اعراف“ نمایاں اور اٹھی ہوئی زمین کو کہتے ہیں، اگر ان قرائن پر نظر کی جائے جو آیہ مذکورہ بالا میں پائے جاتے ہیں، نیز روایات کا مطالعہ کیا جائے تو ان سے پتہ چلتا ہے کہ خوش قسمتی اور بدقسمتی کے دو مراکز (جنت ودوزخ) کے درمیان یہ ایک اونچا مقام ہوگا جو دونوں مقاموں کے درمیان مانع، فاصل اور پردے کا کام دے گا، اس کی وجہ سے جنت ودوزخ کے درمیان فاصلہ ہوگا، اس کا نام ”اعراف“ ہے جس پر سے یہ لوگ دونوں طرف کے افراد کا مشاہدہ کریں گے اور ان کے نورانی یا سیاہ چہروں کی وجہ سے انھیں پہچان لیں گے ۔
اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ یہ ”اصحاب اعراف“ کون لوگ ہیں اور اس مقام پر کن افراد کو جگہ ملے گی؟
اوپر کی چار آیتوں کو اگر پڑھیں تو معلوم ہوگا کہ ان افراد کے لئے دو طرح کی مختلف ومتضاد صفتیں ذکر کی گئی ہیں:
پہلی اور دوسری آیت میں اعراف والوں کی کیفیت اس طرح بیان کی گئی ہے کہ انھیں آرزو ہے کہ جنت میں جائیں لیکن کچھ مواقع ایسے درپیش ہیں جن کی وجہ سے وہ جنت میں نہیں جاسکتے جب وہ بہشت والوں کودیکھیں گے تو انھیں سلام کریں گے اور اس بات کی تمنا کریں گے کہ کاش وہ بھی ان کے ساتھ ہوتے لیکن وہ ابھی جنت میں داخل نہیں ہوسکتے اور جب ان کی نظر دوزخیوں پر پڑے گی تو ان کے دردناک انجام کو دیکھ کر وحشت زدہ ہوں گے اور خدا سے پناہ مانگیں گے ۔
لیکن تیسری اور چوتھی آیت سے پتہ چلتا ہے وہ بااثر اور قدرت مند افراد ہیں جو دوزخ والوں کی سرزنش کریں گے اور جو بندے مقام اعراف میں رہ گئے ہیں ان کی مدد کریں گے تاکہ وہ اس سے گزر کر منزل سعادت تک پہنچ جائیں ۔
اعراف اور اصحاب اعراف کے متعلق جو روایتیں ہم تک پہنچی ہیں وہ بھی دو متضاد گروہوں کی مظہر ہیں اور بہت سی روایات جو اہل بیت طاہرین(علیه السلام) سے منقول ہیں ان میں ہمیں ملتا ہے:
”نحن الاعراف“
ہم اعراف ہیں(۱)
یا یہ کہ:
”آل محمد ھم الاعراف“
آلِ محمد اعراف ہیں(۲)
اسی طرح دوسری حدیثیں بھی ہیں ۔
دیگر روایات میں ہے:
”ھم اکرم الخلق علی الله تبارک وتعالیٰ“
وہ خدائے تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ محترم بندے ہیں(۳)
یا یہ کہ:
”ھم الشہداء علی الناس والنبیّون شہدائھم
وہ لوگوں پر گواہ ہیں اور پیغمبرانِ خدا ان کے اوپر گواہ ہیں(۴)
نیز اسی طرح کی دیگر روایات ہیں جن کا مفہوم یہ ہے کہ یہ افراد انبیاء، آئمہ اور صالحین ہیں ۔
لیکن اس کے مقابلے میں دیگر روایات ہیں جن کا مطلب یہ ہے کہ وہ پسماندہ بندے ہوں گے جن کی نیکیاں اور بدیاں برابر ہوں گی یا وہ گنہگار ہوں گے جنھوں نے اعمال نیک بھی کئے ہوں گے، جیسے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی یہ حدیث ہے:
”ھم قوم استوت حسناتھم وسیئاتھم فان ادخلھم النار فبذنوبھو وان ادخلھم الجنة فبرحمتہ“
یہ وہ لوگ ہیں جن کے حسنات وسیّئات مساوی ہیں، اگر خدا نے انھیں دوزخ میں بھیج دیا تو ان کے گناہوں کی وجہ سے اور اگر جنت میں داخل کردیا تو رحمت اپنی رحمت کی وجہ سے(۵)
اس طرح کی متعدد روایات اہلِ سنّت کی تفاسیر میں حذیفہ، عبد الله ابن عباس اور سعید بن جبیر وغیرہ سے مروی ہیں جن کا مضمون بھی یہی کچھ ہے(6)
انہی تفاسیر میں کچھ مدارک اس بات پر بھی دلالت کرتے ہیں کہ اہلِ اعراف صلحاء، فقہاء اور علماء ہوں گے یا الله تعالیٰ کے فرشتے ہوں گے ۔
ان آیات وروایات کا ظاہری مفہوم ابتدائی نظر میں متضاد معلوم ہوتا ہے ، شاید یہی بات باعث بنی کہ مختلف مفسّرین نے مختلف تفسیریں کی ہیں لیکن اگر ذرا غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ان آیات وروایات میں کسی قسم کا تضاد نہیں ہے بلکہ یہ سب ایک ہی حقیقت کا اظہار کررہی ہیں ۔
اس کی توضیح یہ ہے کہ جس طرح ہم نے سابقاً بھی کہا ہے کہ تمام آیات وروایات کو دیکھنے کے بعد یہ معلوم ہوتا ہے کہ اعراف ایک سخت وصعب العبود راستہ ہے، جو محل سعادت جاودانی یعنی بہشت سے پڑتا ہے یہ بات فطری ہے کہ قومی لوگ یعنی صالح وپاک افراد تو بہت جلدی سے اس گذرگاہ سے گزرجائیں گے لیکن کچھ کمزور بندے، یعنی جنھوں نے نیک وبد دونوں طرح کے اعمال کو آپس میں ملادیا ہے وہ اس راستہ پر تھک کر بیٹھ جائیں گے ۔
نیز یہ بات بھی قرینِ قیاس ہے کہ گروہوں کے سرپرست اور پیشوایانِ قوم، ان قائدین ِ لشکر کی طرح جو سخت وخطرناک راستوں پر لشکر کے آخر میں چلتے ہیں تاکہ کوئی سپاہی اگر آگے بڑھنے سے رہ جائے تو اس کی مدد کرکے اسے خطرے سے باہر نکال دیں، بالکل اسی طرح یہ پیشوا اور امام اعراف میں ٹھہر جائیں گے تاکہ موٴمنین میں جو ضعیف افراد ہیں ان کی مدد کرسکیں گے اور وہ بندے جن میں نجات حاصل کرنے کی صلاحیّت ہے وہ ان کی مدد کے زیرِسایہ نجات پاسکیں گے ۔
بنابریں ”اعراف“ میں دو طرح کے لوگ پائے جائیں گے، ایک تو وہ ضعیف گنہگار افراد جو رحمتِ الٰہی میں جگہ پائیں گے، دوسرے وہ رہبران قوم اور عظیم پیشوا جو ہر جگہ ضعیف الحال تابعیں کی مدد کریں، اس بناپر ان آیات کے اگلے حصّہ میں انہی ضعیف الحال بندوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جبکہ بعد والے حصّہ میں بزرگانِ قوم انبیاء وآئمہ وصلحاء کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔
بعض روایات میں بھی اس مطلب کی تائید ملتی ہے جیسے علی بن ابراہیم میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:
”الاعراف کثبان بین الجنة والنّار، والرجال الائمة، یقولون علی الاعراف مع شیعتھم وقد سبق الموٴمنون الی الجنة بلاحساب---“
اعراف جنت اور دوزخ کے درمیان میں کچھ ٹیلے ہوں گے اور ”رجال“ سے مراد آئمہ طاہرین(علیه السلام) ہیں ت واپنے شیعوں کے ساتھ اعراف پر کھڑے ہوں گے اس حالت میں موٴمنین بغیر حساب کتاب کے جنت میں داخل کیے جاچکے ہوں گے ۔
اس کے بعد مزید یہ بھی ہے کہ: آئمہ طاہرین(علیه السلام) اور پیشوایانِ برحق اس موقع پر انے گنہگار پیروکاروں سے کہیں گے کہ اچھی طرح سے دیکھوں کہ تمھارے نیک اعمال بھائی کس طرح جنت میں بغیر حساب کتاب کے جلدی سے چلے گئے ہیں اور یہ وہی موقع ہے جس کے متعلق الله نے فرمایا ہے: ”سلام علیکم لم یدخلوھا وھم یطمعون“(یعنی وہ بہشتیوں پر سلام کریں گے در آنحالیکہ ابھی خود بہشت میں داخل نہ ہوئے ہوں گے اگرچہ اس کے آرزومند ہوںگے) ۔
بعد ازاں اُ ن سے کہا جائے گا کہ ذرا دشمنانِ حق کو بھی دیکھ لو کہ کس طرح آگ کے بھڑکتے ہوئے شعلوں میں جل رہے ہیں اور یہ وہی حال ہے جس کا الله نے اظہار فرمایا ہے: <وَإِذَا صُرِفَتْ اٴَبْصَارُھُمْ تِلْقَاءَ اٴَصْحَابِ النَّارِ قَالُوا رَبَّنَا لَاتَجْعَلْنَا مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِینَ--- اس کے بعد دوزخیوں سے کہیں گے کہ دیکھوں یہ بندے (یعنی پیروکار اور شیعہ جو گنہگار ہیں )وہی لوگ ہیں جن کے متعلق تم دنیا میں کہا کرتے تھے کہ ان پر الله کی رحمت ہرگز نہ ہوگی (حالانکہ اب الله کی رحمت ان کے شاملِ حال ہوچکی ہے) اس کے بعد ان بندوں کو جو گنہگار تو ہیں لیکن اپنے ایمان اور بعض اعمالِ نیک کی وجہ سے اس بات کی صلاحیّت رکھتے ہیں کہ انھیں بخش دیا جائے آئمہ ہُدیٰ کی طرف سے یہ حکم دیا جائے گا کہ تم بھی بہشت کی طرف روانہ ہوجاؤ کسی قسم کے خوف اور غم کی ضرورت نہیں(7)
اسی طرح کا مضمون اہلِ سنت کی تفسیروں میں بھی حذیفہ کی روایت سے حضرت پیغمبر سے منقول ہوا ہے(8)
ہم ایک مرتبہ اور تکرار کرتے ہیں کہ حشر ونشر کی تمام جزئیات وتفاصیل جو احادیث وآیات میں بیان ہوئی ہیں وہ بعینہِ اس طرح سے ہیں جیسے ہم دور سے ایک سایہ دیکھیں اور پھر اس کی کیفیت بیان کریں، حالانکہ وہ سایہ ہماری زندگی سے بالکل مختلف ہوتا ہے اور ہم اپنے نارسا اور کوتاہ الفاظ کے ذریعے اس کی حکایت کرتے ہیں ۔
ایک قابل توجہ نکتہ یہاں پر یہ ہے کہ جہانِ آخرت کی زندگی ان نمونوں اور معیاروں کی بنیاد ہے جو اسی دنیا میں پائے جاتے ہیں، اعراف کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہے کیونکہ اس دنیا میں لوگ تین گروہوںمیں تقسیم ہیں:
ایک تووہ سچّے مومن بندے جواپنے ایمان وعمل کی وجہ سے ابدی سکون کی منزل تک پہنچتے میں کامیاب ہوگئے ہیں ۔
دوسرے وہ معاند اور ضدّی دشمنانِ حق جو کسی طرح سے راہِ حق پر آنا گوارہ نہیں کرتے ۔
تیسرا وہ گروہ ہے جو ان دونںو گروہوں کے درمیان ایک سخت گذرگاہ پر ہے، پیشوایانِ حق کی زیادہ تر توجہ انہی پر ہے وہ ان کے پہلو میں رہیں گے اور ان کا ہاتھ پکڑکر اعراف کے مرحلہ سے انھیں نجات دیںگے اور موٴمنین کی صف میں لاکر کھڑا کردیں گے ۔
یہاں سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ قیامت کے روز انبیاء کرام اور ائمہ طاہرین(علیه السلام) کا ان بندوں کے معاملات میں دخل دینا اور انھیں اس طرح جنّت میں لے جانا خداوندکریم کی قدرتِ مطلقہ اور اس کی حاکمیت کے منافی نہیں ہے، کیونکہ یہ حضرات جو کچھ بھی کرتے ہیں وہ خدا ہی کے اذن اور فرمان سے کرتے ہیں ۔

۵۰ وَنَادیٰ اٴَصْحَابُ النَّارِ اٴَصْحَابَ الْجَنَّةِ اٴَنْ اٴَفِیضُوا عَلَیْنَا مِنَ الْمَاءِ اٴَوْ مِمَّا رَزَقَکُمْ اللهُ قَالُوا إِنَّ اللهَ حَرَّمَھُمَا عَلَی الْکَافِرِینَ-
۵۱ الَّذِینَ اتَّخَذُوا دِینَھُمْ لَھْوًا وَلَعِبًا وَغَرَّتْھُمَ الْحَیَاةُ الدُّنْیَا فَالْیَوْمَ نَنسَاھُمْ کَمَا نَسُوا لِقَاءَ یَوْمِھِمْ ھٰذَا وَمَا کَانُوا بِآیَاتِنَا یَجْحَدُونَ-
ترجمہ
۵۰۔ دوزخ والے جنت والوں سے پکارکر کہیں گے کہ تھوڑا پانی، یا خدا نے تمھیں جو روزی بخشی ہے اس میں سے کچھ ہمیں بھی دے دو، تو وہ (جنّت والے اس کے جواب میں) کہیں گے کہ خدا نے اس کو کافروں پر حرام قرار دیا ہے ۔
۵۱۔ (ایسے کافر) جو خدا کے دین اور قانون کو کھیل تماشا سمجھتے تھے اور دنیاوی زندگی نے انھیں دھوکا دیا تھا، پس آج کے روز ہم انھیں اسی طرح بھلادیں گے جس طرح انھوں نے آج کے دن کی ملاقات کو بھلا دیا تھا اور ہماری نشانیوں کا انکار کرتے تھے ۔
 


۱۔ ۲، ۳۔ تفسیر برہان، ج۲، ص۱۷، ۱۸، ۱۹-
۴۔ نور الثقلین، ج۲، ص۳۳، ۳۴-
۵۔ تفسیر برہان، ج۲، ص۱۷-
6۔ تفسیر طبری، ج۷، ص۱۳۷ و۱۳۸، مذکورہ آیت کے ذیل میں-
7۔ تفسیر برہان، ج۲، ص۱۹، ۲۰-
8۔ تفسیر طبری، ج۸، ص۱۴۲،۱۴۳-
 
جنت کی نعمتیں دو زخیوں پر حرام ہیںاعراف، جنت کی طرف ایک اہم گزرگاہ
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma