”ظالم ترین افراد“

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 06
دوزخ میں پیشواؤں اور پیروؤں کا جھگڑاایک اور سازش کا جواب

اس آیت اور اس کے بعد والی آیات میں ان لوگوں کے انجام بد کے کچھ حالات بیان کیے گئے ہیں جو خدا پر افترا و بہتان باندھتے ہیں اور خدا کی آیتوں کو جھٹلاتے ہیں ۔ پہلے بیان کیا گیا ہے کہ مرنے کے بعد ان کی کیا حالت ہوگی: کون شخص ان لوگوں سے زیادہ ظالم ہے جو خدا پر بہتان لگاتے ہیں، یا اس کی آیتوں کو جھٹلاتے ہیں (فَمَنْ اٴَظْلَمُ مِمَّنْ افْتَریٰ عَلَی اللهِ کَذِبًا اٴَوْ کَذَّبَ بِآیَاتِہِ) ۔
جیسا کہ سورہٴ انعام کی آیت ۲۱ کی تفسیر میں ہم نے اشارہ کیا کہ قرآن کی متعدد آیتوں میں ”ظالم ترین افراد“ کا مختلف طریقوں سے ذکر کیا گیا ہے، لیکن جب ان کی ان صفات کو دیکھا جاتا ہے جو بیان کی گئی ہیں تو سب کی اصل ایک نظر آتی ہے اور وہ ہے شرک و بت پرستی اور پروردگار کی آیتوں کی تکذیب، زیر بحث آیت میں ان کے علاوہ خدا پر تہمت و افتراء کا بھی اضافہ کیا گیا ہے جس کا ان لوگوں کی ایک نمایاں صفت کے طور پر ذکر کیا گیا ہے ۔
اگر اس نکتہ کی طرف توجہ کی جائے کہ تمام بدبختیوں کی جڑ شرک ہے اور تمام سعادتوں کی اصل توحید ہے، تو اس سے واضح ہوجائے گا کہ یہ لوگ جو گمراہ و گمراہ کنندہ ہیں، کس بناپر ظالم ترین افراد ہیں ۔ یہ اپنے اوپر بھی ظلم کرتے ہیں اور اس معاشرہ پر بھی ظلم کرتے ہیں جس کا یہ حصہ ہیں، کیونکہ یہ ان میں نفاق و افتراق کا بیج بوکر وحدت ، ترقی اور اصلاحِ بشر کے راستہ پر ایک بہت بڑا سنگ راہ بن جاتے ہیں ۔(۱)
بعد ازاں وقت مرگ ان کی حالت کو ان الفاظ میں بیان فرمایا گیا ہے: یہ لوگ چند روز کے لئے جتنا ان کے مقدر میں ہے اس سے اپنا حصّہ حاصل کرتے ہیں اور اللہ کی مختلف نعمتوں سے اپنے نصیب بھر بہرہ ور ہوتے ہیں یہاں تک کہ ان کی عمر کا جام لبریز ہوجاتا ہے اور اجل آجاتی ہے ایسے موقع پر موت کے فرشتے جو اُن کی روحیں لے جانے کے لئے مقرر ہیں وہ ان کے سر پر نازل ہوجاتے ہیں (اٴُوْلٰئِکَ یَنَالُھُمْ نَصِیبُھُمْ مِنَ الْکِتَابِ حَتَّی إِذَا جَائَتْھُمْ رُسُلُنَا یَتَوَفَّوْنَھُمْ) ۔
جملہ بالا میں لفظ ”کتاب“ سے مراد اللہ کی وہ نعمتیں ہیں جو اس نے اپنے بندوں کے لئے مقرر فرمائی ہیں اگر چہ بعض مفسرین نے اس احتمال کا ذکر کیا ہے کہ اس سے مراد ”الٰہی پاداش عمل“ ہے یا ان دونوں سے اعم معنی مراد ہیں ۔ لیکن اگر لفظ ”حتّیٰ“ پر توجہ کی جائے جو عام طور سے وہاں استعمال ہوتا ہے جہاں کسی چیز کے اختتام کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہو تو معلوم ہوگا کہ ”کتاب“ سے مراد یہی دنیا کی گونا گوں نعمتیں ہیں جن میں نیکو کار و بدکار دونوں طرح کے افراد کا حصہ مقرر ہے مرتے وقت جن کا خاتمہ ہوجاتا ہے نہ کہ مجازات الٰہی جن کا خاتمہ مرتے وقت نہیں ہوتا، ان نعمتوں کی تعبیر لفظ ”کتاب“ سے اس لئے کی گئی ہے کہ ان کو ان مسائل سے شباہت حاصل ہے جن کا حصّہ رسد مقرر ہوتا ہے اور ریکارڈبک میں اس کا اندراج کیا جاتا ہے ۔
بہر حال مرنے کے ساتھ ہی ان کی پاداش عمل شروع ہوجاتی ہے ۔ سب سے پہلے موت کے فرشتے ان کے ساتھ سختی سے پیش آتے ہیں اور ”ان سے پوچھتے ہیں کہ تمھارے وہ معبود کہاں ہیں خدا کو چھوڑ کر تم جن کی پرستش کرتے تھے“ اور تمام عمران کی پرستش کا دم بھرتے تھے اور اپنی تمام چیزوں کو ان پر قربان کرتے تھے (قَالُوا اٴَیْنَ مَا کُنتُمْ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللّٰہِ) ۔
وہ جب یہ دیکھیں گے کہ جو کچھ ان کے پاس تھا وہ ختم ہوگیا ہے اور جو امیدیں ان خود ساختہ خداؤں سے باندھ رکھی تھیں وہ سب خاک ہوگئی ہیں تو وہ جواب میں کہیں گے:”وہ سب گم ہوگئے اور ہم سے دور ہوگئے“ اب ہمیں ان کا کوئی نشان ملتا ، نہ ان میں یہ طاقت ہے کہ وہ یہ عذاب ہم سے دور کرسکیں اور ہماری تمام عبادتیں جو ان کے لئے تھیں وہ سب بے سود ثابت ہوئیں (قَالُوا ضَلُّوا عَنَّا) ۔
اور اس طرح وہ خود اپنے خلاف گواہی دیں گے کہ وہ کافر تھے (وَشَھِدُوا عَلیٰ اٴَنْفُسِھِمْ اٴَنَّھُمْ کَانُوا کَافِرِینَ) ۔
اگر چہ اس عبارت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ فرشتے ان سے صرف سوال کریں گے اور وہ جواب دیں گے، لیکن فی الحقیقت یہ ان کی ایک نفساتی کیفیت ہوگی مقصد یہ ہے کہ ان کی جو خراب حالت مرنے کے بعد ہونے والی ہے وہ انھیں یاد لائی جائے کہ کس طرح انھوں نے ایک عمر غلط راستہ پر گزار دی اور اپنا تمام سرمایہٴ وجود تباہ کردیا اس کے عوض انھیں کچھ بھی نہ ملا ۔ پلٹنے کا راستہ بھی ان کے لئے بند ہوگیا اور یہ ان کے کیفر اعمال کا پہلا تازیانہ ہے جو اللہ کی طرف سے ان کی روح پر لگایا جائے گا ۔

۳۸ قَالَ ادْخُلُوا فِی اٴُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِکُمْ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ فِی النَّارِ کُلَّمَا دَخَلَتْ اٴُمَّةٌ لَعَنَتْ اٴُخْتَھَا حَتَّی إِذَا ادَّارَکُوا فِیھَا جَمِیعًا قَالَتْ اٴُخْرَاھُمْ لِاٴُولَاھُمْ رَبَّنَا ہَؤُلَاءِ اٴَضَلُّونَا فَآتِھِمْ عَذَابًا ضِعْفًا مِنَ النَّارِ قَالَ لِکُلٍّ ضِعْفٌ وَلَکِنْ لَاتَعْلَمُونَ-
۳۹ وَقَالَتْ اٴُولَاھُمْ لِاٴُخْرَاھُمْ فَمَا کَانَ لَکُمْ عَلَیْنَا مِنْ فَضْلٍ فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا کُنتُمْ تَکْسِبُونَ-
ترجمہ
۳۸۔ (خداوند کریم ان سے) کہے گا: جنّوں اور انسانوں میں سے جو تم سے پہلے تھے (اور وہ بد اعمالی میں تم جیسے تھے) ان کے ہمراہ تم بھی آگ میں داخل ہوجاؤ، جب بھی ایک گروہ (آگ میں) داخل ہوگا تو وہ دوسرے گروہ پر لعنت بھیجے گا تاکہ سب ذلت کے ساتھ اس میں باقی رہیں ۔ (اس ہنگام) پیروی کرنے والا گروہ اپنے پیشواؤں کے متعلق کہے گا: خدایا! یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے ہمیں گمراہ کیا تھا لہٰذا آگ کے عذاب کو ان کے لئے دوگنا قرار دے (ایک عذاب خود ان کی گمراہی کے بدلہ میں دوسرا عذاب ہم کو گمراہ کرنے کے بدلہ میں خدا ) کہے گا کہ تم میں سے ہر ایک کے لئے دوگنا عذاب ہے لیکن تم نہیں جانتے (کیونکہ پیروی کرنے والے اگر پیشواؤں کے چاروں طرف اکھٹا نہ ہوتے تو وہ دوسروں کو گمراہ نہ کر پاتے) ۔
۳۹۔ پیشوا اپنے پیروؤں سے کہیں گے تمھیں ہم پر کوئی امتیاز حاصل نہیں ہے پس عذاب (الٰہی) کا مزہ اس (عمل) کے بدلے میں چکھو جو تم نے انجام دیا ہے

 


 ۱۔ مزید توضیح کے لئے تفسیر نمونہ جلد پنجم ملاحظہ فرمائیں (ص ۱۶۰ اردو ترجمہ)
 
دوزخ میں پیشواؤں اور پیروؤں کا جھگڑاایک اور سازش کا جواب
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma