آدم کی بازگشت خدا کی طرف

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 06
آدم(علیه السلام) کا ماجرا اور اس جہان پر ایک طائرانہ نظر ۳۔ آیا آدم نے گناہ کیا تھا؟

آخر کار جب آدم و حوّا نے شیطان کی چال کو خوب اچھی طرح سمجھ لیا اور مخالفت کرنے کا نتیجہ ان کے سامنے آگیا تو انھیں اپنے گذشتہ نقصان کی تلافی کی فکر لاحق ہوئی، چنانچہ انھوں نے پہلا قدم یہ اٹھایا کہ اپنے اوپر جو ظلم و ستم کیا تھا اس کا خدا کی بارگاہ میں اعتراف کیا اور کہا: اے پرورگارا! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم و ستم کیا ( قَالَارَبَّنَا ظَلَمْنَا اٴَنفُسَنَا ) ۔
اور اگر تو ہم کو نہ بخشے گا اپنی رحمت ہمارے شامل حال نہ کرے گاتو ہم نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوجائیں گے(وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِینَ) ۔
خدا کی طرف پلٹنے کے سلسلہ میں اور اصلاح مفاسد کے لئے سب سے پہلا قدم یہ ہے کہ آدمی غرور اور ہٹ دھرمی کی سواری سے نیچے اتر آئے اور اپنی غلطی کا اعتراف کرلے، ایک ایسا اعتراف جو اس کی اصلاح کرنے والا ہو اور اسے ترقی کی راہ پر گامزن ہونے میں مدد کرے ۔
یہاں پر یہ بات قابل توجہ ہے کہ آدم و حوا نے توبہ اور طلب عفو میں یہ ادب ملحوظ رکھا کہ یہ بھی نہ کہا کہ خدایا! ہمیں بخش دے (اغفرلنا) بلکہ وہ یہ کہتے ہیں کہ اگر تو ہمیں نہ بخشے گا تو ہم گھاٹا اٹھائیں گے!
اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ ہر گناہ اور اس کی ہر نافرمانی اپنے اوپرظلم و ستم کا کرنا ہے کیونکہ جتنے بھی احکام و قوانین ہیں سب کے سب سعادتِ انسانی اور اس کے تکامل کے لئے بنائے گئے ہیں بنابریں ان قوانین کی جو بھی خلاف ورزی ہوگی وہ تکامل کی راہ میں حائل ہوکر انسان کے تنزل کا باعث بنے گی ۔ آدم و حوّا نے بھی اگر چہ گناہ واقعی نہیں کیا تھا لیکن یہی ترکِ اولیٰ ان کے لئے اپنے بلند و بالا مقام سے نیچے اتر آنے کا باعث بن گیا ۔
اگر چہ آدم و حوّا کی خالص توبہ خدا کی بارگاہ میں درجہ قبولیت پر فائز ہوگئی جیسا کہ سورہٴ بقرہ کی آیت ۳۷ میں ہم نے پڑھا کہ”فتاب علیہ“ (خدانے ان کی توبہ قبول کرلی)لیکن اس ”ترک اولیٰ“ کا جو لازمی نتیجہ تھا وہ ظاہر ہو کر رہا کیونکہ انھیں یہ حکم ملا کہ بہشت سے باہر نکل جائیں فرمایا: نیچے اتر جاؤ اس طرح سے تم (یعنی انسان اور شیطان) ایک دوسرے کے دشمن ہوگے ( قَالَ اھْبِطُوا بَعْضُکُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ) ۔
اور زمین ایک مدت تک تمہاری قرارگاہ اور زندگی کے دن پورے کرنے کے لئے ایک وسیلہ بنے گی (وَلَکُمْ فِی الْاٴَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلیٰ حِینٍ) ۔
نیز یہ بات بھی ان کے کان میں ڈال دی کہ تم زمین میں زندگی کے دن پورے کرو گے، اسی میں مرو گے اور بروز محشر حساب کتاب کے لئے اسی سے بر آمد بھی ہوگے ( قَالَ فِیھَا تَحْیَوْنَ وَفِیھَا تَمُوتُونَ وَمِنْھَا تُخْرَجُونَ) ۔
اس آیت ” قَالَ اھْبِطُوا بَعْضُکُمْ لِبَعْضٍ عَدُوّ“ سے ظاہر تو یہ ہوتا ہے کہ اس سے آدم و حوّا اور شیطان سب مرد ہیں لیکن بعد والی آیت اس بات کا قرینہ ہے کہ اس سے صرف آدم و حوّا مراد ہیں کیونکہ انہی کا حشر و نشر زمین سے ہوگا ۔

آدم(علیه السلام) کا ماجرا اور اس جہان پر ایک طائرانہ نظر ۳۔ آیا آدم نے گناہ کیا تھا؟
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma