میراث ، وصیت اور قرض کے بعد ہے

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 03
بھائیوں اور بہنوں کی میراث ایک سوال اسر اس کا جواب

من بعد وصییة یوصی بھا او دین
اس کے بعد قرآن فرماتا ہے کہ وارث مال کو اپنے درمیان اس وقت تقسیم کر سکتے ہیں جبکہ مرنے والے نے وصیت نہ کی ہو اور نہ کسی کا قرض اس کے ذمہ ہو ۔ اگر وہ وصیت کر گیا ہے یا وہ کسی کا مقروض ہے تو پہلے وصیت کی تکمیل اور قرض کی ادئیگی ضروری ہے ( البتہ جیسا کہ باب وصیت میں تحریر کیا جا چکا ہے کہ وصیت کرنے والا اپنے مال کے تہائی حصہ تک کی وصیت کر سکتا ہے اگر وہ اس سے زیادہ مال کی وصیت کرے تو درست نہیں ہے ہاں البتہ وارث اجازت دے دیں تو صحیح ہے ) ۔
آباؤُکُمْ وَ اٴَبْناؤُکُمْ لا تَدْرُونَ اٴَیُّہُمْ اٴَقْرَبُ لَکُمْ نَفْعاً ۔۔۔
خدا وند عالم اس آیت میں فرماتا ہے : تمہیں نہیں معلوم کہ تمہارے باپ دادا اور اولاد میں سے تمہارے لئے کون زیادہ مفید ہے یعنی قانون میراث نوع بشر کے حقیقی اور اصلی مصالح اور مفادات کی بنیاد پر قائم کیا گیا ہے اور ان مصلحتوں کی تشخیص خدا ہی کے ہاتھ میں ہے کیونکہ انسان ہر مقام پر اپنی بہتری کو سمجھنے سے قاصر ہے ۔ ہو سکتاہے کہ بعض لوگ یہ گمان کریں کہ ماں باپ انسان کی بہت سی ضروریات کے ذمہ دار ہوتے ہیں اس لئے انہیں میراث میں اولاد پر مقدم ہونا چاہیے ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ بعض لوگ اس کے بر عکس سوچیں ۔ ان حالات میں اگر میراث کا قانون ہاتھ میں ہوتا تو اس میں طرح طرح کے اختلافات اور جھگڑے پیدا ہوتے لیکن خدا وند عالم جو حقائق کو جس طرح کہ وہ ہیں بخوبی جانتا ہے ۔ اس نے قانون میراث کے مثبت نظام کو جس میں نوع بشر کی بھلائی ہے مقرر فرمایا ہے ۔
فَریضَةً مِنَ اللَّہِ إِنَّ اللَّہَ کانَ عَلیماً حَکیماً ۔
یہ ایک ایساقانون ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے واجب ہے اور وہ دانا وحکیم ہے ۔
یہ جملہ گذشتہ مطالب کی تاکید کے لئے آیا ہے تا کہ لوگ میراث سے مربوط قوانین کے بارے میں کوئی اعتراض نہ کر سکیں ۔
میراث میں میاں بیوی کا ایک دوسرے سے حصہ
وَ لَکُمْ نِصْفُ ما تَرَکَ اٴَزْواجُکُمْ إِنْ لَمْ یَکُنْ لَہُنَّ وَلَدٌ
گذشتہ آیت میں اولاد اور ماں باپ کے حصہ کی طرف اشارہ ہوا تھا ۔ یہاں میاں بیوی کے ایک دوسرے سے میراچ لینے کی کیفیت کی وضاحت کی گئی ہے ۔ آیت کہتی ہے ۔مرد صاحب اولاد نہ ہو تو اپنی بیوی کے مال میں سے آدھی میراث لے گا لیکن اگر اس کے ایک یا کئی بچے ہوں ( چاہے وہ کسی اور شوہر کے کیوں نہ ہوں ) تو پھر شوہر مال کا ایک چوتھائی حصہ لے گا ۔
فَإِنْ کانَ لَہُنَّ وَلَدٌ فَلَکُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَکْنَ
البتہ یہ تقسیم بھی بیوی کا قرض ادا کرنے اور اس کی مالی وصیتوں کو پورا کرنے کے بعد ہے ۔ جیسا کہ ارشاد قدرت ہے :
من بعد وصییة یوصی بھا او دین ۔
وہی بیویوں اپنے شوہر کے مال سے جبکہ شوہر کی کوئی اولاد نہ ہو تو وہ مال کا چوتھائی حصہ ہے ۔ جیسا کہ ارشادہوتا ہے :
وَ لَہُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَکْتُمْ إِنْ لَمْ یَکُنْ لَکُمْ وَلَدٌ ۔۔
لیکن اگر شوہر کی اولاد نہ ہو ( چاہے یہ اولاد کسی اور بیوی سے ہو )تو پھر عورتوں کا آٹھواں حصہ ہوگا ۔( فَإِنْ کانَ لَکُمْ وَلَدٌ فَلَہُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَکْتُمْ )
یہ تقسیم میراث بھی پہلی تقسیم کی طرح شوہر کے قرضوں کی ادائیگی اور مالی وصیت پوری کرنے کے بعد ہو گی ( من بعد وصییة یوصی بھا او دین ) ۔
قابل توجہ امر یہ ہے کہ شوہر اور بیوی کا حصہ اولاد کی موجودگی میں آدھا ہے ۔ یہ اولاد کے حقوق کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہے ۔
اس بات کا سبب کہ شوہر کا حصہ عورت سے دوگنا قرار دیا گیا ہے ، وہی ہے جو گذشتہ بحث میں تفصیل کے ساتھ بیٹے اور بیٹی کی میراث کے بارے میں تحریر کیا جا چکا ہے ۔
اس نکتہ کی طرف بھی توجہ ضروری ہے کہ جو حصہ عورتوں کے لئے مقرر ہوا ہے ( چاہے وہ چوتھا ہو یا آٹھواں ) وہ ایک بیوی سے مخصوص نہیں ہے بلکہ اگر مرد کئی بیویاں ہوں تو بھی مذکورہ حصہ ان سب کے درمیان مساوی تقسیم ہو گا ۔ آیہ مذکورہ بالا کا ظہور یہی ہے ۔

بھائیوں اور بہنوں کی میراث ایک سوال اسر اس کا جواب
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma