چند اہم نکات

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 03
مردوں کے لئے اس میں سے جو کچھ ان کے والدین سفیہ کسے کہتے ہیں

۱۔ لفظ حتیٰ سے معلوم ہوتاہے کہ سن رشد تک پہنچنے سے پہلے یتیموں کی لگا تار آزمائش ہونی چاہیے یہاں تک کہ وہ بلوغت کی منزل میں داخل ہو جائیں اور عقلی طور پر مکمل طریقے سے اپنے مال کی دیکھ بھال کر سکیں ۔ ضمنی طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ آزمائش سے مراد یتیموں کی تدریجی تربیت ہے ۔ یعنی انہیں آزاد نہ چھوڑ دیں یہاں تک کہ وہ بالغ ہو جائیں اور اس کے بعد مال ان کے حوالے کر دےں ۔ بلکہ بلوغت سے پہلے پہلے انہیں مستقل زندگی گزارنے کے لئے عملی تربیت دیں ۔
باقی رہا یہ کہ یتیموں کی آزمائش کس طرح کی جائے تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ کچھ مال ان کو دے دیا جائے تا کہ وہ اس سے تجارت کریں ۔ لیکن ان کے اعمال کی نگرانی اس خوبی سے کی جائے کہ ان کے کام میں کوئی خلل واقع نہ ہو ۔
جب یہ معلوم ہو جائے کہ وہ یہ کام بخیر و خوبی انجام دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور لین دین میں دھوکا نہیں کھاتے تو ان کے اموال انہیں دے دئے جائیں یا لگا تار تعلیم و تربیت کے ذریعے ان کی اس طرح پر ورش کی جائے کہ وہ آئندہ زندگی کی باگ دوڑ سنبھال لیں ۔
۲۔ ”اذا بلغوا النکاح “ میں اس طرف اشارہ ہے کہ جب وہ زندگی کی اس حد میں قدم رکھیں کہ ازدوج کی قدرت رکھتے ہوں اور ظاہر ہے کہ جو بیاہ کی اہلیت رکھتا ہے ، گھریلو ذمہ داریوں کو بہتر طور پر انجام دینے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے اور ایسا شخص سرمائے کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتا ۔ بنا بریں ازدوجی زندگی مستقل اقتصادی زندگی کے ساتھ ساتھ شروع ہوتی ہے ۔ دوسرے لفظوں میں یتیموں کی ثروت و دولت انہیں واپس کر دی جائے تا کہ جب وہ جسمانی طور پر بالغ ہو جائیں اور انہیں مال کی بہت زیادہ ضرورت ہو تو اس کے ساتھ ان کی ساچ میں بھی پختگی آ جائے جس سے وہ اپنے مال کی بخوبی حفاظت کر سکیں ۔
۳۔ ”انستم منھم رشداً “ یہ اس طرف اشارہ ہے ۔کہ ان کا رشد ( سوجھ بوجھ ) پوری طرح واضح ہو ۔کیونکہ ” انستم “ مادہ ” ایناس “ سے ہے ۔ جس کے معنی مشاہدہ کرنے اور دکھنے کے ہیں اور یہ مادہ مادہٴ انسان سے ہے جس کے ایک معنی آنکھ کی پتلی کے بھی ہیں ۔ حقیقت میں مشاہدہ اور دیکھنے کے وقت انسان یعنی آنکھ کی پتلی سے مدد لی جاتی ہے ۔ اسی لئے مشاہدہ کرنے کو ایناس سے تعبیر کیا گیا ہے ۔
وَ لا تَاٴْکُلُوہا إِسْرافاً وَ بِداراً اٴَنْ یَکْبَرُوا
اس کے بعد پھر سر پرستوں کو تاکید کر رہا ہے کہ کسی طرح سے بھی یتیموں کے مال میں خیانت اور بے ایمانی نہ کریں اور ان کے ہوش سنبھلنے سے پہلے ان کا سر مایہ ضائع نہ کریں ۔
وَ مَنْ کانَ غَنِیًّا فَلْیَسْتَعْفِفْ وَ مَنْ کانَ فَقیراً فَلْیَاٴْکُلْ بِالْمَعْرُوفِ
یعنی اگر یتیموں کے سر پرست صاحب حیثیت اور مال دار ہیں تو پھر کسی طریقہ سے بھی ان کے مال سے فائدہ نہ اٹھائیں اور اگر فقیر و نادار ہیں تو صرف ان ذمہ داریوں کے بدلے جو انہوں نے یتیم کے مال کی حفاظت کے لئے اٹھائے ہیں عدل و انصاف کرتے ہوئے ان کے مال میں سے اپنی کار کردگی کے مطابق لے سکتے ہیں ۔
اس سلسلے میں کئی روایتیں بھی ہیں جنہوں نے اس آیت کے مفہوم کی وضاحت کی ہے ۔جیسا کہ ہم تحریر کر چکے ہیں۔ان میں سے ایک روایت حضرت امام جعفر صادق (ع) سے مروی ہے :
فذٰلک رجل یحبس نفسہ عن المعیشة فلا باٴس ان یاٴکل بالمعروف اذا کان یصلح لھم فان کان المال قلیلا فلا یاٴکل منہ شیئاً۔
اس سے تو وہ شخص مراد ہے جس کو یتیم کے مال کی حفاظت اپنا مستقبل سنوارنے سے روک دے تو وہ اس صورت میں یتیم کے مال سے مناسب اندازے کے مطابق لے سکتا ہے اور یہ اسی صورت میں ہے جبکہ یتیم کے لئے اس میں فائدہ ہو اور اگر یتیم کا مال کم ہو ( اور اس کی سر پرستی میں زیادہ وقت بھی صرف نہ ہوتا ہو )تو اس حالت میں یتیم کے مال سے ذرہ بھر بھی نہ لے ۔
فاذا دفعتم الیھم اموالھم فاشہدوا علیھم۔
آخری حکم جو یتیموں کے سر پرستوں کے متعلق اس آیت میں بیان کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ جب تم ان کے مال ان کے سپرد کرنا چاہو تو گواہ بنا لو تا کہ اتہام ، نزع اور کسی قسم کے اعتراض کی گنجائش باقی نہ رہے۔
و کفیٰ باللہ حسیبا۔
البتہ یہ جان لو کہ حقیقی حساب کرنے والا تو خدا وند عالم ہی ہے اور ہر چیز سے زیادہ اہم یہ بات ہے کہ تمہارا حساب کتاب اس (خدا ) کے ہاں واضح ہو کیونکہ خدا وہ ہے کہ اگر تم سے کوئی ایسی بے ایمانی ہوئی ہوگی جو گواہوں کی نظروں سے بھی اوجھل ہو تو وہ اس کا حساب کر لے گا۔

 

مردوں کے لئے اس میں سے جو کچھ ان کے والدین سفیہ کسے کہتے ہیں
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma