سب اہل کتاب ایک جیسے نہیں

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 03
ایک سوال اور اس کا جواب قوت اور ضعف کے پہلو

سب اہل کتاب ایک جیسے نہیں

وان من اھل الکتاب لمن یوٴمن باللہ

یہ بات کہی جا چکی ہے کہ قرآن مجید میں دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کے بارے میں جو گفتگو ہے اس میں کبھی بھی سب کو ایک جیسا قرار نہیں دیا گیا ۔ قرآن یہ طریق کار ہے کہ وہ کسی قوم یا جماعت کے بارے میں ضد اور تعصب کا رنگ اختیار نہیں کرتا بلکہ اس کا فیصلہ اس کے لائحہ عمل کی بنیاد پر کرتا ہے ۔ لہذا وہ اس اقلیت کو فراموش نہیں کرتا جو ایمان اور عمل صالح کی حامل ہو اور گمراہ اکثریت کے درمیان زندگی گزار رہی ہو ۔ یہاں بھی اہل کتاب کو بہت زیادہ سرزنش کی گئی کیونکہ وہ آیات خدا کو چھپاتے تھے اور سرکشی اختیار کرتے اور پھر ان میں اس اقلیت کا تذکرہ ہے جس نے پیغمبر اکرم کی دعوت کو قبول کر لیا تھا ۔ ان لوگوں کی پانچ ممتاز صفات بیان فرمائی گئی ہیں ۔
۱ ۔یوٴمن باللہ وہ ایسے لوگ ہیں جو دل و جان سے خدا پر ایمان لے آتے ہیں ۔
۲ ۔ و ما انزل الیکم اور قرآن پر اور جو کچھ تم مسلمانوں پر نازل ہوا ہے اس پر ایمان لاتے ہیں ۔
۳ ۔ ما انزل الیھم در حقیقت پیغمبر اسلام پر ان کے ایمان لانے کی وجہ اپنی آسمانی کتاب پر ان کا حقیقی ایمان ہے جس میں پیغمبر اسلام کے بارے میں بشارتیں موجود ہیں ۔
۴ ۔ خاشعین للہ فرمان خدا کے سامنے وہ سر تسلیم خم کئے ہوتے ہیں اور یہ ان کا خشوع و خضوع ہی ہے جس نے حقیقی ایمان اور جاہلانہ تعصبات میں حد فاصل کھینچی ہے ۔
۵ ۔ لا یشترون بآیت اللہ ثمنا قلیلا وہ آیات الہی کو کبی کم قیمت پر فروخت نہیں کرتے اور وہ ایسے علماء یہودی کی طرح نہیں جو اپنے منصب کے تحفظ کے لئے لوگوں پر اپنے اقتدار کی بقاء کے لئے اور رشوت لے کر آیات خدا میں تحریف کر دیتے ہیں ۔ یہ واضح ہے کہ مطلب یہ نہیں ہے کہ کم قیمت پر
فروخت نہیں کرتے بلکہ مراد یہ ہے کہ کسی قیمت پر بھی فروخت نہیں کرتے ۔ کم قیمت کی طرف اشارہ کا مطلب یہ ہے کہ وہ ان علماء کی طرح نہیں ہیں جو دنیا پرست اور کم ہمت ہیں ۔ علاوہ ازیں ان آیات کے مقابلے میں بھی کچھ بھی وصول کیا جائے بے وقعت ہے ۔
اولئک لھم اجرھم عند ربھم
جن لوگوں کا اپنے پروردگار کے ہاں واضح و زندہ لائحہ عمل اور اعلیٰ انسانی صفات کی بناء پر اجر و ثواب ہے ان کے لئے یہاں ” ربھم “ کا لفظ ان پر پروردگار کے انتہائی لطف و کرم کا مظہر ہے نیز یہ اس طرف بھی اشارہ ہے کہ راہ ہدایت میں اللہ تعالیٰ ان کی تربیت اور مدد کرتا ہے ۔
ان اللہ سریع الحساب
خدا تعالیٰ بڑی تیزی سے بندوں کا حساب بے باق کر دے گا ۔ نہ نیکو کاروں کو اپنا اجر و ثواب معلوم کرنے کے لئے مشکلات سے دوچار ہونا پڑے گا اور نہ بد کاروں کے لئے تنبیہ و تہدید کی حیثیت رکھتا ہے  

 ۲۰۰ ۔ یا اٴَیُّہَا الَّذینَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَ صابِرُوا وَ رابِطُوا وَ اتَّقُوا اللَّہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُون۔
ترجمہ
۲۰۰ ۔ اے ایمان والو! (مشکلات اور ہوا و ہوس کے مقابلے میں ) استقامت و پا مردی دکھاوٴ اور دشمنوں کے مقالے میں ( بھی ) استقامت کا مظاہرہ کرو اور اپنی سر حدوں کی حفاظت کرو اور خدا س ے ڈرو شاید تم کامیاب ہو جاوٴ ۔

تفسیر

یہ سورہٴ آل عمران کی آخری آیت ہے ۔ اس میں چار نکات پر محیط ایک جامع لائحہ عمل تمام مسلمانوں کےلئے پیش کیا گیا ہے ، اسی لئے اس کا آغاز

 ” یا ایھا الذین اٰمنوا “ سے ہوا ہے ۔
۱۔ اصبرو۔۔۔۔یہ اس پروگرام کا پہلا نکتہ ہے جو کہ مسلمانوں کی سر بلندی اور کامیابی کا ضامن ہے ۔ اس کا مطلب استقامت و صبر اور حوادث کے مقابلے میں ڈٹ جانا ہے ۔ در اصل صبر و استقامت ہی ہر قسم کی مادی و روحانی کامیابی کی حقیقی جڑ ہے ۔ اجتماعی و انفرادی پیش رفت کے لئے اس کی جس قدر اہمیت بیان کی جائے کم ہے اسی کو حضرت علی (علیه السلام) نے کلمات قصار میں بدن کے ساتھ سر سے تشبیہ دی ہے فرماتے ہیں :
ان الصبر من الایمان کالراس من الجسد ۔
یعنی ۔ صبر کا یمان سے وہی تعلق ہے جو سر کا بدن سے ہے ۔
۲۔ صابروا ۔۔۔۔یہ ”مصابرہ -“ سے مفاعلہ کے باپ سے ہے ۔ اس کا معنی ہے دوسروں کے صبر و استقامت کے مقابلے میں صبر و استقامت دکھانا ۔
اس طرح خدائے تعالیٰ پہلے تو صاحبان ایمان کو صبر و استقامت کا حکم دیتا ہے ( جس میں ہر طرح کا جہاد نفس اور مشکلات حیات شامل ہیں ) اور دوسرے مرحلے میں دشمنوں کے مقالے میں استقامت کا حکم دیتا ہے ۔ اس کا اثر یہ ہے کہ جب تک کوئی قوم جہاد بالنفس اور اندرونی کمزوری کے پہلووٴں کی اصلاح میں کامیاب نہیں ہوتی دشمن پر اس کی کامیابی ممکن نہیں ہے اور دشمنوں کے مقابلے میں ہماری زیادہ تر ہزیمتیں اسی وجہ سے ہیں کہ جہاد بالنفس نہیں کیا گیا اور اپنے کمزور پہلووٴں کی اصلاح نہیں کی گئی جو ہمارے لئے ضروری ہے ۔
ضمنی طور پر اس کا حکم ( صابروا ) سے معلوم ہوتا ہے کہ دشمن جس قدر زیادہ استقامت کا مظاہرہ کرے ہمیں اس سے بڑھ کر استقامت و پا مردی کا مظاہرہ کرناچاہیے ۔
۳ ۔ و اربطوا ۔۔۔۔ اس لفظ کا مادہ ” رباط “ ہے ۔ اس کا معنی ہے ” کسی چیز کو کسی مکان میں باندھ دینا ( مثلاً گھوڑے کو کسی جگہ باندھنا ) ۔ اسی لئے سرائے یا
کاروانوں کے ٹھہرنے کی جگہ کو رباط کہتے ہیں ۔ ربط قلب کام مطلب ہے دل کا اطمینان اور سکون خاطر ، گویا وہ کسی جگہ بندھا ہوا ہے ۔ مرابطہ کا معنی ہے سرحدوں کی نگرانی کرنا کیونکہ وہاں سپاہی ، سواریاں اور جنگی وسائل فراہم کئے جاتے ہیں اور انہیں وہاں رکھا جاتا ہے ۔
یہ لفظ مسلمانوں کو دشمن کے مقابلے کے لئے تیار رہنے اور اسلامی ملکوں کی سرحدوں کی حفاظت کا حکم دیتا ہے ۔ تا کہ دشمن ان پر بے خبری کے عالم میں اچانک حملہ نہ کر دے ۔ نیز انہیں شیطان اور سر کش ہوا و ہوس کے مقابلے کے لئے بھی ہمیشہ تیار رہنے اور ان کے ہتھکنڈوں سے چوکنا رہنے کا حکم دیتا ہے تا کہ وہ غفلت میں نہ پڑ جائیں ۔
اسی لئے بعض روایتوںمیں ہے کہ امیر المومنین علی(علیه السلام) نے اس لفظ کی تفسیر ایک نماز کے بعد دوسری نماز کی پابندی اور انتظار کی ہے کیونکہ جو شخص عبادت کے ذریعے اپنے دل و جان کو ہمیشہ اور لگاتار بیدار رکھے وہ ایسے سپاہی کی مانند ہے جو ہر وقت دشمن سے مقابلے کے لئے تیار ہو ۔
غرضیکہ رابطہ وسیع معنی رکھتا ہے جو اپنی ذات اسلامی معاشرے کے دفاع کی تیاری پر محیط ہے ۔ چنانچہ فقہ اسلامی کے باب جہاد میں ایک بحث ” مرابطہ “ ( یعنی سرحدوں کی حفاظت کے لئے دشمنوں کے احتمالی حملے کے مقابلے کے لئے آمادگی ) کے عنوان سے ہے ۔ جس میں خاص خاص احکام بیان کئے گئے ہیں ۔
بعض روایات میں علمائے کرام کو بھی ” مرابطہ “ کہا گیا ہے ۔ چنانچہ ایک روایت کے مطابق حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :
علماء شیعتنا مرابطون فی اثغر الذی یلی ابلیس و عفاریتہ و یمنعونہ عن الحروج علی ضعفاء شیعتنا و عن ان یتسلط علیھم ابلیس ۔
ہمارے شیعہ علماء سرحدوں کی حفاظت اور نگرانی کرنے والوں کی طرح ہیں ، جو شیطان ک فوج کے سامنے صف باندھے کھڑے ہیں اور ان لوگوں کا

( شیطان اور اس کی فوج کے حملے سے ) دفاع کرتے ہیں جو ان کے تاب نہیں لا سکتے ۔ ۱
اس حدیث کے ذیل میں علمائے کرام کا مرتبہ اور شان سرحدوں کی حفاظت کرنے والے افسروں اور سپاہیوں کے مقابلے میں جو اسلام کے دشمنوں سے جنگ کر رہے ہیں کہیں بڑھ کر بیان کی گئی ہے اور یہ اس بنا پر ہے کہ علماء ، کے عقیدے ، فرہنگ اور ثقافت دشمنوں کے حملے کی زد میں ہو اور وہ ان اک قرار واقعی دفاع نہ کر سکے تو وہ جلد ہی سیاسی اور فوجی نقطہ نظر سے بھی شکست کھا جائے گی ۔
۴ ۔ و التقوا اللہ ۔۔۔۔۔ اورآخری حکم جو تمام احکامات پر سایہ فکن ہے وہ پرہیز گاری کا حکم ہے ۔ استقامت ، صبر اور مرابطہ کے ساتھ تقویٰ اور پرہیزگاری کا ہونا بھی نہایت ضروری ہے تا کہ ہر قسم کی خود پسندی ، ریا کاری اور شخص اغراض قریب نہ آنے پائیں ۔ لعلکم تفلحون۔ تم ان چارو حکموں کی پابندی کے سائے میں فلاح و کامیابی حاصل کر سکتے ہو اور ان سے رو گردانی کرنے سے کامیابی کا راستہ تم پر بند ہو جائے گا ۔

 


1۔ اس جملے کی مزید توضیح کے لئے سورہ بقر آیت ۲۰۲ کی تفسیر کی طرف رجوع کریں ۔

 

ایک سوال اور اس کا جواب قوت اور ضعف کے پہلو
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma