ایک تکلیف دہ سوال

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 03
قوت اور ضعف کے پہلومرد اور عورتوں کی روحانی قدر و قیمت

ایک تکلیف دہ سوال

شان نزول میں جو سوال سامنے آتا ہے وہ زمانے پیغمبر کے مسلمانوں کے حسب حال ہے یہ در اصل ایک عمومی سوال ہے جو ہر دور میں اکثر لوگ پوچھتے رہتے ہیں ۔ یہ لوگ زیادہ تر ظالموں ، سرکشوں ،فرعونوں کی خوشحالی اور ناز و نعمت سے معمور زندگی کا موازنہ ایسے اہل ایمان سے کرتے ہیں جن کی زندگی مشقت و زحمت ہی سے بھری ہوئی ہے ۔ لوگ کہتے ہیں کہ برے لوگ اپنی ظالمانہ اور گناہ آلود زندگی کے باوجود خوش حال کیوں ہیں لیکن اہل ایمان اپنے ایمان و تقویٰ کے باصفت سختی و تنگی کی زندگی کیوں گذارر ہے ہیں ۔ بعض اوقات یہ چیز کمزور ایمان والوں میں شک و شبہ پیدا کر دیتی ہے ۔
اس سوال کا اگر بغور جائزہ لیا جائے اور اس کے دونوں پہلووٴں پر گہری نظر کی جائے تو واضح اور روشن جوابات سامنے آئیں گے ۔ جن میں سے بعض کی طرف آیہٴ بالا میں اشارہ کیا گیا ہے ۔ مزید توجہ سے مطالعہ کیا جائے تو دوسرے جوابات بھی حاصل ہو جاتے ہیں ۔
آیت کہتی ہے : ”لا یَغُرَّنَّکَ تَقَلُّبُ الَّذینَ کَفَرُوا فِی الْبِلادِ “ مختلف شہروں میں کافروں کی کامیابی سے آمد و رفت تجھے ہر گز دھوکے میں نہ ڈال دے ۔ اگر چہ ظاہراً آیت میں رسول اللہ مخاطب ہیں لیکن واضح ہے کہ موصود تمام مسلمان ہیں ۔
اس کے بعد فرماتا ہے ” متاع قلیل “ یہ کامیابیاں اور یہ بلا شرط مادی فائدے جلد گزرجانے والے اور جا چیز ہیں ۔ ”ثُمَّ مَاٴْواہُمْ جَہَنَّمُ وَ بِئْسَ الْمِہادُ“ ان کامیابیوں کے کے پیچھے ان کے لئے انجام بد اور ایسی ذمہ داریاں ہیں جو ان کا دامن پکڑے رہیں گی اور ان کا ٹھکانہ جہنم ہے اور یہ کیسا برا ٹھکانہ ہے ۔
مندرجہ بالا آیت در حقیقت دو نکتوں کی طرف اشار کرتی ہے :
پہلا یہ کہ سرکشوں اور ظالموں کی بہت سی کامیابیوں کا دائرہ محدود ہے ۔ جیسے بہت سے اہل ایمان کی محرومیاں اور تکلیفیں بھی محدود ہیں ۔ اس امر کا گواہ اسلام کا ابتدائی دور ہے ۔ اس میں مسلمانوں اور ان کے دشمنوں کی حالت ہم دیکھ دکتے ہیں ۔ اس وقت حکومت اسلامی بالکل نو ساختہ تھی ۔ طاقتور دشمنوں کی طرف سے ان پر طوفان آپڑے تھے ۔ انہیں ڈرایا دھمکایا جاتا تھا ۔ اس لئے حکومت اسلامی کے پر و بال سمٹے ہوئے تھے ۔ خصوصا مکہ کے مسلمانوں کی ہجرت کی وجہ سے وہ مسلمان جو انتہائی کم تعداد میں تھے بالکل ساکت ہو رہ گئے تھے ۔ یہ کیفیت صرف انہی سے مخصوص نہ تھی بلکہ وہ تمام لوگ جو کسی ایک بنیادی اور روحانی انقلاب کے حامی ہوں اور ایک فاسد معاشرے میں رہتے ہوں انہیں محرومیت کے ایک شدید درد سے گزرنا پڑتا ہے ۔
ہم جانتے ہیں کہ مسلمانوں کی یہ کیفیت زیادہ دیر تک نہ رہی ۔ حکومت اسلامی کی جڑیں مضبوط ہو گئیں اور اس کی شاخیں قوی ہو گئیں ۔ اسلامی ملک میں دولت کا سیلاب امنڈ آیا اور عیش عشرت میں رہنے والے بد ترین دشمن خاک سیاہ پر جا بیٹھے ۔ آیت میں اسی صورت حال کو ” متاع قلیل “ کہا گیا ہے ۔
دوسرا یہ کہ بعض بے ایمانوں کی مادی ترقی اس لئے بھی ہے کہ وہ دولت سمیٹنے میں کسی اصول اور قانون کے قائل نہیں ہوتے اور جائز نا جائز ہر طریقہ سے ، یہاں تک کہ بے کسوں کا خون چوس کر بھی دولت سمیٹنے لگے رہتے ہیںجبکہ اہل ایمان حق و عدالت کے اصولوں کو ملحوظ رکھتے ہیں اور اس لسلسے میں پابندیوں کو ملحوظ رکھتے ہیںاور نا جائز طریقوں سے دولت سمیٹنے پر پابندیاں ہونا بھی چاہئیں ۔ اس لئے دونوں کے حالات کو ایک دوسرے پر قیاس نہیں کیا جا سکتا ۔ اہل ایمان کو ذمہ دارویوں کا احساس ہوتا ہے جبکہ بے ایمانوں کی نظر میں کوئی ذمہ داری نہیں اور کیونکہ یہ دنیا ارادہ و اختیار کی آزادی کی دنیا ہے اس لئے خدا تعالیٰ نے دونوں گروہوں کو آزاد چھوڑ رکھا ہے تا کہ ہر ایک کا انجام اس کے عمل کی روشنی میں مرتب ہو سکے ۔ اس امر کی طرف آیہٴ بالا میں اشارہ کیا گیا ہے ۔
ثُمَّ مَاٴْواہُمْ جَہَنَّمُ وَ بِئْسَ الْمِہادُ۔

قوت اور ضعف کے پہلومرد اور عورتوں کی روحانی قدر و قیمت
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma